Search This Blog

Wednesday, August 7, 2024

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

 

            1959 میں زندگی کا پہلا قتل ہوتے دیکھا تو تھوڑی دیر کے لئے ذہن ماؤف سا ہو گیا  کیونکہ عمر تھی  میری محض 13 سال، جگہ تھی میرا  نویں جماعت  کا کلاس روم، اسکول تھا واہ کینٹ کا، قتل تھا میرے استاد رشید صاحب کا اور قاتل تھا  صادق حسین ۔ صادق  حسین دسویں جماعت کا طالبعلم تھا جو شاہد حسین کا بڑا بھائی تھا۔ شاہدحسین  میرا کلاس فیلو تھا، دونوں سید ذاکر حسین کے بیٹے تھے جن کے پورے خاندان کے میرے خاندان سے برسوں پُرانے مراسم تھے کیونکہ ہم ایک ہی کالونی کے مکین تھے جو واہ سیمنٹ فیکٹری کے ملازمین کی  رہائش گاہ تھی۔

    

( اسکول بلڈنگ کی تصویر انٹرنیٹ سے حاصل کی ، لوگ جہاں بیٹھے  ہیں یہ 1959 میں ہمارا اسمبلی   گراؤنڈ ہؤا کرتا تھا)

قتل کے کافی دن بعد  اخبار کے ذریعے معلومات آئیں  کچھ اس طرح:

"رشید ماسٹر دیکھنے میں تو ایک باریش، خوش لباس  و خوش شکل انسان تھے  لیکن اعمال ان کے نہایت ظالمانہ تھے خواہ اپنی اولاد کے ساتھ ہوں یا طالبعلموں کے ساتھ ان کا رویہ۔ان کو کبھی ہنستے ہوئے کسی نے نہ دیکھا۔ ان کا کوئی فیورٹ طالبعلم بھی نہ تھا بلکہ ہر ایک کو وہ ایک ہی خونخوار نظر سے دیکھتے۔ پانچ وقت مسجد میں نماز ادا کرنے والا یہ  باریش شخص کبھی کسی کے سلام کا جواب بھی نہ دیتا اور خود تو سلام کرنا اس کی شان کے خلاف تھا۔کسی بھی طالبعلم کو چھوٹی سی چھوٹی غلطی کی سزا اُتنی ہی دیتا جتنی  کسی بڑے جرم کی سمجھی جاتی تھی، حالانکہ نویں و دسویں جماعت کے طالبعلموں کو کسی بھی اسکول میں سزا کا تصور بھی نہ تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی ہوا کرتی جسے وہ بات بات پر بچوں کی گردن پر مارا کرتا اور بڑی سزا کے لئے ہتھیلیاں اُلٹی کروا کر انگلیوں کی پُشت  پر (پیچھے کی جانب) اس وقت مارتا رہتا جب تک بچہ زمین پر نہ گر جاتا۔صادق یہ سب کچھ برداشت کرتے کرتے  تھک گیا تو ایک دن اسکول نہ آیا بلکہ جب کلاسوں میں پڑھائی شروع ہوگئی تو نویں جماعت کی کھڑکی سے کود کر اندر آیا اور ہاتھ میں ایک بڑا سا چاقو ہوا میں لہراتے ہوئے رشید ماسٹر کے پیٹ میں  پیوست کردیا جب وہ بلیک بورڈ پر لکھنے کے بعد کلاس کی جانب گھومے ہی تھے۔خون فرش پر گرتے ہی صادق واپس کھڑکی سے بھاگ گیا "

کئی سال بعد پولیس کی ناکام تلاش کو سہارا دیا ایک اس کے دوست نے جو جرمنی سے واپس آیا۔ساجد نے بتایا کہ صادق میرے پاس آکر ٹھہرا ہے اور میرے ریسٹورنٹ میں ویٹر کا کام کر رہا ہے۔

نوٹ: درج بالا  65 سال پُرانے سچے واقعے کا میرے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں، اپنے سامنے یہ سب کچھ ہوتے دیکھا اور مھض یاد داشت کی بنیاد  پر تحریر کیا۔ کمی بیشی یا کوئی غلط بیانی کی معافی کا طلبگار ہوں اور اللہ سے دعا ہے کہ وہ بھی میری خطاؤں کو معاف فرمائے۔ 



No comments:

Post a Comment

Archive