جب سے انسان جنگلوں سے نکل کربقیہ زمین کے حصے پر قابض ہونا شروع ہؤا، تب ہی سے معاشی جنگ کا صیغہ وجود میں آیا اور یہ معاشی جنگیں اُسی بنیادی اصول ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ پر لڑی جاتی ہیں جو جنگل میں ازل سے نافذ العمل تھا۔ان جنگوں میں اکثر ہتھیار استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی بلکہ مضبوط و ہوشمند خارجہ پالیسی ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔برِ اعظم افریقہ کے ایک ملک یوگنڈا میں بھی یہ تماشہ کھیلا گیا جس کے نتیجے میں دیگر خاندانوں کے ہمراہ ایک ایسا خاندان بھی مہاجر در مہاجر بنا جس کا تعلق انڈیا کی ریاست گجرات کی ایک ڈسٹرکٹ کَچھ سے تھا۔
برطانیہ کی طاقتور خارجہ پالیسی کے تحت اس خاندان کے آباؤ اجداد کو پہلے مہاجر بن کر یوگنڈا میں پناہ حاصل کرنا پڑی اس کے بعد اس کی اگلی نسل کو مشترکہ طاقتور سلطنتوں کی مضبوط ترین خارجہ پالیسیوں کے باعث ایک مرتبہ پھر مہاجر بن کر پچاس سال پہلے انگلستان میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔مہاجر در مہاجر اقبال ابراہیم صاحب کے مطابق ان کے خاندان کے کسی فرد کو نہ تو کبھی انڈیا میں کسی قسم کی تکلیف ہوئی ، نہ یوگنڈا میں اور اب یہاں انگلستان میں پچھلے پچاس سال سےبھی کبھی کسی قسم کی پریشانی درپیش نہ آئی، کہتے ہیں ہم کاروباری لوگ ہیں ایڈمنسٹریشن کا کام بھی بخوبی سنبھال لیتے ہیں کیونکہ ہماری تعلیم حاصل کرنے کی شرح ستّر فیصد سے زائد ہے۔اقبال صاحب، انکی اہلیہ اور بڑی ہمشیرہ نے جو کہانیاں سنائیں ان کو انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس خصوصاً بی بی سی کے ذریعے کراس چیک کیا تو یقین کی کیفیت میں اضافہ ہؤا کیونکہ بی بی سی کی ریڈیو پر اردو سروس ہو، بی بی سی کی انگریزی کی گلوبل ٹیلیویژن براڈکاسٹ ، دونوں ہی ہمیشہ قابلِ اعتبار رہی ہیں ۔مجھے یاد ہے 1965 کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران لوگ پہلے پاکستانی ریڈیو اسٹیشن سے خبریں سنتے، پھر ریڈیو آکاش وانی اور پھر مستند رپورٹنگ سننے کے لئے بی بی سی ریڈیو کی اردو سروس لگا لیا کرتے تاکہ جنگ کے بارے میں پوری طرح آگاہی ہو جائے۔اور میرا ماننا ہے کہ مختلف طاقتور اقوام نے دنیا کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی کالونی بنایاجہاں اکثر ظالمانہ طرز ِ حکمرانی قائم کی ،وہاں کے قیمتی خزانے سمیٹے اور زمینیں اُجاڑ کر اپنی دھرتی پر لوٹ گئے لیکن انگریز وہ واحد قوم ہے جس نے دنیا کے کسی بھی حصے پر قبضہ کیا تو ایک منصفانہ طرزِ حکومت کی بنیاد ڈالی اور جب تک رہے اس پر خود بھی عملدرآمد کیا اور مقامی اقوام کو بھی اچھی و منصفانہ طرزِ زندگی کا سلیقہ سکھایا۔ انگریزوں کی خارجہ پالیسی آج بھی جارحانہ نہیں بلکہ ہوش مند و منصفانہ ہے خواہ یوکرین کی جنگ کا معاملہ ہو، اسرائیل فلسطین کا جھگڑا ہو یا دنیا بھر سے مہاجرین کا معاملہ۔انگلستان نے کسی معاملے میں بھی متعصبانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔
میرا مطمعِ نظر نہ تو کوئی خارجہ پالیسی ہے اور نہ ہی سیاسی پناہ حاصل کرنے والے مہاجرین بلکہ میرے اس آرٹیکل کے کے محرکات میں اچھے انسان اور ان کے گھر میں بنے ہوئے لذیز روایتی کھانے ہیں۔گزشتہ اتوار کو ان لوگوں نے مجھے اور میرے بیٹے کواپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا جس کے لئے میرا وقت ہوتا ہے آٹھ بجے لیکن شام ساڑھے سات بجے ہی میرے بیٹے کے پاس فون آگیا کہ آپ لوگ ابھی تک نہیں آئے ، آپ کے انکل تو اس وقت تک کھانا کھا کر سونے چلے جاتے ہیں۔ہمارے آٹھ بجے پہنچ جانے کے فوراً بعد ہی کھانا لگا دیا گیا جو نہایت لذت سے بھرپور تھا اس کے بعد ہر موضوع پر گفتگو میں ان تینوں نے حصہ لیا اور پتہ بھی نہ چلا کب ساڑھے دس بج گئے۔ اقبال صاحب اپنی خرابیِ صحت کے باوجود پورے جوش و خروش سے شریکِ گفتگو رہے لیکن بالآخر بستر پر جانے کی اجازت مانگی۔
No comments:
Post a Comment