ایک تصویر میں قبل از تاریخ کے دو انسان اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے ہتھیار لئے کسی جانور
کے شکار کے لئے نکلے ہیں ، ایسا آپ کو
لگتا ہوگا، لیکن میں ان کو اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اتنے تگڑے اور ہٹّا کٹّا آدمی
بھوک سے مجبور ہو کر پیٹ کا دوزخ بھرنے نہیں نکل رہے بلکہ خوب اچھی طرح پیٹ بھر
جانے کے بعد قبیلے کے کمزور لوگوں کا رزق بھی ٹھُوس کر دوسرے قبیلے کی عورت کا
شکار کرنے نکلے ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے
پیٹ کی دوزخ کو اتنا بھر لیا ہے جس کے بعد طبیعت عورت کے شکار کی جانب خواہ مخواہ مائل
ہوتی ہے۔آپ سوچیں گے کہ مجھے کیسے ان کی
نیت معلوم ہو گئی؟ تو جناب ! یہ میرے آباؤ اجداد ہیں، آپ بھول جائیں لیکن میں
تاریخ کی حقیقت کو نہ تو جھٹلا سکتا ہوں اور نہ ہی بھول سکتا ہوں، مجھ سے زیادہ
اور کون جانے گا ان کی نیت؟عورت کے ساتھ اپنی جبلّی ضرورت پوری کرنے کے بعدیہ قیلولہ فرمائیں گے۔
اس کے بعداپنی نسل بڑھ جانے کے باعث اپنے قبیلے کی زمین تنگ ہونے کا خیال آتے ہی
اُٹھ کھڑے ہونگے اور قریبی کمزور قبیلے کی تیار شدہ جھونپڑی سوئے ہوئے بچوں کے سمیت
تہس نہس کرکے اپنی موجودہ زمین میں شامل
کرنے کے تمام حسبِ روایت قواعد و ضوابط کی
تکمیل کرکے اپنی راجدھانی میں مزید اضافہ کریں گے
تاکہ اپنی مسقبل کی نسل کو کسی قسم
کی دقت پیش نہ آئے۔کیڑے مکوڑے ، چرند و پرند تو اتنی تعداد میں شکار کر کے ان کو سُکھا کر زمین کے گڑھے نما تجوریوں میں آج کے دور کے چینی و گندم کے گوداموں کی مانند دفنا چکے ہیں تاکہ مسقبل
میں کبھی ان کی نسلوں کو فاقہ کشی کی نوبت درپیش نہ آئے۔چمک دمک والے پتھر اور
خوبصورت سیپیاں خود اپنے تاجوں میں اور
اپنی کنیزوں کے جسم پر اتنی لاد دی ہیں کہ ان کی اس بیش بہا دولت کا رعب و دبدبہ
اپنے قبیلے کے ساتھ دیگر قبائل کو بھی ان
کے سامنے سر نہ اٹھانے دے۔

No comments:
Post a Comment