Search This Blog

Thursday, October 30, 2025

جاپان کا تیسرا سفر

(میری اور دونوں بچوں کی تصویر زاتی البم سے)

پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز   گزشتہ تین سال سے مسلسل منافع کمارہی تھی اور اس سال یعنی 1979 میں تو ریکارڈ  ہی قائم کر دیاجس بِنا پر ہم ملازمین کو افسران سمیت  ایک کثیر رقم بونس کی شکل میں اد کی گئی۔سوچا کہ دونوں بچوں کو بھی جاپان دکھا دوں  حالانکہ دونوں ہی بہت چھوٹے تھے ابھی۔کراچی سے پی آئی اے کی پرواز کے ذریعے کولمبو، سنگا پور ، منیلا اور ٹوکیو پہنچے۔ کولمبو ائرپورٹ پر میرون رنگ کی ساڑھیوں میں ملبوس خواتین نے ہم مسافروں کے گلے میں ہار ڈال کر روایتی طریقے سے استقبال کیا اور جہاز سے نکلنے کے بعد ٹرانزٹ لاؤنج تک اپنے ساتھ لے گئیں ۔ ایک خاتون نے میری تین سالہ بیٹی کو اور دوسری نے میرے دو سالہ بیٹے کو گود میں اٹھا کر لاؤنج تک پہنچایا۔ تیسری نے میری بیوی کے ہاتھوں  میں تازہ پھولوں کے گجرے پہنائے اور ہاتھ پکڑ کر لاؤنج تک پہنچایا۔سنگا پور ائر پورٹ سمندر میں مٹی ڈال کر توسیع شدہ نہایت خوبصورت فنِ تعمیر کا شاہکار تھا۔   چھوٹے بچوں کی دلچسپی کا علاقہ  علیحدہ اور بڑوں کی  تفریح کا سامان پوری بلڈنگ میں پھیلا ہؤا تھا جو کم از کم نو مربع فرلانگ کی جگہ پر واقع تھی، یعنی زیادہ تر غیر مسافر وہاں سیر و تفریح کے لئے آئے ہوئے تھے۔منیلا میں تو جہاں کہیں سگنل پر ٹیکسی رکتی، خوانچہ والے اپنا سامان بیچنے کے لئے اپنا خوانچہ ہی کھلے ہوئے شیشے کے  ذریعے ٹیکسی کے اندر ڈال دیتے ، بالکل پاکستان کی طرح۔منیلا  ائرپورٹ کے نزدیک ہی ایک مِنی فلپائن کے نام سے گاؤں بنایا گیا تھا جو پرانے زمانے کے فلپائن کا منظر پیش کر رہا تھا، اس کو دیکھ کر فلپائن کی تاریخ جان کر معلوم ہوا کہ کن  حالات سے ہوتا ہؤا یہ ملک آج کی حالت کو پہنچا۔ ٹوکیو جاپان پہنچ کر میرے دونوں بچوں کو اتنا پیار ملا کہ وہ تو مست ہو گئے ۔لیکن شومئیِ قسمت کہ ایک  شام ہوٹل میں میری بیوی اور دونوں بچوں کو  فوڈ پوائزننگ( کھانے سے پیدا ہونے والی بیماری کی ایک قسم، ایک بیماری ہے جو لوگوں کو کسی ایسی چیز سے ہوتی ہے جو وہ کھاتے یا پیتے ہیں) ہو گئی جس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ایک ٹوائلٹ کم پڑ رہا تھا۔میں اپنے ساتھ سفر مین ہمیشہ ایمرجنسی کی دوائیں رکھتا ہوں ، چنانچہ اس زمانے مین میرے پاس انٹرا وائفارم گولیا ں تھیں  جو کم پڑ گئیں کیونکہ مریض تین ہوگئے۔اگلے روز اپنے جاپانی دوست میاں بیوی کے ساتھ دو سو میل دور ڈالفن شو دیکھنے جانا تھا، صبح تو روانہ نہ ہو سکے لیکن دوپہر تک حالات بہتر ہوتے نظر ائے تو ہم لوگ ان کی گاڑی میں روانہ ہوگئے۔ راستے میں تین مرتبہ ٹوائلٹ کے لئے رکنا پڑا لیکن بیوی کی ھالت اتنی غیر ہو گئی کہ ڈالفن شو کے دوران چکر ا کر گئی۔ میرین لینڈ کے آفس میں لے جا کر لٹایا اور فرست ایڈ مہیا کی۔پھر باقی کا شو دیکھا۔دوسال کا بیٹا میرا اتنی خراب حالت میں بھی ہنستا کھیلتا رہا جس کو دیکھ کر جاپانی دوستوں نے اور دیگر دیکھنے والوں نے کہا"آپ کے بچے نے اپنی قوت ارادی سے بیماری کو قابو کیا ہؤا ہے" یہ ہی تھا وہ سبق جس پر  میر ی بیوی اور بچی نے بھی عمل کیا اور ہمارا دورہ ماشاءاللہ کامیاب رہا۔    


 

No comments:

Post a Comment

Archive