Search This Blog

Friday, April 25, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

14۔ کراچی سے مکّہ معظمہ براستہ جدہ

  پی آئی اے میں ملازمت ہونے کے باوجود 1986 تک مجھے توفیق نہ ہوئی کہ میں مکہ و مدینہ کی زیارت کرتا۔ایک دن میری سب سے چھوٹی بیٹی جو دو سال کی تھی ٹی وی کے سامنے بیٹھی اپنی گڑیا کو دلھن بنا رہی تھی کہ ٹی وی پر ظہر کی آذان شروع ہوئی (مرحوم جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کے مطابق)۔میری بیٹی نے اپنے سر کو  اس  کُشن سے ڈھانپ لیا جس پر اپنی گڑیا کو لٹایا ہؤا تھا۔میں اپنے بستر پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا، جب یہ منظر دیکھا تو اُٹھ کر بیٹی کے پاس آیا ، اس نے ٹی وی پر خانہ کعبہ کی تصویر دیکھ کر کہا "ابو مجھے یہاں جانا ہے" میں حیران رہ گیا کیونکہ نہ تو اس کو کسی نے سر ڈھانپنے کے لئے کہا اور نہ ہی اس نے کبھی خانہ کعبہ دیکھا اور نہ ہی اس  قسم کی بات کسی سے سنی تھی۔ میرے دل کو ایسی لگی یہ بات کہ میں نے اسی وقت جانے کی تیاری شروع کر دی اور بیوی مرحومہ تو پریشان ہی ہوگئیں کہ یہ آج کیا ماجرا ہوگیا؟

(خانہ کعبہ کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے)

تیسرے روز پی آئی اے کے جہازائربس اے 310 میں ہم دونوں میاں بیوی چاروں بچوں سمیت  سوار ہوکر  جدہ پہنچے جہاں سے بذریعہ بس مکہ معظمہ کے ایک ہوٹل میں جو بابُ العزیز کے بالکل سامنے تھا۔سارا سامان رکھا  اور منہ ہاتھ دھوکر فریش ہوئے ، مسجدِ عائشہ جاکر احرام باندھ کر خانہ کعبہ آئے، گود میں میری بیٹی تھی جس نے خانہ کعبہ کو پہلی نظر میں  دیکھ کر کہا "اتنے بلے اللہ میاں ؟"  مذہبی، روحانی اور جذباتی کیفیت نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی اور نہ اس کے بعد آج تک۔

  اس سفر کے دوران ایک سے زیادہ تجربات ہوئے جن میں خوشگوار بھی تھے اور افسردہ کر دینے والے بھی۔پہلا خوشگوار تجربہ یہ ہؤا کہ  اپنے عمرے کے تمام ارکان مکمل کرکے والد صاحب مرحوم کے نام کے عمرے کے لئے صبح ناشتہ کے فوراً بعد اکیلا مسجدِ عائشہ چلا گیا جہاں سے نئے سرے سے احرام باندھ کر آنا ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ پاسپورٹ  لے جانا بالکل بھول گیا، یاد اس وقت آیا جب مسجد عائشہ سے بس میں بیٹھا اور پولیس والے بس میں چڑھ کر ایک ایک فرد کا پاسپورٹ چیک کر رہے تھے۔یاد رہے کہ پاسپورٹ نہ ہونے کی صورت میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی بلکہ براہِ راست گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا۔ میرے تو پسینے چھوٹ گئے، موبائل فون کا زمانہ نہ تھا جو بیوی بچوں کو اطلاع دیتا۔ اللہ نے کرم کیا کہ میرے پاس پہنچنے سے پہلے پولیس والا واپس چلا گیا اور بس روانہ ہوگئی۔خانہ کعبہ کے پاس بس اسٹینڈ سے سیدھا ہوٹل گیا تو بیوی بچے خانہ کعبہ عبادات کے لئے جا چکے تھے، گویا والد مرحوم کے نام کا عمرہ ایک بھیانک خوف کی کیفیت میں  مکمل کرکے بیوی بچوں کے انتظار میں ہوٹل کی لابی میں ظہر کی نماز ختم ہو جانے تک بیٹھا رہا۔جب وہ آگئے تو سب نے مل کر اللہ کا شکر ادا کیا۔دوسرا خوشگوار تجربہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ٹیکسی ڈرائیور کا مل جانا جس کو ہم نے مدینہ شریف  جانے کے لئے ہائر کیا لیکن اس نے اپنے آپ ہی فیصلہ کیا کہ وہ پہلے ہمیں تمام آس پاس کی زیارات  کی سیر کرائیگا  اور قریباً دو گھنٹے بعد مدینے کی جانب روانہ ہوگا۔زیارات کی سیر کرانے کے بعد ٹیکسی کا میٹر ڈاؤن کریگا۔اللہ اس کو اس کا صلہ دے گا۔افسردہ کرنے والے تجربات کا ذکر کرنا اب  مناسب نہیں۔

No comments:

Post a Comment

Archive