![]() |
(میری کتاب کی
تصویر میری البم سے)
بارہ سال کی عمر تک کے بچّے اپنے والدین یا اُن بڑوں کے
عقائد کی پیروی کرتے ہیں جو اُن کو پالتے ہیں، اِس کی وجہ محض بچوں کا مشاہدہ نہیں بلکہ ان بچوں کو اپنے جیسا انسان
بنانا بھی والدین اور پالنے والوں کی فطرت
میں شامل ہوتا ہے۔ خالقِ کائنات کا تصور و
نظریہ ، اپنی خود کی زندگی کا مقصد اور دیگر مخلوق کے ساتھ رویّے کے بارے میں سادے
اُصول ہی بنیادی طور پر کسی کا عقیدہ کہلاتا ہے۔ عموماً بارہ سال کی عمر تک تو
والدین یا پالنے والے ذمہ داران اپنا حق و فریضہ سمجھ کر یہ کام سر انجام دیتے ہیں
، بچّہ کے پاس بھی ایک ہی اختیار ہوتا ہے کہ وہ مِن و عن ہر بات تسلیم کرتا چلا
جائے ورنہ یا تو مار پڑے گی یا گھر سے نکال دیا جائے گا۔ بارہ سال سے زائدعمر ہونے
کے بعدبچے کی فہم و فراست میں کچھ تخلیقی عناصر جنم لینا شروع کردیتے ہیں جو
مندرجہ بالا نظریات کے بارے میں سوالات اُٹھانے کے ساتھ اپنی سوچ یا بیرونی عوامل
کے باعث کشمکش و اضطرابی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب کسی بھی بچے کی
شخصیت میں نہایت ہی نمایاں تبدیلی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی منطق کے تحت میں نے
پہلے بارہ سال سے کم عمر کے بچوں کیلئے گھر سے لیکر باہر پورے معاشرے میں ادب و
آداب کےسلیقے اور معاشرے کو بہتر بنانے کیلئے "اچّھے شہری بنیں" کے
عنوان سے کتاب لکھی جس میں بچّے کی اپنی سوچ کا کوئی نمایاں کردار نہیں ہوتا۔پاکستان
کے مایہ ناز پیرا ماؤنٹ پبلشرز کے روحِ رواں جناب اقبال صالح محمد صاحب کی ہمت
افزائی و کاوشوں کے باعث میری اس کتاب کو خاصی پذیرائی ملی اور مزید مل رہی ہے جس
کے باعث میری اپنی شخصیت میں عمر کے ۷۰ ویں سال کو چھوتے ہوئے بھی میں خاصی تبدیلی
محسوس کر رہا ہوں اور اسی مثبت تبدیلی کے تحت تمام زندگی کا نچوڑ اپنے بعد کی نسل
کیلئے اپنا ایک اور پیغام اس موجودہ کتاب کی شکل میں چھوڑ کر ذہنی و قلبی سکون
حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment