17۔ کراچی سے فینکس امریکہ
براستہ فرینکفرٹ
مئی 1988 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 8 ممبران کی
ٹیم نے فینکس، ایریزونا ہنی ویل کمپلیکس میں B-737 موڈ
کنٹرول پینل (MCP) کی آن جاب ٹریننگ میں شرکت کی۔ خوش قسمتی سے میں بھی اس ٹیم کا
ممبر تھا۔ فینکس میں ہنی ویل کمپنی کے
نزدیک ایک موٹل کے چار کمرے بُک کرالئے تھے جن میں دو دو ساتھی ٹھہرے، ایک ہفتہ کا کھانا بنانے کا
سامان لے کر رکھ لیتے اور باری باری خود بناتے اور ایک کمرے میں اکھٹے ہو کر کھانے
کے مزے اڑاتے۔
(گرینڈ کینین کے ویو پوائنٹ پر تصویر میری ذاتی البم سے لی گئی ہے)
فینکس میں گرمی کراچی سے زیادہ تھی اس لئے شام کو ٹریننگ سے فارغ ہوکر سوئمنگ پول میں ضرور کود جاتے جو تیرنا جانتے تھے۔دو ہفتوں کے بعد ہماری عید الفطر تھی جو ہم نے اپنے ویک اینڈ کے ساتھ ملا کر منائی۔ عید کی نماز کے بعد ہم نے ایک وولوو وین کرائے پر لی جس میں ہم سب اپنے سامان کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر گرینڈ کینین کی جانب روانہ ہو گئے ، سفر دو جگہ رکنے کے بعد چار گھنٹے کا تھا۔فینکس سے گرینڈ کینین سڑک کے ذریعے تقریبا 225 میل ہے۔ فینکس سے سیڈونا - فلیگ سٹاف - ولیمز - گرینڈ کینین - پریسکاٹ - جیروم اور واپس فینکس ۔دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک سے لطف اندوز ہونا کتنی خوش قسمتی ہے، گرینڈ کینین قدرت کا ایک ناقابل یقین شاہکار ہے۔ یہ زمین کی سطح پر ایک بہت بڑا، بہت بڑا شگاف ہے - 217 میل لمبا، 4 سے 18 میل چوڑا اور ایک میل گہرا، جس کے نیچے دریائے کولوراڈو بہتا ہے۔
41 سال کی ملازمت میں بے شمار مرتبہ ہوائی جہاز کا سفر کیا لیکن اس سفر کے دوران واپسی پر
فینکس سے نیویارک اور فرینکفرٹ کے راستے
کراچی کے لئے روانگی ہوئی تو پوری زندگی
کا واحد نہایت ہی خطرناک تجربہ ہؤا۔جیسے
ہی ہمارا بوئنگ 747 فرینکفرٹ سے اُڑا ، دھواں دار بارش شروع ہوگئی جو زبردست گرج
چمک کے ساتھ ہو رہی تھی۔آگے شاید موسم زیادہ خراب تھا اس لئے پائلٹ نے جہاز واپس
فرینکفرٹ پر اتار لیا۔ کچھ دیر بعد پھر
ٹیک آف کیا لیکن چند منٹ بعد ہی واپس لینڈ
کرنا پڑا۔آدھے گھنٹے موسم صحیح ہونے کا انتظار کرنے کے بعد پائلٹ نے ایک بار پھر
ٹیک آف کیا۔زبردست ہچکولوں اور گڑگراہٹ کے ساتھ آدھے گھنٹے بعد پرواز کچھ بہتر
ہونے لگی تھی کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز کے ساتھ آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی جہاز کے اندر
پھیل گئی۔میں اپنی سیٹ پر خوفزدہ بیٹھا تھا اور میرے برابر ایک غیر ملکی رسالہ پڑھ
رہا تھا۔دھماکے کے ساتھ ہی اس نے رسالہ بند کیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا تو میں
نے اپنی خفت متانے کے لئے اس سے پوچھا کہ کیا تمہیں بھی ڈر
لگ رہا ہے تو بولا نہیں، مجھے ڈر نہیں لگ رہا لیکن مجھے یہ سب کچھ پسند نہیں۔ میری
ہنسی نکل گئی اور کہے بغیر نہ رہ سکا کہ تمہاری پسند یا نہ پسند سے کیا ہوتا ہے،
بجلی تو جہاز پر گر گئی اور جہاز بچ گیا، اس کے بعد پورا سسٹم اس کو سمجھانے لگا
کہ جہاز پر بجلی گرتی ہے تو اس کو محفوظ رکھنے کے لئے کیا کیا آلات و پرزے لگے
ہوتے ہیں جو جہاز کو بھسم ہونے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ نہایت حیرانگی اور دلچسپی سے
وہ سنتا رہا اور اس طرح ہم دونوں ایک شدید خوف کی فضاء سے باہر نکل آئے۔بعد میں اس
نے پوچھا کہ میں کون ہوں اور کیا کام کرتا ہوں جس پر میں نے اپنا تعارف پی آئی اے کے مینٹیننس منیجر کی حیثیت
سے کرایا۔
No comments:
Post a Comment