.jpeg)

میڈیکل سائنس کہتی
ہے کہ
اولاد میں والدین کی خصوصیات ڈی این اے کے باعث منتقل ہوتی ہیں جب کہ
مؤرخین کہتے ہیں کہ تاریخ کے اپنے آپ کو
دہرانے کے عمل کی وجہ سے ہمارے آباؤ اجداد
کی حرکات و سکنات ہم میں نظر آتی ہیں۔چار بچوں میں سے کسی ایک میں اُس بیماری
کی تشخیص ہوتی ہے جو اس کے والد یا والدہ میں پائی جاتی تھی اور باقی تین
میں نہیں، آخر ایسا کیوں ؟ جب کہ ڈی این اے تو چاروں میں منتقل ہؤا اور یوں بھی ہوتا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کو بھی وہ بیماری نہ ہوئی ہو جو کسی
ایک بچے یا دو یا تین یا چاروں بچوں میں نمودار ہو جائے۔جب ڈاکٹروں سے یہ سوال کیا گیا
کہ آخر کیوں ؟ تو ان کے پاس جواب نہ تھا ۔ البتّٰی تاریخ دہرانے کے رحجان کو کسی بھی ایک بچے میں نظر آنا یا تمام
چاروں میں نمودار ہونا تاریخ دہرانے کے عمل کی گواہی ہے کہ کبھی بھی دہرائی جا
سکتی ہے اور لازمی بھی نہیں کہ ضرور ہی
دہرائی جائے ۔گو کہ میری بڑی بیٹی کو لوگ کہتے ہیں کہ بالکل اپنی ماں کی شکل ہے
لیکن مجھے حیرانی نہیں ہوتی جب چھوٹی کو
دیگر لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ یہ تو
بالکل اپنی ماں پہ ہے۔واقعئی مجھے تو
دونوں ہی اپنی ماں کے مشابہ لگتی ہیں ۔ یہ
تو ہوئی ظاہری شکل و صورت کی بات ، دیکھنے والے کی نظر کا جس میں نہایت اہم کردار
ہوتا ہے لیکن دوسرے نمبر کے بیٹے کی شکل و صورت نہ ماں سے
مشابہ ہے اور نہ اپنے باپ یعنی مجھ سے ، ہاں مگر عادات کے حوالے سے ہو بہو اپنی ماں کی نقل محسوس ہوتا ہے ۔ اسی طرح چھوٹا بیٹا خصوصیات کے حوالے سے بعینئہ میری نقل لگتا ہے۔
تصویر میں میری سب سے چھوٹی بیٹی ہے جس کی 21 ستمبر 2025 کو شادی ہوئی ہے اور یہ ایک روز بعد ولیمے کی
تقریب کے دوران کی تصویر ہے جس میں اچانک شوٹ کیا ہؤا پوز بعینہہ اپنی ما ں کی طرح
ہے جس کی تصویر ساتھ ہی ہے جو بڑی بیٹی کی شادی 1997 کے موقع پر لی گئی تھی۔ بچوں
کی ماں تو مرحومہ ہو چکیں 25 سال پہلے
لیکن تاریخ اپنے آپ کو کیسے ماں کی مانند اپنے شوہر کو گُھور کر دُہرا رہی ہے جس
کی وجہ سے اور کچھ نہیں تو میری یاد داشت تو مضبوط ہو رہی ہے۔اللہ سلامت رکھے میری
بیٹی اور میرے داماد کو اور انہیں اتفاق و
برداشت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment