اسی طرح انسانی تاریخ میں جو بھی ہم نے ارتقائی منازل طے کی ہیں ان میں اگر چہ ترقی یافتہ اقوام نے تو جلد ہی ایک توازن کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے آگاہی کے ساتھ اس پر عملدرآمد میں بھی دیر نہ کی لیکن بیشتر اقوام نے تو آگاہی بانٹنے کے عمل کو ہی تسلیم نہ کیا ، توازن قائم رکھنا تو دور کی بات۔ جیسے ذرائع آمدورفت کے لئے سڑکوں کا جال بچھانے کے راستے میں جو گوٹھ، گاؤں اور کچی آبادیاں آئیں ان کے مکینوں کو جگہ خالی کرنے پر آمادہ کرنے میں کوتا ہی بھی کی اور بیشتر کے لئے تو متبادل رہائشی نظام ہی وضع نہ کیا ۔
![]() |
(دارالخلافہ اسلام آباد کے ایک علاقے کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے جس کو صاف کرنا ہے)
یاد رہے کہ حکمرانی کا نظام ہو یا پرائیویٹ کاروباری نیٹ ورک، دونوں میں اپنے ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے طاقت کا نظام بھی وضع کیا گیا ہوتا ہے جو کمزور عوام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے کہ طاقتور کے ساتھ سمجھوتہ کرنا بھی فطرت کے نظام سے آہنگی پیدا کرنے کا ایک مثبت طریقہ ہے۔سمجھوتے سے مراد ایسا ہی ہے جیسے ہم ذاتی حیثیت میں کسی ملازمت کے لئے مالک کی تمام شرائط من وعن تسلیم کرتے ہیں اور نہائیت فرمانبرداری کے ساتھ ملازمت کرتے ہیں تب ہی تو ہمیں معاوضہ ملتا ہے جس کے ہم طلبگار ہونے کے باعث درخواست لے کر پھر رہے تھے، لہٰذا حکمران یا کسی بھی پرائیویٹ طاقتور ادارے کے سات بھی ہم محض اس کا مقصد پورا نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے کی راہ بھی نکال رہے ہوتے ہیں۔ بعینئہ یہ مثال سڑکوں کا جال بچھانے کے علاوہ دیگر ترقی کی علامات کے لئے بھی لاگو ہوتی ہیں جیسے فیکٹریاں لگانا، رہائشی عمارارت یا کالونیاں بنانا وغیرہ۔اب ایک اور پہلو پر نظر دوڑاتے ہیں جس میں انفرادی اشیائے ضروریات اور اجتماعی ضروریاتِ زندگی زندگی کے حصول کے لئے انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرت کے نظام کو تہس نہس کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے کیونکہ اس کو اپنا مقصد پورا کرنے کا شعور دیگر مخلوقات سے زیادہ عطا ہؤا ہے۔اپنا تن ڈحانپنے کے لئے ہی وہ پودے، پھول اور درختو ں کے پتے توڑا کرتا تھا، پھر اس نے کپاس کی فصل سے کپڑا بنانا سیکھا، اس کے بعد اپنا سر چھپانے کے لئے گھاس پھوس اور لکڑی سے جھونپڑی بنائی، اس کے بعد زمیں سے نکلا ہؤا لوہا اور سیمنٹ کا پتھر استعمال کرنا شروع کیا اور بڑھتے بڑھتےاس کی زندگی کی آسائشوں کے انبار لگ گئے اور ساتھ ہی ان کے حصول کے لئے فطرت کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا بے دریغ استعمال بھی۔
No comments:
Post a Comment