Search This Blog

Monday, May 19, 2025

فطرت سے ہم آہنگی میں زندگی آسان 3

انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات اپنے کھانے پینے کے لئیے تھوڑی بہت اشیاء ذخیرہ کر لیتی ہیں لیکن حضرتِ انسان اپنے کھانے پینے  کا سامان اور مال و دولت قیامت تک کا جمع کرنے کی خواہش رکھتا ہے جس کے حصول کی جدوجہد میں لڑائی جھگڑا  اور قتل و غارت کے واقعات ازل سے ہوتے چلے آرہے ہیں اور ابد تک ہوتے رہیں گے کیونکہ زن، زر اور زمین کا حصول اور اس کی ملکیت حاصل کرنا انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ کسی بھی شے کے حصول کے لئے دوسرے کو محروم کرنا بھی لازم و ملزوم ہے اور یوں جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس کےاستعارہ نے جنم لیا جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔گویا طاقت کے بل بوتے پر ایک طاقتور انسان  ایک کمزور انسان سے سب کچھ چھین سکتا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں اپنا عمل فطرت کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے لئے کیا کرنا ہے؟

(گوگل سے لی گئی تصویر میں آخرت کے بارے میں قران کا حوالہ)

زن ، لڑکی یا عورت کے حصول کے لئے دنیا کی ابتدا  میں ہی آدم کی اولاد قابیل نے ہابیل کو قتل کر کے نہائیت ہی ناپسندیدہ فعل ادا کیا  لیکن انسان نے اپنے آپ کو اشرف ثابت کرنے کے لئے اخلاقیات کے اصولوں پر جس معاشرہ کی تخلیق کی اس کی لامحدود ارتقائی منزلیں طے ہونے کے باوجود ہنوز جاری و ساری ہیں اور یوں مختلف النّوع اقسام کی روایات دنیا کے ان گنت معاشروں میں آج بھی پائی جاتی ہیں۔ 

چونکہ خالقِ کائنات کی کوئی جسمانی ہئیت نہیں لہٰذا وہ نہ تو نظر آسکتاہے اور نہ ہی اس سے بالمشافہ بات چیت ہو سکتی ہے لیکن تمام قدرت اس کے پاس ہونے کی بابت اس نے انسان کو زمین پر اپنا نائب مقرر کیا اور مختلف ذرائع کی وساطت سے اس تک اپنا پیغام پہنچا دیا کہ اگر کسی انسان کو اپنے آپ کو میرے  ساتھ ہم آہنگ رکھنا ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے، اس پر عمل کرنے سے "جزا" اور عمل نہ کرنے کی "سزا" ہے ۔دنیائے تاریخ کے ہر ادوار میں موجود انسانوں کے لئے ان ہی کی زبان میں اپنے مقرر کردہ نظام کے تحت پیغام بھجوادیا۔خالقِ کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ضروری نہیں ہر انسان اس سے بالمشافہ ملاقات کرے بلکہ اس کے نظام میں ملائکہ اور پیغمبران شامل ہیں باقی اس کی نشانیاں ہیں جو غور کرنے والے انسانوں کو نظر آ جاتی ہیں، گویا فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے لئے اس نظام میں داخل ہونا پڑتا ہے، جو اس نظام کا حصہ بن گیا اور اس پر آہنگی سے اپنی زندگی گذاری اس کی نہ صرف یہ زندگی آسان ہے بلکہ اس کے بعد کی زندگی بھی جزا کی صورت میں نہایت ہی آسان اور خوبصورت ہوگی۔جس انسان نے اس نظام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی یا سمجھنے کے باوجود اس میں داخل نہ ہوا اس کی موجودہ زندگی تو کرب و پریشانیوں میں  گھری رہے گی بلکہ اگلی زندگی میں بھی اس کو سزا کے طور پر ہر وہ تکلیف ملے گی جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔


 

No comments:

Post a Comment

Archive