![]() |
( گوگل سے
لی گئی میری کتاب کی تصویر)
حقیقت یہ ہے کہ انسان جب
کبھی اپنی خامی یا کوتاہی کو تسلیم کرتا ہے تو اس کا ازالہ اور مداوا بھی کر لیتا
ہے، اگر حقیقت تسلیم نہ کرے تو ازالے یا مداوے کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا۔خامی یا اپنے اندر کمی کو پورا ہوتے
دیکھ کر یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ میں نے اپنی غلطی سے سیکھا اور اس سے خاطر خواہ فائدہ ہؤا تو کیوں نہ کسی دیگر انسان کو بھی
بتا دوں تاکہ اس کو بھی اس کا
فائدہ ہو۔نتیجتاً حوصلہ افزائی یا
موٹیویشن کا رویہ جنم لیتا ہے۔سوشل میڈیا
ایک ایسا پلیٹ فارم مل گیا ہے جس سے ہم سب ایک دوسرے کو نصیحتیں کرنے لگے
ہیں، حالانکہ ان تمام نصیحتوں پر مبنی بے شمار کتا بیں لکھی جا چکی ہیں۔ جب سوشل
میڈیا نہیں تھا تو لوگ کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ ہی لیا کرتے تھے جیسے
والد صاحب کے 20 ستمبر 1980 کو اچانک
انتقال پر میرا اعصابی نظام نہایت بُری طرح متاثر ہؤا اور موت کے خوف نے میری
زندگی کو جیسے بریک لگا دی ہو۔دن تو جیسے تیسے گذر جاتا لیکن رات کو ایسے ایسے احمقانہ خیال آتے کہ اللہ کی
پناہ۔یعنی میں یہ سمجھتا کہ میں ہی اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا پالن ہار ہوں
لہٰذا اگر سوتے ہوئے گھر کی چھت گری تو یہ اس کے نیچے دب کر مر جائیں گے چنانچہ
دونوں کو سوتے سوتے اٹھا کر بغل میں دبا کر گھر سے باہر کی جانب بھاگتا تو میری
شیر دل بیوی مجھے طعنہ دیتی کہ میرا کیا ہوگا؟ باہر گلی میں جاکر سوچتا کہ سڑک بیچ میں سے پھٹ گئی تو میں
بچوں سمیت اس میں دھنس جاؤں گا تو واپس گھر کے اندر آجاتا اور یہ بے وقوفانہ
حرکتیں رات کو ہی ہوتیں، دن کو تو ویسے بھی ملازمت پر چلا جاتا۔ ائیر لائن میں
ملازم ہونے کے باعث ہوائی جہاز مرمت کرنا
تو جاری رہا لیکن اس کی ٹریننگ کے لئے
بیرونِ ملک جانا اور سسرال جانے کے لئے
ہوائی جہاز کا سفر ہوائی جہاز کے گر جانے
کے خوف سے تین سال بند رہا۔آخر والدہ کے ماموں نے ایک کتاب پڑھنے کو دی "پریشان ہونا چھوڑئیے، جینا سیکھئیے"
جس سے تھوڑی سی سوچ بدلی ، باقی پی آئی اے کے کیپٹن خالد نقشبندی صاحب سے دَم کرایا
تو جہاز کا خوف ختم ہؤا۔ گویا کتاب کا سہارا بھی ملا اور بہ نفسِ نفیس
ملاقات کر کے دم کرایا کیونکہ نہ تو سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی آن لائن دَم کرانے
کا رواج۔اب میں بھی موٹیویشنل اسپیکر بن گیا اور کتابوں کا لکھاری بھی۔
No comments:
Post a Comment