اول تو ہمیں کسی پر نکتہ چینی کا حق نہیں لیکن اگر اختلاف
کا اظہار کرنا ہی ہو تو اس انداز میں کیا جائے کہ سامنے والی کی عزت و وقار کو
مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھا جائے، کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہ ہو کہ جس سے اس کی
تضحیک ہوتی ہو اور ساتھ ہی ہماری اپنی دلیل میں اتنا وزن ہو کہ ہماری بات کو سنا
جائے۔ جب نہایت ہی مدلّل گفتگو ہو گی تو یقیناً بات سنی و سمجھی جائے گی اور یہی
مطمع نظر ہونا چاہئے کسی بھی گفتگو کا۔
دنیا کے بارے میں تبصرہ اسی کا قابلِ قبول ہوگا جس نے دنیا
دیکھ رکھی ہو اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ
کائنات، ربُّ العالمین اور رحمتُ العالمین کے بارے میں بھی یہی دلیل لاگو
ہو گی۔ تسخیرِ کائنات تو سائنسداں اپنے ذمہ لے کر پایئہِ تکمیل تک پہنچانے کا کام
کر ہی رہے ہیں، رحمتُ العالمین کو جن انسانوں نے دیکھ رکھا تھا یا ملاقات کی۔ ربُّ
العالمین کو نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی ملاقات کی سوائے حضرت موسیٰ کے اور وہ بھی
ملاقات کی ایک جھلک کی تاب نہ رکھ پائے۔پھر بھی انھوں نے جو بیان کیا اس پر ہمارا
مکمل یقین ہے۔یہ بہت زیادتی ہوگی اگر ہم بزرگانِ دین کی باتوں کو چیلنج کرنے بیٹھ
جائیں، انھوں نے بہت محنت کی ہو اور دین کے بارے میں علم ہم تک پہنچانے میں بہت
محنت کی ہے، ہمیں اختلافِ رائے کا حق ضرور ہے لیکن نکتہ چینی کا بالکل بھی نہیں۔
اس لئے کہ ہمارے پاس ان جتنی معلومات ہی نہیں۔
اسی طرح سائنس دانوں نے بے پناہ محنت و ریسرچ کے بعد ہم تک
جو معلومات پہنچائی ہیں اگر ہم ان سے اختالاف رکھتے ہوئے نکتہ چینی کریں گے تو
ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنا پڑے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں