Search This Blog

Tuesday, June 4, 2024

ہمارا چیف جسٹس

  


                                                  انسان کا ضمیر خالقِ کائنات کی عدالت عظمیٰ  کا   چیف جسٹس ہوتا ہے 

 عنوان دیکھ کر تو بہت عجیب سا محسوس ہوگا لیکن اگر ہم پہلے ضمیر کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ ہے کیا شے، اس کا کام کیا ہے تو آسانی ہو جائے گی تاکہ اس کی صحت کے بارے پر کوئ تبصرہ کر پائیں۔ اگر اس کو انسانی جسم کی عدالتِ عالیہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کائنات کی عدالتِ عظمیٰ خالقِ کائنات کے سِوا اور کس کی عدالت ہو سکتی ہے؟ خالقِ کائنات انسان سے خود فرماتا ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔ شہ رگ تو سب جانتے ہیں انسان کے جسم کے اندر ہوتی ہے۔لہٰذا ہر انسان کے جسم کے اندر ہی خالقِ کائنات نے اپنی مقرر کردہ عدالتِ عالیہ بٹھا دی۔ ذرا یاد کریں جب ہماری تخلیق کے وقت اس نے ایک بے جان لوتھڑے میں اپنی روح پھونکی تو اس کی تمام صفات کے ساتھ انصاف کرنے والی خصوصیت بھی شامل تھی اور یہی ضمیر ہے جو خالق کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارے ہر عمل پر اس کی گہری نظر اور کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ اختلافِ رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن حقیقت سے رُو گردانی ایسا ہی عمل ہے جیسے خالقِ کائنات کے وجود سے انکار، جس سے اُس کو تو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ بٰعینہہ ضمیر کی آواز نہ سننے سے اُس کی صحت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ محض جملہ معترضہ کے طور پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے کہ فُلاں انسان کا ضمیر سیاہ ہو گیا یا فُلاں کا ضمیر مُردہ ہو گیا۔ آخر ہم خالقِ کائنات کی پرواہ کئے بغیر بھی تو بے شمار وہ کام کرجاتے ہیں جو اس نے منع فرمائے یا وہ نا پسند کرتا ہے۔ تنہائی میں تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ کوئ نہیں دیکھ رہا لیکن اکثر اوقات سرِ عام بھی دیدہ دلیری سے بہت سے ایسے کام کرتے پھرتے ہیں، خاص طور پر اپنی یا اپنی دولت کی طاقت کے بل بوتے پر۔ اپنے دل کی تسلّی کے لئے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ معاف کرنے والا ہے، غفور ہے اور رحیم ہے جو کہ محض خود فریبی ہے جس پر آگے چل کر بات ہوگی۔  یہ بات ٹھیک ہے کہ ہر جسم مختلف ساخت رکھتا ہے اس کا ضمیر بھی دیگر سے مختلف ہوتا ہے اور روح بھی۔ ہر انسان کی سوچ کا انداز ایک ہی شے کے بارے میں دوسرے سے جدا ہوتا ہے لہٰذا عمل بھی جداگانہ ہوتے ہیں لیکن اس کائنات کی عدالتِ عالیہ ہماری دنیا کی مانند نہیں، اسی لئے منصفِ اعظم نے ہر انسان کے ساتھ انصاف کے تقاضے جسقدر ملحوظِ خاطر رکھے ہیں اُن کو ہمارے لئے سمجھنا بھی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ دوسروں کو اپنے ضمیر سے ماپنے و جانچنے کے بجائے ہمیں اپنے ضمیر کی آواز سننی چاہئے جو کبھی غلط نہین ہوتی۔ اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبّیک کہتا ہے اور عمل بھی کرتا ہے۔ جو انسان اپنے ضمیر کی پرواہ نہیں کرتا اس کا ہر عمل صحیح نہیں ہو سکتا۔ جانے انجانے میں انسان سے خطا ہو جاتی ہے اور جب ضمیر اس کی نشاندہی کرے تو انسان اس غلطی کا ازالہ کرکے آئندہ اس کو نہ دہرائے، وہی ایک اچھا انسان ہے۔ یاد رہے ضمیر سوتا ہے،  مایوس ہوتا ہے نہ سیاہ اور نہ ہی  مُردہ۔ ضمیر ہمیشہ جا گتا رہتا ہے اور پیدائش سے موت تک تندرست رہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

Archive