Search This Blog

Tuesday, October 14, 2025

عقل ہے کیا؟

(بطنِ مادر میں بچے کی تصویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہے)

عقل  ۔ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو عقل کہتے ہیں جو جسم کے ایک عضو "دماغ" میں ہوتی جو کہ تمام صلاحیتوں کا منبع ہے۔ عقل کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ  حواس خمسہ کے ذریعے موصول ہونے موجودات و غیر موجودات کی اطلاع  ذہن کو بہم پہنچائے جس کے بعد وہ موجودات یا غیر موجودات کو اپنی صلاحیت  کے مطابق پرکھ سکے۔

عقل تو ہر انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی روح و ضمیر کی مانند انسانی جسم کے ایک عضو میں ڈال دی جاتی ہے جس کو دماغ کہتے ہیں جو ایک کورے کاغذ کی مانند ہوتی ہے  اور یہ محض ایک صلاحیت کا نام ہے جبکہ ذہانت  وقت کے ساتھ انسان کے مشاہدات و تجربات کے مطابق اس کورے کاغذ پر لکھی ہوئ تحریر ہوتی ہے۔ یہ تحریر ہی انسان کی قسمت یا مقدر کہلاتی ہے جو ہر انسان اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں اپنی بنیادی عقل  کو ذہانت کا درجہ دیکر اپنی قسمت  یا مقدر بذاتِ خود لکھتا چلا جاتا ہے ، اسمیں اضافہ تو ہو سکتا ہے لیکن کمی نہیں کیونکہ خالق نے نہایت انصاف پر مبنی تمام انسانوں کو یکساں عقل عطا کی اسی لئے اس کو عقلِ سلیم کہتے ہیں۔ نہ تو کسی کی عقل کو عقلِ کثیر کہہ سکتے ہیں اور نہ عقلِ خفیف۔ مشاہدات و تجربات ہر انسان کو ہوتے ہیں لیکن ہر ذی شعور نہ تو ہر مشاہدہ پر غور کرتا ہے اور نہ ہی ہر تجربہ سے کچھ سیکھتا ہے۔ ہر انسان کے اختیاری اعمال کے مطابق اس کے مشاہدات کی تعداد متعین کی جاتی ہے اور اس کی صلاحیتوں کا شمار اس کے تجربوں سے کچھ حاصل کرنے یا نہ کرنے سے براہِ راست وابستہ ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس میں وقت کی کوئ قید نہیں ، ایک انسان ایک دن میں جو مشاہدات کرتا ہے ضروری نہیں دوسرا بھی بالکل وہی اور اُتنی ہی تعداد میں کرے، اسی طرح ایک انسان کو ایک دن میں جو تجربات ہوتے ہیں ، ضروری نہیں دوسرے کو بھی وہی ہوں اور اسی طرح تجربوں کی تعداد بھی ایک انسان کے  دوسرے انسان کےتجربوں کے  مساوی ہونا لازم نہیں۔ گویا عقلِ سلیم سب کی ایک جیسی ہونے کے باوجود ذہانت کا استعمال اور مشاہدات و تجربات کے شعوری استعمال کی روشنی میں مرتب کی ہوئ شے یعنی  اپنی تقدیر کی سمت متعین کی جاتی ہے جو ہر انسان کے اختیاری اعمال کا ماخذ و منبع ہوتی ہے۔ پس یہ تصور کہ تقدیر پہلے سے لکھ دی گئی، مناسب نہیں اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا زیب نہیں دیتا۔ اپنے اختیاری اعمال کے نتیجہ میں رونما ہونے واقعات کے ہم مکمل طور سے خود ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ یہ تصور کہ  نتائج بہتر ہوں تو ہماری وجہ سے , اور بہتر و مرضی کے مطابق نہ ہوں تو مقدر ، ایک غلط العام سوچ و وطیرہ ہے جو محض ایک طفل تسلی کے مترادف ہے۔

ازل سے ایک حقیقت اظہرِ من الشمس ہے کہ جس کسی انسان نے کائنات کی جس کسی شے کا اپنی عقلِ سلیم کو جس کسی شے کے مشاہدے کے لئے اپنی ذہانت کی سیڑھیاں بار بار استعمال کیں اس نے اس شے کے بارے میں ایک انفرادی تجربہ حاصل کیا جبکہ دوسروں نے ایسا نہ کر کے ایک مختلف نتیجہ نکالا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے ایک عام انسان اور ایک خاص انسان کی تفریق کے احساس نے جنم لیا۔

 


 

No comments:

Post a Comment

Archive