Search This Blog

Monday, August 5, 2024

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

 

لڑکپن میں جو دوست تھے  ان میں سے کسی کے بارے میں کب اندازہ تھا کہ بڑے ہو کر کون کیا بنے گا البتّیٰ چند کے لچھّن ایسے ضرور نظر آئے کہ ان کے مستقبل کے بارے اندازہ لگایا گیا کہ  فلاں لڑکا بڑا ہو کر ضرور بہت بڑا ڈاکو یا لٹیرا بنے گا کیونکہ جو لڑکپن میں ہی دو بالشہ  پانچ کمانی والا چاقو لئے پھرتا ہو اور بات بات پر ٹک ٹک  ٹک ٹک ٹک کی پانچ آوازوں کے ساتھ کھلتا اتنا بڑا چاقو  اپنی شلوار کے نیفے سے نکال کر ہوا میں لہرائے  وہ اور کیا کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہؤا ، اندازہ غلط نکلا اور وہ  پورے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سامان لانے اور لے جانے والے ٹرک چلاتا ہؤا ملا تو  خوشی سے گلے لگا لیا اور جتنی آؤ بھگت ہو سکی کی، اُس ٹرک ڈرائیور کی۔

(لڑکپن میں بینجو نامی ایک موسیقی کا آلہ لئے پکنک پر آئے دوستوں کے سامنے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں نغمہ سرائی کرتے ہوئے فرسٹ ائیر کا طالبعلم مسرت علی)

 بالکل اس کے برعکس  وہ لڑکا جو ہر کلاس اور ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والا پانچ وقت مسجد جاکر نماز ادا کرنے والا ایک نہائیت ہی غریب گھر کا لڑکا  بڑے ہوکر ملک کے نامور ادارے میں اچھی خاصی ملازمت چھوڑ کر ایک سیاسی پارٹی  میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس پارٹی کی جنگجو    فورس میں شمولیت اختیار کر بیٹھا۔ دن رات سیاسی پارٹی کے نام پر اپنی دہشت  کے باعث اپنے محلّے کے علاوہ دیگر محلوں میں بھی خاصا بدنام ہو چکا تھا کہ ایک روز میڈیا پر اس کی مشہور ِ زمانہ پولیس مقابلہ کی خبر چلتے ہوئے دیکھ کر کچھ عجیب سی کیفیت ضرور ہوئی لیکن ایک نتیجہ ذہن نے ضرور نکالا :-

" اپنی تقدیر ہم خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں ، کامیابی کی صورت میں اپنا کارنامہ گردانتے ہیں جبکہ ناکامی کی صورت میں اللہ کو موردِ الزام اتنی خوبصورتی سے ٹھہراتے ہیں کہ اللہ کو ناگوار بھی نہ گذرے، یہ کہہ کر  کہ "جو اللہ کی مرضی"

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟

 

No comments:

Post a Comment

Archive