Search This Blog

Tuesday, June 11, 2024

برکت کا مفہوم

 


 

جب انسان خالقِ کائنات سے اپنا تعلق بنا لیتا ہےتو وہ  اپنی رحمت کی چادر سے اسے ڈھانپ لیتا ہے ، جو اسے ہر طرح کی پریشانی اور مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔لیکن جب وہ خالق کی مرضی کے بر عکس کوئی عمل  کرتا ہے تو اس چادر میں ایک سوراخ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو وہ سوراخ باقی رہتا ہے اور پھر جتنے  غلط اعمال  کرتا ہے اسی حساب  سے سوراخ میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ رحمتوں کی چادر چھلنی ہوجاتی ہے اور ان ہی سوارخوں کے ذریعے انسان پر مختلف قسم کی پریشانیا ں شیطان کی جانب سے نازل ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماری ، کبھی گھریلو اختلاف ، کبھی تجارت اورکاروبار میں رکاوٹیں اور کبھی اولاد اور رشتے داروں کا دشمن بن جانا۔اس طرح کے بے شمار مسائل اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔ وہ حیران و پریشان رہتا ہے ، مگر بہت کم لوگوں کا اس طرف ذہن جاتا ہے کہ یہ سارے مسائل اور پریشانیاں انھی کے اپنے عمل اور کردار کا نتیجہ ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے : وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ ﴿الأعراف : ۹۶﴾ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں ، صحت میں ، کاموں میں ، وقت میں ، مال میں ، کھانے پینے اوراستعمال و ضرورت کی تمام چیزوں میں برکت و رحمت نازل کی جاتی ہے ، جس سے مقصود ومطلوب آسان ہوجاتا ہے اور تادیر اس کے استعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کی صحت تقریباً دس سال سے بالکل ٹھیک ہے ، کبھی سر میں درد نہیں ہوا۔ اُسے یاد بھی نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس کب گیا تھا ؟ یہ صحت کی برکت ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے آنے کی کلفتوں اور الجھنوں سے بچ گیا۔ وہ مستقل اپنا کام کرتا رہا ۔ وقت بھی محفوظ رہا اور پیسہ بھی۔ اسی طرح تھوڑے وقت میں امید سے زیادہ کام کرنا بھی ایک قسم کی برکت ہے۔ جس کام کے لیے آدمی کہیں جاتا ہے یا جس کام میں مصروف رہتا ہے ، اگر وہ کام صحیح طرح ہوگیا ، کوئی رکاوٹ نہ آئی تو یہ بھی برکت ہے اور اگر کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے اعمال بد کی نحوست کے سبب اللہ کی طرف سے بے برکتی کا انتظام کیا گیا۔ بہت سے لوگ وقت میں بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں کہ صبح سے شام ہوجاتی ہے ، وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ دن کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کوئی کام مکمل نہیں ہوپاتا ہے کہ دوسرا دن بلکہ دوسرا ہفتہ اور دوسرامہینہ شروع ہوجاتا ہے۔ سالہا سال تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی قابل لحاظ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، جو انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے ؛ لیکن بہت سے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے ہزاروں کتابیں تصنیف کیں، لاکھوں شاگردپیدا کیے ، تصوف وسلوک کی راہ میں بھی خلفا اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تیار کی، ان کی طویل خدمات کو اگر ان کی عمر پر آج تقسیم کیا جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اتنے کم وقت میں اتنا عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا گیا۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے ان کے وقت میں برکت دی تھی کہ کم وقت میں توقع سے زیادہ وہ کام کرگئے، جو آج لوگ صدیوں میں نہیں کرسکتے۔ ایسے خداترس افراد آج بھی موجود ہیں اور ان کے اخلاص و للہیت کے مطابق ان کے اوقات میں برکت کا سلسلہ جاری ہے۔بل کہ ایک عام مسلمان بھی جب اللہ سے ڈرتا ہے اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بناتا ہے تو اس کی نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے اس کے وقت میں برکت دے دی جاتی ہے ، جس سے وہ بہت سے ایسے کام کرلیتے ہیں ، جو گنہگار نہیں کرسکتے ۔ بہت سے کج فہم لوگوں کو برکت کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگ مذاق بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس دس ہزار روپے ہیں ، کیا نیک کام کرنے سے وہ بارہ ہزار بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ برکت سے مراد روپے کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بل کہ روپے کا صحیح جگہ استعمال ہونا ، کم پیسوں میں کام کا بن جانا ، تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے دوست و احباب کی آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہر مہینے ہوتی ہے ، مگر کچھ پیسے بیماریوں اور اسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے سارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور قرض کی نوبت آجاتی ہے ۔ سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ قلبی و ذہنی سکون انھیں حاصل ہے۔ یہ اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے ، جس کے سبب مال سے برکت اٹھالی گئی۔ اس کے برعکس مدارس اور دینی کاموں سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک کو حیرت ہوگی کہ معمولی تنخواہوں میں اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوے وہ باعزت اور باوقار زندگی گزارتے ہیں ، جس پر بڑی تنخواہ پانے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ غیب سے اسلام کے پیروکاروں کے لیے ایسی راہیں کھول دیتا ہے ، جن کے ذریعے کم پیسوں میں وہ کام ہوجاتا ہے جس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک مرید بہت پریشان ہوکر کہنے لگا : حضرت ! حج کا ارادہ ہے ؛ لیکن کچھ بھی مال میرے پاس موجود نہیں ۔ حضرت نے ایک دینار دیتے ہوئے فرمایا: جاؤ حج کرلو ، حج کے لیے ایک دینار معمولی سرمایہ تھا۔ بظاہر حج اس سے مشکل تھا ، مگر حضرت کا حکم ہوا ، وہ ایک دینار لے کر چل پڑا۔ ابھی بستی سے باہر ہی گیا تھا کہ ایک قافلہ آتاہوا دیکھا۔ اس نے قافلے والوں کو سلام کیا اور پوچھا : بھئی ! آپ لوگ کہاں جہارہے ہیں ؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ حج کے لیے جارہے ہیں ۔ اس نے کہا میں بھی حج پر جارہاہوں، مگر میں تو پیدل چلوں گا، قافلے والے کہنے لگے کہ ایک آدمی ہم میں سے بیمار ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گیا ہے، اس کا اونٹ خالی ہے،آپ اس پر سوار ہوجائیے۔ یہ شخص اونٹ پر بیٹھ گیا۔ اب جہاں قافلے والے رکتے اور کھانا پکاتے اس کو مہمان سمجھ کر ساتھ کھلاتے ۔ پورا حج کا سفر اس نے اسی طرح طے کیا ۔ آخر کار ان کے ساتھ حج کرکے واپس آیا اور بستی کے کنارے پر انھوں نے اسے اتارا ۔ اس کو کہیں بھی پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا : حضرت ! عجیب حج کیا ، میں تو مہمان ہی بن کر پھر تارہار اور اب یہاں پہنچ گیاہوں ۔ حضرت نے پوچھاکہ تمھارا کچھ خرچ ہوا ؟ عرض کیا کچھ بھی نہیں ، فرمانے لگے : میرا دینار واپس کردو، اللہ والوں کا ایک دینار بھی خرچ نہیں ہوتا ۔﴿پریشانیوں کا حل ، از : مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی ، ص : ۴۸﴾ یہ مال کی برکت ہی تو تھی کہ غیب سے ایسے اسباب پیدا کیے گیے کہ باعزت طور پر اس مرید کا حج بھی ہوگیا اور ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ جب کہ ایک دینار کا سرمایہ حج کے لیے انتہائی ناکافی تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت جنید بغدادیؒ کی بزرگی اور اس مرید کے اخلاص و محبت کی وجہ سے اسی ایک دینار کو مکمل سفر کا سبب بنایا اور اس میں کچھ کمی بھی نہ آئی۔انسان میں کچھ دینی فہم اور صحیح ادراک کی صلاحیت ہو تو روز مرہ زندگی میں بھی مالی برکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کے گناہ اور نافرمانیوں کی وجہ سے مال سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جیسے: مال کا چوری ہونا ، قرض لینے والے کا مال واپس نہ کرنا ، ادھار لینے والے کا وقت پر پیسے نہ دینا ، طاقت ور افراد کا زمین و جائداد پر قبضہ کرلینا وغیرہ ۔ اہل علم نے مال کی بے برکتی کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے کہ جو سامان جس کام کے لیے خریدا جائے، اس میں وہ تادیر استعمال نہ کیا جاسکے؛بلکہ بار بار خراب ہوتا رہے۔ اگر ایک شخص نے کوئی گاڑی خریدی اور خلاف توقع باربار اسے میکینک کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئی تو بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، اس میں وقت اور پیسہ دونوں کی بربادی ہے اور اگر وہ گاڑی چلتی رہے تو اسی کا نام برکت ہے ۔ ایک بیٹے نے اپنے بزرگ والد محترم سے کہا کہ اباجی!برکت کا لفظ تو بہت سنتے رہتے ہیں ، مگر میری سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ اس سلسلے میں کچھ بتائیے ، فرمانے لگے: بیٹا ادھر آؤ ، وہ اسے لے گئے اور اپنے گھر کا ہینڈ پمپ دکھاتے ہوے کہا کہ یہ برکت ہے ، بیٹا ہینڈ پمپ دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور پوچھا: ابا جی! یہ برکت کیسے ہے ؟ اس کے بزرگ والد نے فرمایا کہ بیٹا! تمھاری عمر بیس سال ہے اور تمھاری پیدائش سے پہلے ہی میں نے یہ ہینڈ پمپ لگوایا تھا ، آج تک اس میں خرابی نہیں آئی ، اس کو ٹھیک کرانے میں میرا مال لگا نہ وقت لگا اور نہ کوئی پریشانی ہوئی ، اسی کو برکت کہتے ہیں ۔ 


No comments:

Post a Comment

Archive