Sunday, September 29, 2024

جرمن زبان میں ڈپلومہ کراچی 1969

 

جون 1969  میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کی جانب سے ایک ٹیسٹ ایکویپمنٹ کی   ترمیم کے بعد اس کو چیک کر کے وصول کرنے کے لئے ہمبرگ جرمنی  جانے سے پہلے  تھوڑی بہت جرمن زبان سیکھنے کے لئے گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی سے 3 ماہ کا ڈپلومہ حاصل کیا لیکن اس کا سرٹیفیکیٹ بوجوہ حاصل نہ کر سکا۔

(گوگل سی لی گئی تصویر)

مجھ سے پہلے جتنے لوگ جرمنی گئے انھوں نے بتایا کہ جرمنی میں لوگوں کو   انگریزی زبان بولنی آتی بھی ہو تو وہ جرمن بولنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں لہٰذا مجھے جوں ہی اشارہ ملا کہ جس ٹیسٹ ایکوئیپمنٹ پہ کام کرتا ہوں وہ ترمیم کے لئے اس کو بنانے والی کمپنی ،جو ہمبرگ جرمنی میں تھی،  کو بھیجا جائیگا اور ترمیم مکمل ہونے پر اس کو چیک کرنے کے لئے مجھے جانا ہوگا تو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے خرچے پر اور اپنے وقت میں جرمن زبان کا کورس کر لوں تاکہ مجھے وہاں جاکر بول چال میں زیادہ پریشانی نہ ہو۔ اس زمانے میں  گوگل جیسی ٹیکنیکل صلاحیتیں موجود نہ ہونے کے باعث اپنی ہنڈا 50 سی سی موٹر سائیکل پر پرانا والا گوئٹے انسٹیٹیوٹ صدر کراچی کے علاقے میں  تلاش کر کے اس میں تین ماہ کا لینگوئج کورس کرنے کے لئے داخلہ لے لیا۔خوش قسمتی سے اس میں ہفتہ والے روز کلاسز ہوتی تھیں اور پی آئی میں چھٹی ہونے کے باعث ایک دن جمعہ کے روز اپنی کیژؤیل چھٹی ملا کر ہفتہ وار دو دن  کلاسز اٹینڈ کرنی شروع کر دیں جہاں نہایت ہی دوستانہ  اور خوشگوار ماحول میں بہت  ہی اچھا محسوس ہؤا اور دل چاہا کہ یہیں پڑھتا رہوں۔ٹیوشن فیس کی ادائیگی میں ائیرلائن کے لئے خصوصی رعائت مل جانے کے باعث مجے اپنی تنخواہ سے فیس کی ادائیگی میں بہت آسانی ہوگئی۔ اسی فیس میں کلاس کے دوران دو مرتبہ ٹی بریک میں اسنیکس مفت ملنے کے باعث دوپہر  کے کھانے کے پیسے بھی بچ جاتے اور مختلف ادروں کے لوگوں کے ساتھ روابط قائم ہوجانے کا الگ فائدہ ہؤا۔ کسی روز جرمن خاتون اور کسی روز پاکستانی مرد پڑھانے آتے ۔ پاکستانی مرد کے پڑھانے کی وجہ سرکاری طور پر یہ بتائی گئی کہ جرمن خاتون کے پڑھانے میں اگر کسی کو کسی چیز کے سمجھنے میں دقت پیش آرہی ہو تو وہ پاکستانی مرد ٹیچر سے بلا تکلف  بیان کر سکتا ہے جس کا فوراً ہی ازالہ کیا جاتا، بس ہمیں  جرمن خاتون کی کلاس میں ان مسئلوں کو نوٹ کر لینا ہوتا جو ہمیں سمجھنے میں دشواری ہوتی تاکہ اگلے روز پاکستای مرد ٹیچر سے باآسانی پوچھ سکیں۔

غرض یہ کہ ہر طرح کی سہولت کے ساتھ ایک تفریحی ماحول میں پڑھنے کا ماحول  تو پاک امریکن کلچرل سینٹر میں انگریزی زبان سیکھتے ہوئے بھی نہ ملا گو کہ اس کا ایک الگ ہی خوشگوار تجربہ رہا۔

 

 



No comments:

Post a Comment