Search This Blog

Monday, October 27, 2025

امریکہ کا دوسرا سفر 1975 میں

(ہوائی جہاز سے آسمانی بجلی ٹکرانے کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے)

پی آئی اے  کے عروج کے دوران امریکہ جانے کے تین روٹ تھے، ایک براستہ پیرس، دوسرابراستہ  لندن اور تیسرا براستہ فرینکفرٹ۔پہلی بار براستہ پیرس جانا ہؤا اور اس مرتبہ کا سفر براستہ لندن تھا۔لندن میں بھی ہمارا پی آئی اے کا بوئنگ 747  (جمبو جیٹ) جایا کرتا تھا جہاں دو گھنٹے قیام  کے بعد نیویارک (امریکہ) کا سفر شروع ہوکر سات گھنٹے لگاتار بحیرہ اوقیانوس  (اٹلانٹک اوشن) کے اوپر پرواز کرتا ہؤا  نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر ایک عظیم الشان لینڈنگ کرتا تھا ۔ نیویارک میں اڑتالیس گھنٹے اپنے پی آئی اے کے ہوٹل میک الپائن میں ٹھہرنے کے بعد ٹرانس ورلڈ ائرلائن کی پرواز سے لاس اینجلز ائر پورٹ   سات گھنٹے کی پرواز کے بعد۔ اس مرتبہ میں ایک دوسری آٹھ ممبر ٹیم کے ہمراہ میکڈونلڈ ڈگلس ائیرکرافٹس مینوفیکچرنگ کمپنی میں  تھیوری کلاسز  اٹینڈ کرنے گیا تھا۔میکڈونلڈ ڈگلس ائیرکرافٹس مینوفیکچرنگ کمپنی میں ڈی سی 10 جہاز بنتے ہوئے دیکھنے کے بعد اس دورے کا مقصد آٹو پائلٹ سسٹم کے تمام پُرزوں کے بارے میں جاننا تھا تاکہ ان کی صحیح طرح سے دیکھ بھال کی جاسکے۔ٹریننگ اور ہفتہ وار آٹھ چھٹیوں کی سیر و تفریح کے بعد لاس اینجلز سے واپسی نیویار ک اور نیویارک سے براستہ فرینکفرٹ  کراچی کے  لئے روانہ ہونے کے دوران فرینکفرٹ سے ٹیک آف  کرتے ہی آسمانی بجلی نے جہاز کے اندر ایک دھماکے کے ساتھ ایسی چکا چوند کی کہ میری سیٹ کے پیچھے والی چار سیٹوں پر سوئے ہوئے  میرے ساتھی نے کمبل سے منہ نکال کر پوچھا "یہ کیا ہؤا؟ اتنی روشنی کیسے ہوئی؟" میں ان دنوں تازہ تازہ ہوائی جہاز کے خوف کی بیماری سے صحت یاب ہؤا تھا، میری تو حالت غیر ہوگئی اور ایک بے بسی کے عالم میں اپنے برابر والی سیٹ پر بیٹھے گورے رنگ والے مسافر کو دیکھا جو بجلی کی کڑک سے پہلے کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا، اچانک رسالہ بند کر کے ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے وہ بھی ڈر گیا ہو۔ میں نے ہمت کر کے اس سے پوچھ لیا کہ کیا تمہیں بھی میری طرح ڈر لگتا ہے تو اس نے برجستہ جواب دیا "نہیں ڈر تو نہیں لگتا لیکن مجھے یہ بجلی پسند نہیں ہے" اس کا  اپنی جھینپ مٹانے کا یہ انداز بہت نرالا تھا لیکن مجھے پسند آیا کیونکہ میں نے اس سے یہ سیکھا کہ اپنی بڑی سی بڑی خامی کو ایسے طریقے سے بیان کیا جائے کہ وہ ہماری خامی کم اور  کسی کی شکایت زیادہ محسوس ہو تو نفسیاتی طور پر اس خامی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور یوں رفتہ رفتہ میرا بھی ہوائی جہاز کا خوف کم ہوتا چلا گیا۔  

 

 

 


 

No comments:

Post a Comment

Archive