Thursday, October 17, 2024

کاش ایسا ہو جائے

 

چینی صدر کی سوچ ہے  کہ چین اور امریکہ کے درمیان کامیاب شراکت داری دونوں ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ رکاوٹ بننے کے بجائے ایک دوسرے کی ترقی کے لیے معاون بنیں۔ چین امریکہ کے ساتھ شراکت دار اور دوست بننے کا خواہشمند ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ دنیا کو فائدہ پہنچے گا ۔مزید یہ کہ  چین اور امریکہ کے تعلقات دنیا کے اہم ترین دوطرفہ تعلقات میں سے ہیں جن کا اثربنی نوع انسان کے مستقبل اور تقدیر پر ہے۔

 (فائل فوٹو چینی صدر ژی جِن پنگ)

پچھلے سال کے دوران تجارتی تعلقات خراب ہوئے تو  الیکٹرک گاڑیوں اور جدید سیمی کنڈکٹرز پر پابندیوں سمیت مسائل سامنے آئے۔امریکہ ہو یا چین،  کسی بھی ملک کی ایجاد خواہ کوئی بھی ہو ، ہوتی تو بنی نوع انسان کی ترقی اور آگے بڑھنے کے لئے ہے، اکثر و بیشتر تو انسانیت کی فلاح و بہبود ہی کسی بھی ایجاد کا مطمعہ نظر ہوتا ہے۔لیکن جب تعصب اور حسد کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے تو ہر ایجاد کو منفی یا تخریب کاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی ایجاد کا غلط استعمال اس وقت ہؤا جب ذہن کے کسی گوشے میں ملک دشمنی حاوی رہی لیکن اگر کسی بھی ایجاد کو آپس کی ترقیاتی دوڑ کی نظر سے دیکھا  گیا تو نتائج نہایت ہی مثبت برآمد ہوئے اور  فلاحِ انسانیت نے فروغ پایا۔حد تو یہ ہے کہ ایک ہی ملک کی دو  ہوا باز کمپنیوں   بوئنگ اور میکڈونل ڈگلس نے جب تک مقابلہ کرنے کی فضاء قائم رکھی ، دونوں اپنے اپنے عروج پر گئیں لیکن جوں ہی ان میں سے ایک  کی سوچ میں حسد کا عنصر رونما ہؤا تو نقصان دونوں ہی کا ہؤا اور اس  کے نتیجے میں  کسی دوسرے ملک کی ہوائی کمپنی  ائر بس نے فائدہ اٹھایا۔

اپنے ارد گرد اور چند دھائیوں آگے پیچھے نظر دوڑا کر دیکھیں تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں سلیکن ((Silicon اور لیتھیم  (Lithium )عناصر پر مشتمل پروڈکٹس  کی ایجادات کے ذریعے  آسمان کو چھو لینے  والی کمپنیوں نے جو انقلاب بپا کیا ہے وہ چند لوگوں کی مثبت  سوچ ،  باہمی رواداری     اور شراکت داری کا ہی نتیجہ ہے۔ان پروڈکٹس میں کمپیوٹرز، موبائل فونز، روبوٹس ، الیکٹرک کاریں، ریل گاڑیاں اور اب ہوائی جہاز بھی باقاعدہ انسانوں کے استعمال میں آ چکے ہیں۔ابھی دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا اگر چینی صدر کے فلسفہ شراکت داری اور رکاوٹ بننے کے بجائے مقابلہ کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔