Search This Blog

Sunday, June 29, 2025

جینٹس فرسٹ


خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہوں کہ خالقِ کائنات کا پہلے آدم اور اس کے بعد حوّا کی تخلیق رائج الوقت لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کے بالکل برعکس عمل تھا۔ شاید اس کا مقصد مرد کی برتری ثابت کرنا ہو لیکن از راہِ تفنّن عرض کروں کہ عورت نے اس کا بدلہ آدم کو شجرِ ممنوعہ کا پھل کھلا کر جنّت سے نکلوا کر لے لیا جس کا کوئی توڑ نہیں اور اگر ہے بھی تو تقریباً ناممکن کیونکہ عورت نے اپنا نمائندہ قیامت تک تمام انسانوں کے پیچھے ایسا لگایا جس سے جان چھڑانا تقریباً ناممکن ہی نظر آتا ہے۔

(اپنی ذاتی البم سے لی گئی تصویر)

افسوس کا پہلو یہ ہے کہ مرد نے اپنی برتری فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے اس کے قطعئی برعکس چلنے کا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ صبح شام بھگتتا ہے۔تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ اقوام میں لیڈیز فرسٹ کا سکّہ چلتا ہے ، جہاں ایسا نہیں وہ پس ماندہ اقوام کہلاتی ہیں کیونکہ لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کو جب خواتین کے حقوق کا رنگ دے دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جیسے حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کیے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔

مجھے تو روزمرہ کی زندگی میں ایک زیادتی شدت سے متاثر کرتی ہے کہ لڑکی یا عورت چوبیس گھنٹے ، سات دن اور پورا سال کوئی نہ کوئی ذمہ داری نبھا رہی ہوتی ہے جب کہ مرد کوہر جگہ ، ہر وقت، ہر دن کسی نہ کسی بہانہ چھٹی چاہئے ہوتی ہے وہ قومی سطح ہو، صوبائی ہو، غم ہو، خوشی ہو، سرکاری ہو یا پرائیویٹ اور اگر سب چھٹیاں ختم ہو جائیں تو جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی مرد ہی اس کو بنا کر دے دیتے ہیں۔بیٹی نے ذرا چلنا شروع کیا اور اس کو چھوٹے بھائی کی نگرانی پر لگا دیا، ذرا بڑی ہوئی تو اسی بھائی کو پہلے کھانا کھلا کر بعد میں بچا ہؤا اس کو، گھر کی صفائی اور تمام گھر گرستی لڑکی کی ذمہ داری، چار جماعتیں پڑھا کر اسکول ختم اور شادی کے لئے قربانی کی بکری کی نمائش شروع، شادی کے بعد سسرال میں تمام وہ ذمہ داریاں جو بابل کے گھر تھیں بِنا کسی چھٹی کے۔ جذباتی ہو جاتا ہوں یہ سب لکھتے لکھتے، اس لئے زیادہ نہیں لکھ پاتا ورنہ ایک مکمل کتاب اسی موضوع پر لکھ بیٹھوں لیکن پھر بھی اپنی اور آپ کی زندکی پر سکون بنانے کے واسطے اسی نکتہ کی وکالت کرونگا کہ فطرت سے ہم آہنگی میں ہی سکون ہے، اس پر ساری عمر بحث ہو سکتی ہے۔ 

Monday, June 23, 2025

طاقتور سے ٹکر لینے کا فائدہ؟

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال نےخالقِ کائنات سے شکوہ کرنے کے بعد جوابِ شکوہ لکھ کر اس نکتہ کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ فطرت کے نظام سے بغاوت قطعئی مناسب نہیں بلکہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہم جس نظام سے ٹکر لینا چاہتے ہیں اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔اسی طرح سر سید احمد خان نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔خالقِ کائنات کے بعد تمام تر طاقت ان کے پاس ہے ، ان سے ٹکر لے کر مسلمان تباہ ہو جائیں گے ، ان کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مسلمان کچھ نہ کچھ حاصل کر پائیں گے۔

(اپنے گھر کی چھت پر طاقتور سورج کو دیکھتے ہوئے )

 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے ۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دُوربِیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔لہٰذا طاقتور کے نظام سے ٹکر لینے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنے میں ہی بہتری ہے جیسے خالقِ کائنات کے بارے میں ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ سب سے بڑا ہے، سب سے زیادہ طاقتور ہے ، اس کا نظام جیسے بھی قائم ہے ہم انسانوں کو اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنا ہوگا ورنہ ہم خود برباد ہو جائیں گے۔ سر سید احمد خان کا یہ قول کہ "چلو تم ادھر کو ، ہوا ہو جدھر کی" اسی لئے مشہور ہے لیکن بہت سے دانشوروں نے اس پر منفی تنقید کا نکتہ نکالا کہ اس قول کا مطلب منافقت ، موقع پرستی یا آجکل کی زبان میں لوٹا کریسی ہے، جو کہ حقیقت پسندانہ تجزیہ ہر گز نہیں ہو سکتا اور اس قول پر عمل نہ کروا کے مسلمانوں کو تباہی کی جانب لینے کے سوا کچھ نہ تھا۔

بنیادی طور پر ائیروناٹیکل انجینئر ہونے کے ناطے اور ہوائی جہاز کے لائسنس یافتہ آٹو پائلٹ سسٹم ایکسپرٹ ہونے کی حیثیت سےہوائی جہاز کو نہایت ناہموار طوفانی ہواؤں کے درمیان سے گذرتے وقت ان ہواؤں کے دوش پر آزاد چھوڑ دینے کی مثال پیش کرونگا۔ ہوائی جہاز کو شدید طوفان کے درمیان سے گذرتے وقت "آٹو پائلٹ" بٹن آف کر کے "ٹربولینس"بٹن دبا دیا جاتا ہے جس سے ہوائی جہاز کی نقل و حرکت کو آٹو پائلٹ سسٹم سے ہٹا کر ہوا کی لہروں پر تقریباً آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ طوفانی اور نا ہموار لہروں کے خلاف آٹو پائلٹ سسٹم کے زبردستی کنٹرول کرنے سے ہوائی جہاز کے پروں اور دم پر لگے کنٹرول ٹیبس ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔سادہ لفظوں میں فطرت کی ہوائی نظام سے ہم آہنگی پر آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ ہم اپنے مصنوعی طریقوں سے ہوائی جہاز کوغیر آہنگ کر کے بہت بڑے نقصان کے خطرے میں ڈالیں۔

ان مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ہمیں کبھی اپنے سے زیادہ طاقتور سے نہیں ٹکرانا چاہئے کیونکہ نقصان ہمیشہ کمزور کا ہی ہوتا ہے۔



 

Thursday, June 19, 2025

نظر انداز کر کے متاثر ہونا

یوں تو کئی لوگ ہیں جن کو دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے مزید بہتر طریقے سے زندہ رہنے کا لیکن ان سے کبھی پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ آپ کس کو دیکھ کر زندہ ہیں، ہاں وہ خود ہی بتا دیں تو اور بات ہے۔

شمس النساء کھانا پکاتے ہوئے میرے کیمرے سے لی گئی تصویر 

 یہاں انگلینڈ میں ایک ایسی ہی خاتون سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن کو دیکھ کر ہی نہیں بلکہ قریباً چار گھنٹے دلچسپ اور سیر حاصل گفتگو کے دوران جو انھوں نے میرے لئے رات کا کھانا تیار کیا تو جوانی یاد آگئی جب کوئی لڑکی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی ہوتی اور میں وہیں کھڑا اسے اپنی کہانیاں سناتے ہوئے اس کے انداز پر نظریں جمائے ہوتا تھا۔ البتہ ان خاتون کے ساتھ صورت حال ذرا مختلف تھی، یہ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑی ہیں اور اپنی کہانیاں وہ سنا رہی تھیں۔ ان کے آئیڈیل صادقین صاحب تھے ، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔سید صادقین احمد نقوی (پیدائش: 30 جون 1923ء– وفات: 10 فروری 1987ء) پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش تھے جنہیں صادقین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُن کی وجہ شہرت اسلامی خطاطی اور مصوری ہے۔صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔
زیرِ تبصرہ خاتون کا نام تو شمس النساء ہے لیکن عرفِ عام میں "شمع" کہلاتی ہیں۔ لڑکپن میں صادقین صاحب کی نظر ان پر ایسی پڑی کہ یہ ان کی آج تک گرویدہ ہیں صادقین صاحب کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے اس شمع میں کیا دیکھا جو ہمیشہ شمس النساء خاتون پکارا۔
صادقین صاحب کی چاہت اور شمس النساء خاتون کے نظر انداز کرنے کے باوجود ایک ان دیکھی انسپائریشن ایسی ملی کہ اس عمر میں بھی تین گھنٹے میں کم از کم تیس بار کہا کہ مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور جو کر رہی ہیں وہ دکھایا بھی، یعنی وہی صادقین صاحب کی طرح کے ریشم کے کپڑے پر ریشم ہی کے رنگ برنگے دھاگوں سے لکھی ہوئی قرآنی آیات، سبحان اللہ العظیم۔ مجھے جو انسپائریشن ملی وہ یہ کہ جب شمع باجی مجھ سے پانچ سال بڑی ہو کر اتنی چاق و چوبند زندگی کی مصروفیات میں گم ہیں تو میں کیوں نہیں ؟


Thursday, June 12, 2025

فطرت سے ہم آہنگی میں زندگی آسان 10

 

(چودھویں کے چاند کی تصویر گوگل سے لی گئی)

اس بات سے قطعہ نظر کہ زمین کیسے وجود میں آئی ، ہماری معلومات اتنی ضرور ہے کہ ہماری زمین چار  حصوں میں وجود میں آئی ۔ ایک سب سے بڑا حصہ پانی، دوسرا پہاڑ، تیسرا جنگلات اور چوتھا ریگستان۔پہاڑوں کو معدنیات کے حصول اور ذرائع آمدورفت کے راستے بنانے کے لئے بے دریغ طریقے سے کاٹنا اور بارود سے اُڑانا شروع کیا جو صدیوں سے  تاحال جاری ہے۔ جنگلات بے ہنگم طریقے سے کاٹ کر اپنی زندگی کی آسائشوں کو پورا کرنا شروع کیا جو سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ریگستانوں کو ہم نے اپنی تفریح گاہوں میں بدلنے کی غرض سے تھوڑا بہت برباد تو کیا لیکن اس کے اندر چھپے خزانوں(تیل و گیس)  کے حصول کی غرض سے ایک میدانِ جنگ بنا رکھا ہے۔زمین کے ان تین حصوں کو جس طرح برباد کیا اس کی بدولت ان کی مخلوقات کوبھی نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی بلکہ پہاڑوں پر برفباری کے باعث ازل سے قائم گلیشئیرز (برفانی تودں) کو صفحئہ ہستی سے مٹانے میں بھرپور کردار ادا کیا، جس کے باعث پگھلنے اور گرنے کے وقت اپنے ساتھ آلودگی کا وہ سارا کچرہ اور دیگر غیر ضروری سامان بھی ساتھ لیتے آئے جو ایک ندی کی مانند دریا اور بالآخر سمندر میں گر کر صدیوں سے اس کے پانی کو آلودہ کرکے تمام  آبی حیات کی تباہی کا باعث ہے۔  زمین کے وہ علاقے جہاں انسان بستے ہیں وہاں تہذیب کے نام پر جو ارتقائی عمل جاری ہؤا اور ہنوز جاری ہے اس میں انڈسٹریالائزیشن، ذرائع آمدورفت کے لئے سڑکوں کے جال اور مختلف قسم کی ٹرانسپورٹس  سے جو آلودگی پیدا ہورہی ہے اس نے صدیوں میں زمین کے ارد گرد کے ماحول اور بالائی فضا کو اس قدر مکدّر کر دیا ہے کہ اب تو ہم انسانوں کا سانس لینا بھی دو بھر ہوگیا ہے ، سورج کی شعاعوں کو عوزون گیس کی تہ سے زمین کو  محفوط رکھنےوالا نظام تباہ و برباد کر کے رکھ دیا  اور اس کے علاوہ بے شمار مواصلاتی نظام قائم کرنے کے باعث انجانے امراض جنم لے رہے ہیں جن کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔درج بالا تمام ارتقائی و ترقیاتی منازل کے طے کرنے میں زمین کا جو حصہ سب سے زیادہ اور شدید طور پر متاثر ہوا وہ کاشتکاری کا رقبہ ہے جہاں ہم انسان اپنے زندہ رہنے کے لئے اجناس ، سبزیاں اور پھل کاشت کیا کرتے تھے۔ اب یہ رقبہ اس قدر تھوڑا رہ گیا ہے کہ پوری دنیا کو غذائی قلت کا بحران سر پر کھڑا نظر آرہا ہے جس کا فوری کوئی تدارک نہ کیا گیا تو پوری دنیا ایک مصنوعی قحط سالی کا شکار ہو سکتی ہے۔
غرض یہ کہ ہم انسانوں نے زمین کو اس میں بسنے والی مخلوقات کے لئے ناقابلِ برداشت حد تک غیر محفوظ کر دیا ہے ۔ زمین کی اپنی زندگی کم ہوتی محسوس ہوتی ہے اور ساتھ ہی ہم انسانوں کے لئے تو یہ زمیں بالکل بھی مناسب نہ رہی جس  بنیاد پر خلاؤں میں دیگر ستاروں کی دریافت کا عمل چاند پر 1969 میں پہلا قدم رکھنے سے شروع ہؤا جو آج نہایت تیزی سے جاری ہے۔صاحبِ ثروت انسان اپنی محفوظ  و پُر فضاء رہائش کے لئے سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جن میں دنیا کے امیر ترین ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں اور ایک دوسر سے تعاون بھی کر رہے ہیں، نیز اس کے ساتھ ہی یہ باحیثیت انسان ہماری اس زمیں اور انسانیت کو بچانے کی ترغیب دیتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ "لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو" یعنی اب ہمیں اپنی پرانی دیہاتی زندگی کی جانب لوٹنا ہوگا۔جس کے اختیار کرنے سے وہ تمام  زمینی ، آبی اور فضائی آلودگی کی وجوہات ختم ہو جائیں گی اور ہم اپنی زمیں کو بچانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ یعنی انسانیت کو بھی بچا پائیں گے۔

Archive