Search This Blog

Sunday, April 27, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

16۔ کراچی سے  سنگاپور

1987دسمبر میں  اچانک سیر کے لئے سنگاپور چلے جانا تب ہی ہو سکتا تھا جب کہ ہوائی جہاز کا کرایہ برائے نام ہو اور سنگاپور میں داخلے کے لئے ویزا جیسے اجازت نامے کی ضرورت نہ پڑے۔سامان باندھنے کی پریکٹس  بارہا سفر کرنے سے خاصی ہو چکی تھی  اُس پہ طرہ یہ کہ بیوی مرحومہ ایسی ملی کہ اپنے ساتھ میرا  اور چاروں بچوں کا سامان باندھنے کا فن بے مثال تھا۔

(سنگاپور سے منسلک جزیرے سینٹوزہ پر سیر کرتے ہوئے تصویر میری ذاتی البم سے لی گئی ہے)

کراچی میں تو  پھر بھی تھوری ٹھنڈ تھی لیکن سنگا پور میں تو گرمی، جیسا کہ تصویر میں ہمارے کپڑوں سے ظاہر ہے۔ یکم جنوری 1988 نیاسال آرچڈ اسٹریٹ پر ایک خصوصی تقریب کے ٹکٹ مصطفیٰ کے ہوٹل میں  ہی مل گئے   کیونکہ ہم اس کے پرانے اور مستقل گاہک تھے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے صحیح فرمایا تھا کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب  مغرب۔نئے  سال کی تقریبات یہاں سنگاپور میں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے ہمارے پاکستان میں ہوتی ہیں۔ بغیر موبائل فون کے چاروں بچوں کا جدھر دل چاہے منہ اٹھا کر چل دینا اور پھر ہم ماں باپ کا ان کو تلاش کرنا قطعئی پریشان کن نہ تھا البتّیٰ سینٹوزہ جزیرے پر بہت بڑے چڑیا گھر میں مغرب کے وقت سب کا الگ الگ ہونا تھوڑا سا ہیبت ناک محسوس ہوا تو انتظامیہ سے بچوں کی تلاش میں مدد چاہی جس پر ہماری تسلی یوں کر دی گئی کہ سینٹوزہ  جزیرے سے باہر نکلنے کا ایک ہی گیٹ ہے، رات نو بجے سب کچھ بند ہوجاتا ہے ہے اور ہم اعلان کر دیتے ہیں کہ تمام لوگ جو سنگاپور جانا چاہتے ہیں وہ باہر جانے والی گیٹ پر جمع ہو جائیں، تو آپ کے بچے بھی آپ کو وہیں مل جائیں گے۔بیوی مرحومہ تو بالکل پریشان نہ ہوئیں البتّیٰ میری حالت تھوڑی سی خراب ہوئی کیونکہ ایک  چیتا کھلا پھر رہا تھا جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہؤا کہ  وہ جہاں جہاں پھر رہا تھا اس کے اطراف میں بہت بڑی اور گہری خندق کھدی ہوئی تھی جس کے کناروں پر کانٹے  دار تار بھی لگے تھے۔

اس سفر کا یاد گار تجربہ پی آئی اے کے جہاز 707 بوئنگ کا  ٹیک آف کرتے ہی پورے چھہ گھنٹے ایک شدید بادوباراں کے طوفان میں  زبردست ہچکولے کھاتے ہوئے کراچی واپس خیریت سے پہنچنا تھا جس دوران کئی  مسافروں کے معمولی چوٹیں بھی آئیں اور ایک عمر رسیدہ پاکستانی خاتون مسافر خوف کے باعث بے ہوش بھی ہوئیں جن کو پی آئی کے عملے نے فوری طبی امداد پہنچا کر سنبھال لیا۔ائیرکرافٹ انجینئیر ہونے کے ناطے مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ ہمارا یہ جہاز کتنا پرانا اور کس قدر زنگ آلود ہے لیکن اسی حالت میں یہ پوری دنیا کے چکر سالہا سال سے لگا رہا تھا۔ مین نے   کراچی لینڈ کرنے کے بعد کیپٹن سے معلوم کیا کہ ایسی کیا مصیبت تھی کہ اس خطرناک طوفان میں آپ پورے چھہ گھنٹے ہم سب کی جانیں  خطرے میں ڈالے رہے تو کپتان صاحب بولے   "طوفان کا رقبہ 900  میل لمبا اور 300 میل چوڑ اتھا اس سے بچنے کے لئے بہت لمبا چکر پڑ جاتا جس میں فیول بہت خرچ ہو جاتا۔ یہ  ہؤا کرتا تھا ہمارے عملے کا کمال جس کی بابت   پی آئی اے پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر اس نعرے کے ساتھ رہی "باکمال لوگ  لاجواب پرواز

No comments:

Post a Comment

Archive