Friday, October 11, 2024

عربی گرامر کا کورس کراچی 2001 تا 2005

 

حقیقت تسلیم کرتے ہوئے مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی عار نہیں کہ بیوی کے انتقال کے بعد  گھر میں رشتہ داروں کے  پُر سوزہجوم سے فرار اختیار کرتے ہوئے دو دن بعد ہی جب میں آفس پہنچا تو بوجوہ دس منٹ دیر  ہو جانے کے باعث مجھ سے جونئیر خاتون میری کرسی پر براجمان تھیں، اخلاقاً کھڑی تو ہو گئیں لیکن حاضری رجسٹربغل میں دبا کر چوروں کی مانند دفتر سے نکل گئیں کیونکہ وہ میرے نام کے آگے  “A” لگا چکی تھیں جو ان کا کام نہ تھا بلکہ میرے سینئر یعنی چیف انجینئر کا کام تھا۔ خیر میرے اندر کا ماحول مزید پُر سوز ہؤا تو حسبِ فطرت خدا زیادہ یاد آنے لگا اور میں  اسی وقت ملازمت سے  استعفیٰ دے کر واپس گھر والے ماحول کو بہتر سمجھ کر روانہ ہؤا تو راستے میں چیف انجینئر (میرے سینئر) نے مجھے روک کر معافی مانگی اور ان کی بے حد خوشامد پر کسی دوسری جگہ تبادلے کے لئے راضی ہوگیا۔

(میرا ذاتی نسخہ)

ایچ آر/آٹومیشن اینڈ ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ میں تبادلہ ہوتے ہی یہاں کے منیجر کے مشورے پر مزید خدا ، اس کی کتاب اور اس کی زبان کو سمجھنے کے لئے ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ فوراً عربی گرامر کے کورس میں داخلہ لے لیں جو کہ ہمارے ایک ساتھی انجینئر نے خود تیار کرکے امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک سینکڑوں لوگوں کی کلاسز بھی لے چکے ہیں اور ہفتہ میں دو دن کراچی میں بھی کلاس لیتے ہیں۔ چنانچہ پہلی فرصت میں ہم دونوں نے داخلہ لیا اور کلاسز اٹینڈ کرنا شروع کردیں ۔کورس کا نام "سُبُل السلام" تھا جس کا مطلب ہے  سلامتی کا راستہ۔ٹوٹل 3 سال 3 ماہ میں اتنی  عربی  زبان اور اس کی گرامر سیکھ لی کہ قران پڑھتے ہوئے ایسا لگتا کہ اردو زبان میں پڑھ رہا ہوں۔ چنانچہ مزید قران کو ساتھ ساتھ سمجھنے کے لئے اس کو پڑھنے کے طریقے سکھانے والے ایک مشہور مترجمِ قران کے پاس ہفتہ میں دو دن جانا شروع کیا اور یوں بِنا ترجمے والے قران کو پڑھنے اور سمجھنے میں قطعاً  کوئی دقّت پیش نہ آئی۔   لہٰذا مولانا مودودی صاحب کی تفہیم القران کی چھہ جلدوں سے لے کر دیگر کئی  قران کی تفاسیر خرید کر ان کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہؤا کہ ہر تفسیر لکھنے والے نے اپنی سمجھ کے مطابق ترجمہ و تفسیر لکھی ہے۔

 

 

 



No comments:

Post a Comment