![]() |
(اُلّو اور اس کا بچہ انٹرنیٹ پر)
بارہ سال فرماں برداری کے بعد سوچ میں جو تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے اُس میں سب
سے پہلے نافرمانی کا عنصر جنم لیتا ہے جس کی وجہ سزا و جزاء کا تصور ایک اہم اور
پہلا نکتہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی منفی علامت نہیں بلکہ آگے بڑھنے کی ایک جستجو کا اہم ستون ہے۔ اسی عنصر کے مدِّ نظر ایک اہم
سوال پہلے تو اُس کو باغیانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے جس کے تحت وہ ہر
غلط بات کرنے کی جانب مائل ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میری بھی ایک شناخت ہے
اور میں اپنی سوچ کے تحت صحیح یا غلط فیصلہ کرنے کا مجاز ہوں ، میرے والدین یا
میرے بڑے میری اپنی آزادانہ زندگی گزارنے پر قدغنیں لگا کر میری صلا حیتوں کو
محدود کرنے کا اختیاراب نہیں رکھتے اور پھر کون ہے جو میرا احتساب کرے میں
خود اپنے بارے میں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہو رہا ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں
والدین اور متعلقہ بڑوں کو بہت احتیاط سے کام لیتے ہوئے اس بچے کی سوچ کی آزادی
مکمل طور پر سلب کرنے کے بجائے آزادیئ اظہار کی رفتہ رفتہ اجازت دینے کے ساتھ
تبادلہء خیال بھی کرنا چاہئے تاکہ بچہ کی مثبت و منفی سوچ پوری طرح عیاں ہو سکے
لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ نیز بچّے کے متعلقہ بڑوں میں اس کے تعلیمی ادارے
کے افراد بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے اور والدین یا گھر کے
بڑے افراد کے درمیان ایک نظریاتی اختلافِ رائے بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہو جاتا
ہے جو بچے کی سوچ کو مزید تجسس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اب یہاں سے بچے کا اپنا
امتحان شروع ہوتا ہے۔
میری اس کتاب کی ضرورت اس مقام پر پڑتی ہے کیونکہ اب اس کے
پاس کشمکش و اضطرابی کیفیت سے نکلنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ والدین یا اپنے بڑوں
کی نافرمانی کی سزا ، فرمانبرداری یا کوئی
اچھا کام کرنے پر شاباش کو بارہ سال سے زائد عمر کے لوگوں کو جنت کے انعام و دوزخ
کی سزا سے تشبیہ دیکر سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو فوراً ہی خالقِ کائنات کا
تصور اُبھر کر ذہن میں آتا ہے لیکن چھوٹے سے ذہن میں ایک لامحدود شے کیسے سما سکتی
ہے جس کا آج تک کوئی خاکہ بھی نہ بنا سکا البتہ کائنات کی لا محدودیت تو اب راز نہ رہی پس اس کو تخلیق
کرنے والا کسقدر لامحدود ہوگا اس کا بھی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اللہ کو ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں اور
اگر پڑتا ہے تو کس کو؟ میرے خیال سے اللہ کو تو کسی حال میں کوئی فرق نہیں
پڑتا کیونکہ کائنات کے ظہور میں آنے سے
لیکر اس لمحے تک تو ابلیس کے علاوہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی
کر سکے۔
نتیجتاً بہتر یہ ہے
کہ ہم پہلے اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں جو ایک محدود تخلیق ہے۔ ہمیں اپنی
زندگی کا مقصد خود بخود سمجھ میں آنا شروع ہو جائیگا۔
No comments:
Post a Comment