نظام
الملک طوسی نے اپنی مشہور تصنیف
"سیاست
نامہ" میں سلطنت کو قانونی شکل دینے کے لیے
ایک جدید نظریے کی بنیاد رکھی اور سلطان کو نئے معنی سے مدلل کرنے کی کوشش کی۔
مصنف نے سلطنت کی ابتدا اور سلطان کے معنی پر بحث کی ہے۔طوسی کا قول ہے"تعصب فطری امر ہے اور اچھی چیز ہے
اگر اس کا تعمیری استعمال ہو"۔ نفرت
اور حسد کی بنیاد پر تعصب ایک تخریبی کاروائی ہے جس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں"۔24 اگست 1964 کو
پی آئی اے میں ملازمت کا میرا پہلا دن تھا۔ورکشاپ میں تعارف کے چند گھنٹے بعد ہی
میرے کان میں آوازیں آنا شروع ہوگئیں "تم
راولپنڈی سے ڈپلومہ کرکے آئے ہو، پنجاب کا ڈومیسائل ہو گا، بولنے کا لہجہ
بھی پنجابی ہے، پنجابی بنے رہنا بہت ترقی کروگے کیونکہ یہاں "پی آئی اے" میں پنجابی زیادہ ہیں ،
اسی لئے ہم تو اس کو پنجاب انٹرنیشنل ائرلائنز کہتے ہیں۔
(پی
آئی اے کا سُپر کانسٹیلیشن طیارہ پی آئی
اے کی ہسٹری سائٹ سے)
23
اگست 1964 شام چار بجے کی پرواز سے راولپنڈی ائرپورٹ سے تصویر میں دکھائے گئے جہاز کے ذریعے کراچی پہنچا تو
میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں پنجابی ہوں، پٹھان ہوں، بلوچی ہوں،
سندھی یا مہاجر۔ اٹھارہ سال واہ میں خوب مزے سے
دوستوں کے سات کھیل کود ، اسکول
اور راولپنڈی سے کالج میں جو وقت گزرا اس میں ایک بار بھی کان میں وہ آواز نہ آئی جو پی آئی اے کراچی میں پہلے روز سنائی دی۔اب بچہ تو میں تھا
نہیں، اپنے طور پر پی آئی کے اندر اور باہر پورے کراچی میں مشاہدہ کرنے کا موقع
ملا تو تین ماہ میں ہی
جس نتیجے پر پہنچا وہ یہاں بیان کرنا مناسب نہیں۔میرا 100 فیصد ددھیال اور 10
فیصد ننھیال تقریباً پورے کراچی میں پھیلا تھا۔ہفتہ اور اتوار چھٹی والے روز
سائیکل کرائے پر لے کر پوچھتا پاچھتا ہر رشتہ دار سے ملتا، ان میں نہایت دولتمند ، مڈل کلاس اور چند جھونپڑی میں رہائش پذیر بھی۔جلد ہی
معلوم ہو گیا کہ مڈل کلاس رشتہ دار نہایت
محنتی ، ایماندار اور انا پرست ہیں جبکہ دولتمند اور مفلس رشتہ داروں میں ایمانداری اور انا کی کافی
کمی تھی۔فطرت کا نظام سمجھ میں آتے ہی نظام طوسی کا قول یاد آنے لگا اور اسی پر
عمل کرتے ہوئے 60 سال میں چھہ ماہ کم میں ریٹائرمنٹ لے لی تاکہ حق حلال کا زیادہ سے
زیادہ پیسہ ملے تو اپنا کوئی ٹھکانہ
خریدوں کیونکہ ملازمت کے تمام 41 سال 6 ماہ کرائے
کے مکانوں میں ہی رہا ، شادی سے پہلے اور شادی کے بعد چار بچوں سمیت۔
ملازمت
کے دوران کئی مرتبہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متعدد بار پی آئی اے کو بیچنے اور
خریدنے کی
افواہیں اور چیمہ گوئیاں گردش کرتی رہیں لیکن عملی طور پر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ ابھی
ایک ہفتہ سے سوشل میڈیا اور تین دن سے مین اسٹریم میڈیا پر عملی طور پر ثبوت سامنے
آرہے ہیں تو سوچا کہ ایک عام شہری لیکن
ایک خاص ریٹائرڈ ملازم کی حیثیت سے اپنا
خیال پیش کردوں، اس پر عمل ہو نہ ہو ، اللہ کی مرضی۔
پی
آئی اے مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے
آدھے بیڑے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کے 29 جدید طیاروں میں سے صرف 15 اس وقت
سروس میں ہیں۔ حال ہی میں 14 طیاروں کو گراؤنڈ کیا کیونکہ مالی مجبوریوں کی وجہ سے
ضروری اسپیئر پارٹس خریدنے سے روک دیا گیا۔سرکاری ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے
آپریشنل بیڑے میں اب چھ بوئنگ 777 وائڈ باڈی جہاز، درمیانے فاصلے کے لیے آٹھ
ایئربس اے 320 اور ایک اے ٹی آر طیارہ شامل ہے۔
تین
بوئنگ 777 وائڈ باڈی جہاز صوبہ پنجاب کو اور ایک ایک باقی تین صوبوں یعنی کے پی کے،سندھ
اور بلوچستان کو، دو دو درمیانے فاصلے کے
لیے ایئربس اے 320 چاروں صوبوں کو اور ایک اے ٹی آر طیارہ وفاق کو دے دیا جائے۔ چاروں صوبے تعصب کے
گرداب سے باہر نکل کر رشک اور مقابلے کی
فضاء میں اپنی اپنی نئی ائر لائن کا نام رکھ کر پورے ملک پاکستان کا نام اس
مقام پر لانے کی کوشش کریں جس پر پی آئی اے 60 اور 70 کی دہائی میں تھی جس
نے مالٹا ائر، سیلون ائر اور امارات ائر لائنز بھی بنائیںاور جس کے کپتان عبد اللہ
بیگ نے پرانے بوئنگ 707 کو لندن سے کراچی تیز ترین رفتار سے اڑا کر ورلڈ ریکارڈ
قائم کیا ۔
منجانب:-
سید مسرت علی ریٹائرڈ (مینٹیننس منیجر انسٹرومنٹ اوور ہال شاپ، سینئیر
انسٹرکٹر منیجمنٹ ٹریننگ یونٹ پی آئی اے ٹریننگ سینٹر)
No comments:
Post a Comment