یوں تو کئی لوگ ہیں جن کو دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے مزید بہتر طریقے سے زندہ رہنے کا لیکن ان سے کبھی پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ آپ کس کو دیکھ کر زندہ ہیں، ہاں وہ خود ہی بتا دیں تو اور بات ہے۔
![]() |
شمس النساء کھانا پکاتے ہوئے میرے کیمرے سے لی گئی تصویر |
یہاں انگلینڈ میں ایک ایسی ہی خاتون سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جن کو دیکھ کر ہی نہیں بلکہ قریباً چار گھنٹے دلچسپ اور سیر حاصل گفتگو کے دوران جو انھوں نے میرے لئے رات کا کھانا تیار کیا تو جوانی یاد آگئی جب کوئی لڑکی باورچی خانے میں کھانا بنا رہی ہوتی اور میں وہیں کھڑا اسے اپنی کہانیاں سناتے ہوئے اس کے انداز پر نظریں جمائے ہوتا تھا۔ البتہ ان خاتون کے ساتھ صورت حال ذرا مختلف تھی، یہ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑی ہیں اور اپنی کہانیاں وہ سنا رہی تھیں۔ ان کے آئیڈیل صادقین صاحب تھے ، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔سید صادقین احمد نقوی (پیدائش: 30 جون 1923ء– وفات: 10 فروری 1987ء) پاکستان کے شہرہ آفاق مصور، خطاط اور نقاش تھے جنہیں صادقین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اُن کی وجہ شہرت اسلامی خطاطی اور مصوری ہے۔صادقین کی خطاطی اور مصوری اتنی منفرد اور اچھوتی تھی کہ ان کے دور ہی میں ان کے شہ پاروں کی نقل ہونے لگی تھی اور بہت سے مصوروں نے جعلی پینٹنگز بنا کر اور ان پر صادقین کا نام لکھ کر خوب مال کمایا جبکہ خود صادقین نے شاہی خاندانوں اور غیر ملکی و ملکی صاحبِ ثروت افراد کی جانب سے بھاری مالی پیشکشوں کے باوجود اپنے فن پاروں کا بہت کم سودا کیا۔
صادقین صاحب کی چاہت اور شمس النساء خاتون کے نظر انداز کرنے کے باوجود ایک ان دیکھی انسپائریشن ایسی ملی کہ اس عمر میں بھی تین گھنٹے میں کم از کم تیس بار کہا کہ مجھے ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور جو کر رہی ہیں وہ دکھایا بھی، یعنی وہی صادقین صاحب کی طرح کے ریشم کے کپڑے پر ریشم ہی کے رنگ برنگے دھاگوں سے لکھی ہوئی قرآنی آیات، سبحان اللہ العظیم۔ مجھے جو انسپائریشن ملی وہ یہ کہ جب شمع باجی مجھ سے پانچ سال بڑی ہو کر اتنی چاق و چوبند زندگی کی مصروفیات میں گم ہیں تو میں کیوں نہیں ؟
No comments:
Post a Comment