یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

جمعہ، 21 اپریل، 2017

تصویر کے روشن پہلو کو دیکھنا

سب جانتے ہیں کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک کو روشن (مثبت) اور دوسرے کو تاریک (منفی) کہہ سکتے ہیں۔ ہر انسان کا الگ الگ اندازِ فکر ہوتا ہے۔ یہ لازمی نہیں کہ ہم کسی اور کو مجبور کریں کہ وہ تصویر کو اُسی زاوئیے سے دیکھے جس سے ہم دیکھ رہے ہیں۔تصویر دیکھنے والےکا زاویہ نہ صرف اس کی موجودہ کیفیت پر منحصر ہوتا ہے بلکہ اس کا زیادہ دارومدار اس کے ماضی کا عکاس ہوتا ہے کیونکہ اس کا حال ماضی کی بنیادوں پر ہی تو کھڑا ہوتا ہے۔ اگر ماضی کی خوشگوار بنیادوں پر اس کے حال کی عمارت کھڑی ہے تو عمارت بھی نہایت پُر کشش ہو گی لیکن اگر اس کے پُر خار ماضی کی جڑیں اس کے موجودہ درخت کو سہارا دئیے ہوئے ہیں تو اس میں خوشبو دار گلاب لگنا خاصا مشکل ہو گا۔

(تصویر از میری البم مانچسٹر ۱۹۷۳)
کسی بھی انسان کی زندگی میں ناممکن کچھ بھی نہیں ہوتا بس ذرا سی محنت و لگن سے اس کو ممکن بنانا ہوتا ہے۔ دوسروں کے رحم وکرم کے محتاج کبھی یہ منزل نہیں پاسکتے البتیّٰ دوسروں سے سیکھ کر ضرور یہ منزل عبور کر سکتے ہیں۔ انسان کی اپنی قوتِ ارادی سے بڑا اوزار کوئ نہیں ہوتا جو اس آکسیجن سلنڈر کی مانند ہوتا ہے جو کوہِ ہمالہ پر چڑھتے وقت بوقتِ ضرورت استعمال کرنا پڑجاتا ہے اور ایک دم ایک نئی قوت و امید کے ساتھ انسان ایک مرتبہ پھر اپنا مشکل ترین سفر اپنی منزل کے حصول کیلئیے جاری رکھتا ہے۔ منفی و مایوس کن سوچ انسان کے اپنے ذاتی حالات پر ہی مبنی نہیں ہوتی بلکہ حساس انسانوں پر تو زیادہ تر ارد گرد کے ماحول کا اس قدر شدید اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خوشی کے لمحات کو بھی مناسب طریقے سے گزار نہیں پاتے۔ ارد گرد کے ماحول کی ایک تصویر بناتے وقت ہی مثبت اندازِ فکر کا انسان اس میں سے روشن پہلو نکال لے گا خواہ وہ ماحول کتنا ہی تاریک و منفی اثرات کا حامل ہو۔ اسی طرح منفی اندازِ فکر کا حامل انسان روشن ترین حالات میں بھی ہر ممکن کوشش کرکے اس کی اسقدر تاریک منظر کشی کرتا ہے کہ میانہ روی کا انداز رکھنے والا بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی سب سے مناسب مثال  وہ نامور انسان ہیں جو فلسفی یا شاعر ہوتے ہیں۔ تصویر کی مانند ان کے بھی دو رُخ ہوتے ہیں جو خود تو کبھی تبدیل نہیں ہوتے مگر دوسروں کو اپنے مطابق ڈھالنے کا فن رکھتے ہیں۔ کمال فن ان کی فطرت میں کچھ ایسا جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے کہ اگر ایک شاعر  بادل کی گھٹاؤں کو سہانا موسم اور محبوب کے گیسوؤں سے تشبیہ دیتا ہے تو دوسرا اُسی کو ظلمتوں کے اندھیرے و لمبی جُدائی کی منظر کشی کرکے لطف اندوز ہوتا ہے، گویا یہ اپنی اپنی اندرونی کیفیت ہے جو ایک ہی موسم کو مثبت و منفی گردانتی ہے۔ ایک اچھا انسان ان دونوں کو سن کر، دیکھ کر اور ان کی ذاتی کیفیت سے اخذ شدہ موقف اختیار کر سکتا ہے بس شرط ایک ہی ہے کہ اپنی اندرونی کیفیت کو منفی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کی تمام تر کوشش کرے تاکہ خالقِ کائنات کی عطا کردہ صحت کو زَک نہ پہنچے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

A Historical Day 9 May 2023

  :مئی 9،  2023  کے حوالے سے چند گذارشات   فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا ...