Search This Blog

Tuesday, April 8, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

1۔ واہ  سے لنڈی کوتل

1958 کی بات ہےہمارے اسکول کی جانب سےایک تفریحی دورے کا انتظام کیا گیا۔ اسکول کا نام اے سی ماڈل اسکول تھا جو کہ اے سی سی سیمنٹ فیکٹری (ایسوسی ایٹڈ سیمنٹ کمپنی واہ) کی رہائشی کالونی کے اندر واقعہ تھا۔جی ٹی روڈ سے ڈیڑھ  میل کے فاصلے اور حسن ابدال سے تین میل کی دوری پر واقع لائم اسٹون کی پہاڑی کے دامن میں لگائی گئی فیکٹری انگریزوں کے زمانے سے چل رہی تھی۔1948 میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد میرے  ننھیال  کی روزی روٹی اسی فیکٹری سے وابستی رہی۔

 

(ناشپاتی کے باغات کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے)

سید شمسشیر علی پرائمری کلاسز کے اردو کے ٹیچر تھے جن کی ذمہ داری ہماری    آٹھویں کلاس کو بذریعہ ٹرین واہ سے لنڈی کوتل تک کا دس روز کا دورہ لگوا کر خیریت کے ساتھ سب بچوں کو اپنے اپنے گھروں کو واپس پہنچانا  تھا۔ہم بچے اپنے اپنے حساب سے سامان و خرچے کے پیسے لے کر اتوار کے روز واہ کے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ٹرین میں بیٹھتے ہی ہماری اچھل  کود  اور ہلّہ گلّہ شروع ہو گیا۔ پوٹھوہار کے علاقے  کے  حسین نظارے دیکھنے کے دوران جیسے ہی کوئی اسٹیشن آتا، ہم بچے اتر جاتے  اور جان بوجھ کر تب ٹرین پر سوار ہوتے جب وہ چل ہڑتی ، گو کہ شمشیر صاحب کی جانب سے ڈانٹ بھی خوب پڑتی ۔ہر اسٹیشن کے بارے میں وہ ہمیں بڑے پیار سے اس جگہ کی تاریخ بھی بتاتے جو ہمیں بالکل سمجھ نہ آتی کیونکہ اس عمر میں تاریخ سے کیا لینا دینا؟  واہ سے روانہ ہوکر حسن ابدال، لارنس پور، نوشہرہ، پبّی اور   پشاور پہنچے جہاں وائی ایم  سی اے میں   ایک ہفتہ قیام کیا۔ مختلف سواریوں کے ذریعے آس پاس کے علاقے دیکھے جیسے  وارسک ڈیم، مالکنڈ گرڈ اسٹیشن، قصہ خوانی بازار، پشاور یونیورسٹی وغیرہ۔پشاور سے ٹرین میں ایک مرتبہ پھر جمرود اور لنڈی کوتل کا خوبصورت ترین ریل کا سفر کیا۔ لنڈی کوتل میں تازہ چپلی کباب اور پشاوری نان کے بعد نامی گرانی قہوہ آج تک یاد ہے۔ لنڈی کوتل سے طورخم (پاکستان افغانستان بارڈر) پر ایک پہاڑی کی چوٹی سے دور کابل کا نظارہ کیا جو تاریخی منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔

دلچسپ ترین تجربہ اس دور کا اور اس دورے کا جو ہم میں نے کیا وہ یہ تھا کہ  پشاور سے واپسی پر پبّی  (پبی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کی تحصیل پبی کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ یہ گرینڈ ٹرنک (GT) کے دونوں جانب واقع ہے) ریلوے اسٹیشن پر کچھ پٹھان بچے ناشپاتیوں سے بھرے ٹوکرے کندھے پر رکھے ٹرین کی طرف لپکے جبکہ ٹرین ابھی  اسٹیشن کی حدود میں داخل ہی ہوئی تھی، ٹرین کی رفتار آہستہ ہوتے ہی وہ ٹوکرے انھوں  نے  ہمیں اور دیگر مسافروں کو زبردستی پکڑانا شروع کر دئے، ہم نے پیسے پوچھنا چاہا تو انھوں  نے کہا "ابھی اس کو رکھو، ہم اور لاتا ہے" ، اور وہ مزید ٹوکرے لاتے رہے ، تمام ریل کے ڈبوں میں انھوں نے ٹوکرے زبردستی دے دئے حتیّٰ کہ ٹرین چل پڑی۔ ہم تو حیران رہ گئے کہ اتنی ساری ناشپاتیاں مفت میں مل گئیں، کھانے میں لذیز اس قدر کہ ہاتھ ہی نہ رکے ٹرین کی رفتار بڑھنے لگی ، ہم کھڑکی سے باہر جھانک کر بچوں کو دیکھتے رہے تاکہ پیسے دے سکیں لیکن بچے نظر نہ آئے۔ اب ٹرین پوری رفتار سے رواں دواں تھی کہ اچانک بچوں کا یک ٹولہ ہمارے کمپارٹمنٹ میں داخل ہوا اور انھوں نے کہنا شروع کیا  " لاؤ بھائی جان ، پانچ روپے ٹوکرے کے حساب سے پیسے دے دو"۔ہم سب نے ایمانداری سے اپنے اپنے حصے کےٹوکروں کے پیسے ان کو دئے اور اطمینان  سے بقیہ سفر ناشپاتیوں کے ڈھیر ٹوکروں کے سات اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔نہ اس سے پہلے اور نہ آج تک اس قسم کا خوشگوار تجربہ مجھے تو زندگی میں کبھی نہ ہؤا۔

 

 


No comments:

Post a Comment

Archive