میرا
ایمان ہے کہ فطرت کے نظام میں کوئی خامی نہیں بلکہ میری سمجھ میں خامی ہےجو اس کے نظام سے اختلاف کا باعث بننے کے بعد میری
مایوسی کا سبب بنتی ہے۔کیونکہ جیسے ہی میں اپنی سوچ کو مثبت کرنے کی کوشش کروں تو
مجھے اس بات کا خیال آتا ہے کہ کیا میرے
اندر خالقِ کائنات سے زیادہ قدرت ہے جو
میں اس کے نظام میں خامی نکال رہا ہوں؟ ساتھ ہی ایک ابلیسی قوت (جو ازل سے ہے اور ابد
تک رہے گی) ورغلاتی ہے کہ ہاں میں صحیح
سوچ رہا ہوں۔ ایسے موقع پر یہ فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ میں صحیح ہو یا خالقِ
کائنات۔ ذرا پنا دماغ ٹھنڈا کرنے یاتھوڑے سے وقفہ کے بعد سوچوں تو اپنے اوپر
ہنسی آتی ہے کہ جس پروردگار نے مجھے پیدا کیا اس
ہستی سے میری سوچ بہتر کیسے ہو سکتی ہے، یہ وہ مقا م ہوتا ہے جہاں میں
ابلیسی قوت کو شکست دے پاتا ہوں اور یوں جو راحت محسوس ہوتی ہے وہ انمول ہوتی ہے۔
![]() |
(مثبت سوچ
ہوجانے کے بعد کی تصویر میری ذاتی البم سے)
ایک سعیءِ مسلسل کے بعد بالآخر ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور یوں نظامِ فطرت صاف شفاف نظر آنے لگتا ہے۔ اس کے بعد ہی تو انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور اپنی تمام تر کاوشیں اس روئے زمیں کو بچانے کے ساتھ اس پر بسنے والی مخلوقات کو بچانے میں صَرف کرے۔عموماً دنیا کی تاریخ کے ہر دور میں شاعرنے باغیانہ رویہ اپنایا۔جس کی شاعری جتنی باغیانہ، اتنی ہی اس کے لئے واہ واہ ، خواہ وہ عاشق کی معشوق سے بغاوت ہو یا معشوق کی عاشق سے۔عام عوام کے حکمرانوں کے خلاف باغیانہ رویہ کے بارے میں شاعرانہ کلام کو جس قدر پذیرائی ملی ، شاید ہی کسی اور کلام کو ملی ہو ۔ حکمران عام عوام کے خلاف باغیانہ رویہ رکھ ہی نہیں سکتے کیونکہ حکمرانی طاقتور کا وہ ہتھیار ہے جسے عوام اپنے ووٹ سے چُن کر اپنے اوپر ان وعدوں کی تکمیل کے لئے مسلط کرتے ہیں جس کے پیچھے عام عوام کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے جھوٹے وعدے ہوتے ہیں۔اور بے شمار مثالیں ہیں باغیانہ رویوں کی لیکن ہمار موضوع فی الحال فطرت سے بغاوت یا غیر آہنگ ہونا ہے جس کے بارے میں بھی ان گنت شاعروں نے دنیا کے ہر کونے میں آواز اٹھائی جس میں ہمارے ہر دلعزیز "شاعر مشرق " کا خطاب پانے والے سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا کلام "شکوہ" پوری دنیا میں ہر زبان کی اقوام میں بہت مقبول ہؤا، لیکن افسوس کہ بہت کم لوگوں نے ان کے جوابِ شکوہ کے بارے میں غور کیا کہ آخر اس کی کیوں ضرورت پیش آئی۔ میں اس قابل نہیں اور نہ ہی میرا حق بنتا ہے کہ میں اتنی بڑی ہستی کے کلام کے بارے میں کوئی گستاخی کروں لیکن اپنے کتاب لکھنے کے نکتہئہ امدادی کے طور پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment