خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہوں کہ خالقِ کائنات کا پہلے آدم اور اس کے بعد حوّا کی تخلیق رائج الوقت لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کے بالکل برعکس عمل تھا۔ شاید اس کا مقصد مرد کی برتری ثابت کرنا ہو لیکن از راہِ تفنّن عرض کروں کہ عورت نے اس کا بدلہ آدم کو شجرِ ممنوعہ کا پھل کھلا کر جنّت سے نکلوا کر لے لیا جس کا کوئی توڑ نہیں اور اگر ہے بھی تو تقریباً ناممکن کیونکہ عورت نے اپنا نمائندہ قیامت تک تمام انسانوں کے پیچھے ایسا لگایا جس سے جان چھڑانا تقریباً ناممکن ہی نظر آتا ہے۔
(اپنی ذاتی البم سے لی گئی تصویر)
افسوس کا پہلو یہ ہے کہ مرد نے اپنی برتری فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے اس کے قطعئی برعکس چلنے کا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ صبح شام بھگتتا ہے۔تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ اقوام میں لیڈیز فرسٹ کا سکّہ چلتا ہے ، جہاں ایسا نہیں وہ پس ماندہ اقوام کہلاتی ہیں کیونکہ لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کو جب خواتین کے حقوق کا رنگ دے دیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جیسے حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کیے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔
مجھے تو روزمرہ کی زندگی میں ایک زیادتی شدت سے متاثر کرتی ہے کہ لڑکی یا عورت چوبیس گھنٹے ، سات دن اور پورا سال کوئی نہ کوئی ذمہ داری نبھا رہی ہوتی ہے جب کہ مرد کوہر جگہ ، ہر وقت، ہر دن کسی نہ کسی بہانہ چھٹی چاہئے ہوتی ہے وہ قومی سطح ہو، صوبائی ہو، غم ہو، خوشی ہو، سرکاری ہو یا پرائیویٹ اور اگر سب چھٹیاں ختم ہو جائیں تو جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی مرد ہی اس کو بنا کر دے دیتے ہیں۔بیٹی نے ذرا چلنا شروع کیا اور اس کو چھوٹے بھائی کی نگرانی پر لگا دیا، ذرا بڑی ہوئی تو اسی بھائی کو پہلے کھانا کھلا کر بعد میں بچا ہؤا اس کو، گھر کی صفائی اور تمام گھر گرستی لڑکی کی ذمہ داری، چار جماعتیں پڑھا کر اسکول ختم اور شادی کے لئے قربانی کی بکری کی نمائش شروع، شادی کے بعد سسرال میں تمام وہ ذمہ داریاں جو بابل کے گھر تھیں بِنا کسی چھٹی کے۔ جذباتی ہو جاتا ہوں یہ سب لکھتے لکھتے، اس لئے زیادہ نہیں لکھ پاتا ورنہ ایک مکمل کتاب اسی موضوع پر لکھ بیٹھوں لیکن پھر بھی اپنی اور آپ کی زندکی پر سکون بنانے کے واسطے اسی نکتہ کی وکالت کرونگا کہ فطرت سے ہم آہنگی میں ہی سکون ہے، اس پر ساری عمر بحث ہو سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment