Monday, September 16, 2024

زندگی کا مشکل ترین مرحلہ

 

یوں تو زندگی کے مختلف ادوار میں کئی طرح کے مشکل مر حلے  آتے ہیں لیکن ایک باپ کی حیثیت سے میں نے بڑھاپے میں جو مشکل مرحلہ دیکھا تو دیگر تمام مشکلیں آساں نظر آئیں۔اولاد جوان ہو جائے تو والدین کمزور پڑ جاتے ہیں۔اس میں محض صحت و تندرستی کا عنصر ہی شامل نہیں بلکہ ایک سے زیادہ بچوں  کے الگ الگ مزاج ہونا بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے جس کے باعث کسی ایک نکتہ پر سب کو متفق کرنا بھی ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔

(تصویر میری ذاتی البم سے لی گئی ہے)

ایک نکتہ پر سب متفق ہو جایا کرتےتو  یکسانیت کے بادل اتنے گہرے اور دبیز ہو جاتے کہ ہر روز نکلتے سورج کی نئی کرنیں ہم تک  نہ پہنچ پاتیں اور ہم تک وہ  مواد نہ پہنچ پاتا جو کلوروفل کی مانند پودوں کی نشو نما کے لئے ضروری ہوتا ہے۔شاید اسی منطق کے تحت انسان نے سورج کی پوجا شروع کی ہو لیکن  خالقِ کائنات کی تمام مقدس کُتب کا مطالعہ اور  دنیا میں بسنے والے مختلف اقوام  کے لوگوں سے بالمشافہ ملاقاتیں کرنے کے بعد ایک ہی "واحد " نتیجہ نکلتا ہے کہ اتحاد  ایک اچھی شے ہے جس کی چند فطری مثالیں  مولانا وحیدالدین خاں  صاحب نے اپنی  کتاب راز ِحیات میں کچھ اس طرح پیش کیں کہ دل خوش ہو گیا:-

"ایک شخص نے اپنا ایک تجربہ لکھا ہے کہ ایک ماہی گیر نے ایک بار مجھے بتایا کہ کیکڑے کی ٹوکری پر کسی کو ڈھکن لگانے کی ضرورت نہیں۔اگر ان میں سے کوئی کیکڑا ٹوکری کے کنارےسے نکلنا چاہتا ہے تو دوسرے وہاں پہنچتے ہیں اور اس کو پیچھے کی طرف کھینچ لیتے ہیں:کیکڑے کی یہ فطرت یقینا خدا نے بنائی ہے۔دوسرے لفظوں میں کیکڑے کا یہ طریقہ ایک خدائی طریقہ ہے۔کیکڑے کی مثال سے خدا انسانوںکو بتارہا ہے کہ انہیں اپنی اجتماعی زندگی کو کس طرح چلانا چاہیے۔

اجتماعی زندگی میں اتحاد کی بے حد اہمیت ہے۔اور اتحاد قائم کرنے کی بہترین تدبیروہی ہے جو کیکڑے کی دنیا میں خدا نے قائم کررکھی ہے۔کسی انسانی مجموعے کے افراد کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ اگر ان میں سے کوئی شخص ذہنی انحراف کا شکا ر ہو اور اپنے مجموعے سے جدا ہونا چاہے تو دوسرے لوگ اس کو پکڑ کر دوبارہ اندر کی طرف کھینچ لیں۔’’ٹوکری‘‘ کے افراد اپنے کسی شخص کو ٹوکری کے باہر نہ جانے دیں۔اسلامی تاریخ میں اس کی ایک شاندار مثال حضرت سعد بن عبادہ انصاری کی ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے مسئلہ پر ان کے اندر انحراف پیداہوا۔بیشتر صحابہ اس پر متفق تھے کہ قبیلہ قریش کے کسی شخص کو خلیفہ بنایا جائے۔مگر سعد بن عبادہ کے ذہن میں یہ آیا کہ خلیفہ انصار کا کوئی شخص ہو یا پھر دو خلیفہ بنائے جائیں، ایک مہاجرین میں سے اوردوسرا انصار میں سے۔مگر تاریخ بتاتی ہے کہ سعد بن عبادہ کے قبیلہ کے تمام لوگ اپنے سردار کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔انہوں نے سعد بن عبادہ کو کھینچ کر دوبارہ ’ٹوکری‘ میں ڈال لیا۔اور ان کو اس سے باہر جانے نہیں دیا"۔

اللہ ہمیں اتفاق کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!



No comments:

Post a Comment