Search This Blog

Wednesday, April 9, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

2۔ راولپنڈی سے کراچی

23اگست 1964 شام چار بجے کی فلائٹ تھی جس کے ذریعے کراچی پہنچ کر 24 اگست 1964 کو صبح سات بجے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کے ہیڈ آفس پہنچ کر اپنی ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا۔ہوائی جہاز تھا لاک ہِیڈ کمپنی کا بنایا ہؤا سُپر کانسٹیلیشن۔ ٹھیک چار بجے جہاز اُڑ گیا۔آج کا اسلام آباد ائیرپورٹ  (چکلالہ) پہلے راولپنڈی ائیرپورٹ کہلاتا تھا۔

(پی آئی اے ہسٹری سائٹ سے لی گئی سپر کانسٹیلیشن جہاز کی تصویر)

ہوائی جہاز کا یہ سفر میری زندگی کا پہلا سفر تھا۔ میرے علاوہ بھی  دیگر اور لوگ بھی میری طرح پہلی بار سفر کر رہے تھے جبکہ بیشتر مسافر ایسے تھے جو اس سے پہلے بھی سفر کرتے رہے ہوں گے، چنانچہ  یہ سفر تو زیادہ تر لوگوں کی حرکات و سکنات دیکھنے میں ہی گذرا، بہت کم وقت کھڑکی سے باہر نظارے دیکھنے کا موقع ملا حالانکہ میں کھڑکی  کے ساتھ والی سیٹ پر ہی بیٹھا تھا۔ہاں، سب سے پہلے تو ائر ہوسٹس اور فلائٹ اسٹیورڈ  کی ایکٹنگ دیکھنے کو ملی جو لاؤدڈاسپیکر پر ایک آواز کے ساتھ اشاروں کے ذریعے بتا رہی تھی کہ اپنے آپ کو سیٹ کے ساتھ ایک بیلٹ کے ذریعے کیسے باندھنا ہے، کسی بھی ہنگامی صورت میں جہاز کے زمین پر کھڑے ہوجانے کی صورت میں کن دروازوں سے باہر نکلنا ہے، ٹوائلٹس کس جگہ موجود ہیں  وغیرہ وغیرہ۔ہوائی جہاز کے فضاء میں بلند ہوتے ہی سیٹ بیلٹ  باندھنے اور سگریٹ  نہ پینے والی لال بتیاں بجھا دی گئیں تو چند پرانے پاپی فوراً اپنی سیٹ سے اٹھ کر آگے پیچھے کی جانب چل پڑے اور کچھ نے اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی سگریٹ کے کش لگانا شروع کر دئیے۔ چند شوقین مزاج مسافروں  نے شراب منگائی اور اپنے جسم کے ساتھ اپنے ذہن کو بھی آسمانوں کی سیر  کرانا شروع کر دی۔ یاد رہے اس زمانے میں کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔

اس خوشگوار سفر کے دوران ایک دلچسپ تجربہ جو ہؤا وہ یہ کہ ایک میرے جیسے نئے نویلے مسافر کو پیشاب کی حاجت ہوئی، احساسِ کمتری کے مارے نے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوکر  بے چارے نےکھڑے ہوکرآنے جانے والے عملے کے ایک فرد کو آواز لگائی، پھر دوسرے کو لیکن مصروفیت کے باعث کسی نے نہ سنی تو برابر والے پرانے پاپی نے اس کو بتایا کہ اپنے سر کے عین اوپر لگے ہوئے لال بٹن کو دبائے جس سے گھنٹی بجے گی اور  عملے کا کوئی فرد آجائیگا۔  پڑوسی کی بات پر عمل کرنے پر ایک ائرہوسٹس اس کے پاس آئی تو اس نے انگریزی زبان بول کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہوائی جہاز میں روز سفر کرنے والا  نہایت متمول گھرانے کا چشم و چراغ ہے لیکن تین مرتبہ کی ناکام کوشش کے بعد ائر ہوسٹس نے اردو میں اس سے کہا کہ آپ کو کیا چاہیئے؟ تو اس کی جان میں جان آئی اور بولا " میں نے پیشاب کرنا ہے" ۔ اس کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے جو تجربہ ہؤا وہ اس حقیقت کی بنیاد تھی کہ ساری دنیا میں لوگ  زیادہ تر اپنی مادری زبان بولتے ہیں، اس پر فخر کرتے ہیں ، اب یہ سننے والے کا مسئلہ ہے کہ وہ اس کو سمجھے یا نہ سمجھے۔  ساری زندگی پی آئی اے نے مختلف ممالک میں ٹریننگز کرواکر ، اپنی چھٹی لے کر بیوی بچوں کے ساتھ کئی ممالک میں سیر و تفریح کی غرض سے سفر کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ محض ہم پاکستانیوں کے ذہنوں پر ہی ابھی تک انگریز سوار ہیں۔

 


 

No comments:

Post a Comment

Archive