Search This Blog

Tuesday, May 6, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

22۔ کراچی سے   شکاگو براستہ فرینکفرٹ

1998 میں  فرینکفرٹ، نیویار ک اور شکاگو  تینوں شہروں سے اہلیہ و بچوں کو ساتھ لانے کے ضدی بلاوے  اتنے زور پکڑ گئے کہ آخر ہم لوگ نکل ہی پڑے۔ فرینکفرٹ میں ایک فرانسیسی  دوست جو ایک سال پہلے ہی  یہاں  اپنی کمپنی ائیرواسپیشل  کے تبادلے کے باعث شِفٹ ہوا ۔نیویارک میں  بیٹی کے ہونے والے  سسرال والوں کی خواہش اور شکاگو میں  بیٹے کے  منہ بولے بھائی کے سسرال والوں نے تو تین سال سے زور لگایا ہؤا تھا کہ کسی طرح میں اپنی فیملی سمیت شکاگو شِفٹ ہو جاؤں۔

(شکاگو لیک شور اپارٹمنٹ کے سامنےبیٹا اور اس کے دوست کے والد)

گذشتہ دوروں کی مانند یہ دورہ بھی نہایت دلچسپ و تھکا دینے والا تھا۔بہت سارے انہونے واقعات بھی ہوئے اور کئی قصےّ  تو تاریخ رقم کرنے والے بھی تھے لیکن اس دورے میں اہم ترین نکتے کی نشاندہی کرنا چاہوں گا جو اس سے پہلے نہ کرسکا حالانکہ  اس سے پیشتر 1986 کے دبئی کے دورے کے دوران بھی ایک پاکستانی ہیرے عمر شاہ سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بارے میں صرف اتنا بتا سکا تھا کہ وہ  اوورسیز پاکستانیز ایسوسی ایشن کے صدر تھے ، اصل میں وہ رائل کارگو کے دفتر کے مکمل طور پر نگہبان بھی تھے کیونکہ اس کمپنی کا مالک دبئی کے شاہی خاندان سے تھا جو مہینوں میں کبھی ایک مرتبہ چکر لگا لیا کرتا۔ عمر شاہ کو میں نے آفس میں  چار لینڈ لائنز پر بوقت چار زبانوں میں چار مختلف ممالک   کے ساتھ گفتگو کرتے سنا تھا اور مصروفیت کے باعث  مجھ سے بات کرنے کا نمبر  پینتیس منٹ بعد جب آیا جب انہوں نے سیکریٹری سے کہہ کر سب فون  پندرہ منٹ کے لئے بند کروا دئے۔ انہی عمر شاہ کو،  بقول ان کے دوست سلیم سرفراز (جنرل سیکریٹری پاکستانیز ویلفئرز ایسوسی ایشن)  کے،  پاکستان  سے ان کے والدین نے گھر سے یہ کہہ کر نکال دیا تھا کہ یہ سب سے نکما بچہ ہے ہمارا، دھکے کھائے گا تو سدھر جائیگا۔

اسی طرح اس دورے میں جو تصویر میں میرے ساتھ  کھڑے ہیں ان کو پاکستان میں ایک ادارے سے یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ وہ کسی کام کے نہیں (بقول ان کے)۔ اب یہاں شکاگو میں پورے شکاگو سٹی کی انرجی ڈیپارٹمنٹ کے نمبر دو ہیں ، نمبر ایک امریکن ہے جو زیادہ تر بیرون ملک دوروں یا کانفرنس وغیرہ میں شرکت کے باعث مصروف رہتا ہے ۔ انرجی ڈیپارٹمنٹ  شکاگو شہر  کی تمام رہائشی و کمرشل عمارات کی بجلی ، ائر کنڈیشننگ اور ہیٹنگ کا نظام چلاتا  اور اس کی مرمت و دیکھ  بھال روزآنہ کی بنیاد پر کرتا ہے۔ موصوف نے پنجاب یونیورسٹی سے سائنس میں گریجوئیشن کیا تھا۔

  

No comments:

Post a Comment

Archive