ستمبر 1980 کو ابا میاں کا انتقال ہوا لیکن مجھے آج تک یتیم ہونے کا احساس نہیں ہؤا تھا کیونکہ بھائی صاحب صرف چار سال بڑے ہونے کے باوجود ہر لحاظ سے ایک شفیق باپ کا درجہ رکھتے تھے جنہوں نے ابا میاں کی بر صغیر کے بٹوارے سے لے کر 1964 تک میرے پی آئی اے میں ملازم ہو جانے تک غیر حاضری محسوس ہی نہ ہونے دی۔
![]() |
(واٹس ایپ پر وصول ہونے والی بھائی صاحب کی تصویر) |
انھوں نے خود تو میٹرک پاس کرتے ہی واہ کے اسپتال میں 60 روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت کر لی لیکن مجھے میٹرک پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں داخلہ ہی نہیں دلایا بلکہ میری سہولت کے لیے مجھے ہاسٹل میں بھی رہائش پذیر کیا۔
ایک کمپاونڈر ہونے کے باوجود اپنے پیشے سے لگن، محنت اور ایمانداری کے باعث نہ صرف واہ بلکہ اردگرد کے گاؤں میں بھی ڈاکٹر صاحب کا خطاب حاصل کیا۔ گھر میں امی کی مصروفیت کے لئے بھینس پالی جس کی دیکھ بھال اور خدمات میں امی سے زیادہ خود وقت دیا۔ باغیچہ میں کیلے سے لے کر خوبانی، آلو بخارا اور بادام اخروٹ تک کے درخت لگائے۔ مرغیاں، کبوتر، بلیاں، خرگوش اور نیولا تک پالا جس کو اپنے ہاتھ پر کاٹنے کے باوجود چھوڑا نہیں اور ایک مخصوص گدے پر ہی سلایا۔ گھر کے سامنے والی سڑک سے کوئی بکری، کتا یا گدھا بھائی صاحب کی شرارت سے بچ کر نہیں جاسکتا تھا۔ اسپورٹس کوئی بھی ہو اس میں باقاعدگی سے شرکت کرنا ہی کافی نہ تھا بلکہ بیڈمنٹن میں تو 1952 جونئیر چیمپئن شپ کراچی جاکر جیتی۔ اسکواش، لان ٹینس اور کرکٹ میں نمایاں کارکردگی کے باعث ہمیشہ راولپنڈی و پشاور ڈویژنز کی ٹیموں میں شامل رہے۔
کب انتقال ہؤا ؟ تاریخ یاد رکھنے کی کوشش ہی نہیں کیونکہ میرے دل و دماغ نے کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ آج کسی نے واٹس ایپ کے ذریعے یہ تصویر بھیجی اور برسی کا یاد دلا کر انکاری کیفیت سے حقیقی کیفیت تسلیم کرا ہی دی۔
اللّہ تعالیٰ بھائی صاحب جیسے بھائی سب کو عطا فرمائے آمین 🤲
No comments:
Post a Comment