Search This Blog

Tuesday, May 20, 2025

فطرت سے ہم آہنگی میں زندگی آسان 4

بیان کردہ خالقِ کائنات کا نظام تو کسی نہ کسی صورت میں روئے زمیں پر ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل گیا اور لگ بھگ ہر انسان جان گیا لیکن اس کے آگے بھی ایک نظام ہے جو غور کرنے کے باوجود بیشتر انسان یا تو سمجھ ہی نہ پائے اور یا پھر سمجھنے کے باوجود اس پر عمل کرنا ان کے لئے مشکل ہے یا ممکن نہیں۔ اس کو انسانی نظام کہتے ہیں کیونکہ اسے انسانوں نے بے شمار ارتقائی منازل سے گزرنے کے ساتھ ساتھ وضع کیا ہے، اس کی بنیاد کا فطرت کے نظام کے ساتھ الحاق ہے یعنی اس انسان کے بنائے ہوئے نظام میں بھی کوئی اصول فطرت کے نظام کے اصولوں سے غیرآہنگ نہیں۔ایک تو یہ انسانی نظام "جس کی لاٹھی، اس کی بھینس" کے بنیادی اصول پر قائم ہے دوسرے اس میں انسانی فلاح و بہبود کے پیوند بمطابقِ ضرورت لگے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ بھونڈے اصول قابلِ قبول اور مقبول ہیں کیونکہ جہاں انسان کی اپنی فلاح نتیجتاً برآمد ہوتی ہو بھلا وہ کس کو ناقابلِ قبول ہوگا؟ گویا براہِ راست فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے بجائے بالواسطہ نظام میں شامل ہو کر بھی ہم اپنی زندگی آسان بنا سکتے ہیں اور اس کے بعد کی زندگی میں کڑی سزا سے بھی بچ سکتے ہیں۔

(قران میں فلاح و بہبود  کی وضاحت کے بارے میں  گوگل کی تصویر)

براہِ راست فطرت کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ہر انسان کا اس نظام کو اچھی طرح سمجھنا لازم ہے۔جب کہ بالواسطہ  فطرت کے نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے اس نظام کو سمجھنا لازم نہیں بلکہ آنکھ بند کر کے  واسطہ کے  پیچھے چلنا ہی کافی ہے۔براہ راست چلنے والے انسان کے لئے سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھنا ضروری ہے کہ اس کے جسم کے کون سے اعضاء ہیں جن کو نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہونا لازم ہے اور کون سے اعضاء نہ بھی ہم آہنگ ہوں تو فرق نہیں پڑے گا۔شکل صورت سمیت انسانی جسم کے اعضاء خالقِ کائنات کے تخلیق کئے ہوئے ہیں لیکن بسا اوقات کئی اعضاء میں ردو بدل کرنا یا آپریشنل بہتری کے لئے کوئی تبدیلی لا کر فطرت سے ہم آہنگ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن شوقیہ یا دکھاوے کے لئے کسی قسم کا ردو بدل یا تبدیلی غیر آہنگی کی علامت ہے جس میں سراسر تکلیف ہے، یہ نکتہ انسان کو ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد سمجھ آگیا لیکن پھر بھی تاریخ کے ہر دور میں ایک ایسا طبقہ موجود رہا جس نے فیشن کے نام پر ایسا کیا اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دولت کی فراوانی کے باعث فیشن کے نام پر اپنے لباس کے ساتھ اپنی شکل صورت تو کیا، اپنی پوری کی پوری ہیئت ہی تبدیل کرنے پر تلے ہیں جن کو نہ صف اس عمل کو بروئے کار لانے میں تکلیف ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو تمام زندگی ہی شدید اذیت میں گذارنا پڑتی ہے۔میرا اشارہ چہرے کی پلاسٹک سرجری، نئے بال اگانے کی سرجری اور جنس تبدیل کرنے کی سرجری کی جانب ہے۔

خالقِ کائنات کا بنایا ہؤا چہرہ جیسا بھی ہو اس پر اس کا شکر ادا کرنا چاہئے لیکن اگر کسی حادثے کے نتیجے میں چہرہ حد سے زیادہ بگڑ جائے تو خالق کائنات نے انسان کو اتنا علم عطا کیا کہ وہ سرجری کے ذریعے اس کو دوبارہ قابل قبول بنا دے، اسی طرح جسم کا کوئی عضو کسی حادثے  کے نتیجے میں مکمل ضائع ہو گیا تو اس کی جگہ مصنوعی عضو بنا کر لگا دیا جائے یا جسم کے اندرونی اعضاء میں سے کوئی عضو اپنی سو فیصد پرفارمنس نہیں ادا کر پارہا تو مختلف قسم کی سرجریوں یا ٹرانسپلانٹ کے ذریعے دوبارہ سو فیصد پرفارمنس حاصل کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس میں سے کسی عمل کے نتیجے میں نہ تو نیت میں فطرت کے نظام سے بغاوت ہوتی ہے اور نہ اس کا نتیجہ فطرت کے نظام سے غیر آہنگ طور پر برآمد ہوتا ہے۔ 



 

No comments:

Post a Comment

Archive