(مرکزی کردار بنتے وقت ہارپہناتے ہوئے تصویر میری ذاتی البم سے)
1984 کا یہ سفر نہ تو پی
آئی اے کی ٹریننگ کے سلسلے میں تھا اور نہ ہی
بیوی بچوں کے ساتھ تفریح کی غرض سے ، بلکہ ایک ناخوشگور واقع نے میری بیوی
کی سہیلی کی زندگی میں تاریک اندھیرا کر
دیا جس کے تدارک کی خاطر مجھے اس شخص سے ملاقات
کرنے دبئی جانا پڑا جواس افسوسناک واقعے کا مرکزی کردار تھا۔ ہؤا یوں کہ میری بیوی کی سہیلی کو"ایک شخص" شادی کرکے دبئی لے گیا ، شادی خوب دھوم دھام سے
ہوئی اور دبئی میں بھی اس کی والدہ کے ساتھ
نہائیت اچھے حالات میں شروعات ہوئی لیکن ایک سال کے اندر ہی وہ واپس
پاکستان آیا اور بیوی کو اس کے میکے میں چھوڑ کر چلا گیا کہ چند روز میں آکر لے جاؤنگا۔ ایک ماہ بعد طلاق نامہ بذریعہ
رجسٹری بھجوا دیا۔لڑکی کے میکے والوں نے
شرم کے مارے کسی سے ذکر نہ کیا سوائے میری مرحومہ بیوی کے جو ان کے بہت قریب تھی۔
میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ آپ ان کی مدد کریں۔تمام تر کوششوں کے باوجود کسی
قسم کا کوئی کوئی ریسپانس نہ آیا لڑکے کی جانب سے تو میں خود دبئی پہنچ گیا۔لینڈ لائن کا زمانہ تھا،
سینکڑوں روپے کی کالیں پبلک بوتھ سے کر نے
کے باوجود اس سے رابطہ نہ ہوسکا تو اس کی ملازمت والی مشہور کمپنی میں رابطہ کرنے
کے بعد معلوم ہؤا کہ اس "ایک شخص" نے اپنے بارے میں کچھ نہ بتانے کی
ہدایات دے رکھی ہیں جس کے ردِّ عمل کے طور
پر میں نے فوراً پاکستان ایمبیسی سے رابطہ کیا جہاں ایک خاص شخص کی ذمہ داری لگا دی گئی کہ وہ ہر حال
میں میرا ویزا ختم ہونے سے پیشتر
"ایک شخص" کی ملاقات کرائے۔چنانچہ ایسا ہی ہؤا اس "ایک
شخص" کو تیسرے ہی روز ایمبیسی میں پیش کر دیا گیا جہاں مجھ سے ملاقات کرائی گئی
میرے اور اس "ایک شخص" کے علاوہ
دبئی میں پاکستانی ویلفئیر ایسوسی ایشن کے صدر، جنرل سیکریٹری، حنفی مسلک
کے عالمِ دین کو ایک علیحدہ کمرے
میں بٹھادیا گیا جبکہ میز پر قران شریف
اور انٹرنیشنل ٹیلیفون اور دوسری جانب
پاکستان میں فون پر "ایک شخص" کی والدہ اور علاقے کے کونسلر کو بٹھایا گیا۔مقدمے کی کاروائی کی شروعات میری
خواہش کے مطابق کی گئی جس میں میرے تمام
مطالبات پر عملدرآمد کے لئے ایک
ہفتہ کی مہلت دی گئی۔کاروائی صبح دس بجے سے شام سات بجے تک جاری رہی جس میں بِنا
وقفہ دوپہر کا کھانا اور شام کی چائے
پاکستان ایمبیسی کی جانب سے پیش کی گئی۔پاکستان ایمبیسی کے سرکاری لیٹر ہیڈ
پر مقدمے کی کاروائی کے اہم نکات اور فیصلے تحریر
کرنے کے بعدتمام حاضرین سے دستخط کرا لئے گئے جو میں لے کر اگلے روز
ہی ہمراہ لے کر پاکستان آگیا جہاں مقدمہ
ایک خوشگوار انداز میں خاتمہ کو پہنچا۔افسوسناک پہلو یہ تھا کہ طلاق پر شریعت کے مطابق عمل کروایا گیا اور خوشگوار اس صورت میں کہ
جہیز کا سارا سامان لڑکی کو مل گیا۔
یاد رہے کہ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ نکاح کے بعد طے
کرلے کہ وہ لڑکی کے ساتھ نہیں رہ سکتا یا
اس کے برعکس لڑکے کی جگہ لڑکی ہو تو
قران کی "سورۃ طلاق" کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔افسوس قران کے ماننے والوں کے علاوہ تقریباً سب ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment