![]() |
(سلمان مرزا کی پھپھو میرے بیٹے سلمان اور والدہ میرے ساتھ)
بر صغیر میں "پھپھو کی چالاکیاں" کے عنوان سے سوشل میڈیا پر ایک پروفائل ہے جو نند بھاوج کے رشتے میں تناؤ کو مزاحیہ انداز میں بہت خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ میرے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں پھپھو کے مثبت و منفی دونوں کردار ہیں۔ منفی کردار تو خطرناک حد تک بربادی کا موجب ہے جبکہ مثبت کردار متعلقہ خاندان میں امن و شانتی کا گہوارہ بنتا دیکھا ہے۔ یہاں انگلینڈ و اسکاٹ لینڈ میں ایک خاندان تین نسلوں سے آباد ہے جو پاکستان کے شہر گوجر خان سے ہجرت کرکے آیا۔ سلمان مرزا تیسری نسل کا چشم و چراغ ہے جس نے عامر خان کے بعد باکسنگ میں محض سترہ سال کی عمر میں ایک مقام حاصل کیا، 2 اگست 2025 کو اس کی شادی تھی جو برادری کی لڑکی صبا سے ہوئی جس میں شرکت کے لیے مجھے اپنے بیٹے ڈاکٹر سلمان علی کے ساتھ وی آئی پی شخصیات میں شمار کیا گیا کیونکہ سلمان مرزا اور سلمان علی عرصہ دراز سے بہت گہرے دوست ہیں اور 2018 سے سلمان مرزا کے دادا، دادی مرحومہ اور والد و والدہ کے ساتھ میرے روابط قائم ہوئے۔ سلمان مرزا کی والدہ مانند میری بیٹی نے جس شاندار طریقے سے مہندی کی تقریب میں میرا استقبال کیا اسی انداز سے سلمان مرزا کی پھپھو نے پہلی ہی ملاقات میں اپنی بھابی سے کہیں زیادہ نمبر لے جانے کا ریکارڈ قائم کیا بلکہ جس خوش اخلاق انداز میں تمام خاندان کے افراد کو فرداً فرداً اپنے گرم جوش طریق کار میں ملوث کر کے محفل ہی لوٹ لی۔ کوئی باقی نہ رہا جس کا دل "پھپھو" نے نہ موہ لیا ہو، یعنی پہلی ملاقات میں ہی پھپھو نے ثابت کیا کہ وہ ایک منفی نہیں بلکہ مثبت سوچ کی حامل شخصیت ہے اور برادری کے تمام لوگوں کو اتفاق، پیار محبت اور یگانگت کے ساتھ زندگی گزارنا سکھا کر ہی دم لے گی۔ ہر خاندان و برادری میں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے روٹھ جاتے ہیں اور خصوصاً شادی بیاہ کے موقعوں پر تو لازمی ہے ایسا ہونا جس سے خاندان میں ایک دراڑ پر جانے کا خدشہ ہوتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ایک سین تھا جس کو ختم کرنے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی نصیحتیں کرتے ہوئے پھپھو کو دیکھا گیا، میں نے بغور مشاہدہ کیا کہ پھپھو کبھی یہاں بیٹھی ہیں تو کبھی وہاں کسی کے بغل میں اور سمجھا رہی ہیں کہ دوسرے کی زیادتیوں کو ہر حال میں سہنا ہے جس کا صلہ ہمیشہ اچھا ہی ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پھپھو کے چہرے پر ایک عجیب سی نورانی مسکراہٹ تھی جو ان کے ضمیر کے اطمینان کا برملا اظہار کر رہی تھی۔اس کے پیچھے نہ تو کوئی مشرقیت یا بر صغیر کی روایات کا عمل دخل تھا اور نہ ہوئی مغربی تہذیب سے مرعوب ہوکر ایسا کرنے پر وہ مجبور ہوئیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت کو اسی کام کے لئے چُنا تھا۔ شادی کی تقریبات میں تقریباً دس گھنٹے میری شرکت رہی اور بلا مبالغہ دس گھنٹے میں سے نو گھنٹے پھپھو کے طرزِعمل کو دیکھ دیکھ کر میرے دل سے یہی دعا نکلتی رہی کہ یا اللہ ہم سب کو پھپھو جیسی سوچ اور اندازِ سلوک عطا فرما، آمین!
No comments:
Post a Comment