3۔ کراچی سے ہمبرگ (مغربی جرمنی)
5 جون 1969 صبح سات بجے پی آئی اے انجینئیرنگ ڈیپارٹمنٹ کی انسٹرومنٹ اوورہال شاپ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایم اے حق صاحب نے پی آئی اے کے بوئنگ 707 جہاز میں مجھے سوار کرایا تاکہ میں فرینکفرٹ ائیرپورٹ پہنچ کر لفتھانسا کی فلائٹ لے کر اُسی رات ہمبرگ (مغربی جرمنی) پہنچ سکوں اور اگلی صبح ٹیمپیٹیسٹ کمپنی میں پی آئی اے کے لئے تیار کردہ آٹو پائلٹ کمپیوٹر کا ٹیسٹ ایکوئپمنٹ چیک کرکے وصول کیا جاسکے۔
![]() |
(ہمبرگ جرمنی 1969 کی تصویر میری ذاتی البم سے لی گئی ہے)
ٹیمپیٹیسٹ کمپنی ایک پرائیویٹ مینوفیکچرنگ کمپنی تھی جو
ساری دنیا کی ائیرلائنز کو ٹیسٹ ایکوئپمنٹ
بناکر سپلائی کرتی تھی اس کے مالک نیلسن اینڈ سنز تھے۔نیلسن مجھے سامان سمیت اپنے
گھر یہ کہہ کر لے گئے کہ میرا گھر بڑا ہے،
ایک آدمی آرام سے ایک الگ کمرے میں رہ
سکتا ہے تو میں ہوٹل کا کرایہ کیوں دوں۔ یاد رہے میرے تمام اخراجات ان کی کمپنی نے ہی ادا کرنے تھے جو پی آئی آے کے ساتھ معاہدہ طے تھا۔ان کا گھر ہمبرگ کے ایک نہایت پوش علاقے میں چھوٹی
سی پہاڑی پر تھا جس میں ان کی گھریلو بیوی اور ایک اسکول میں پڑھنے والا بارہ
سالہ بیٹا مائیکل رہائش پذیر تھے۔آپس کی گفتگو کے لئے انگلش ٹو جرمن اور جرمن ٹو
انگلش ڈکشنریاں لے کر بیٹھتے کیونکہ ان کو
بمشکل انگلش اور مجھے بمشکل جرمن آتی تھی جس کی وجہ میرا تازہ تازہ جرمن
زبان کا گوئتھے انسٹیتیوٹ کراچی سے ڈپلومہ تھا۔
بین الاقوامی ہوائی جہاز کا سفراور وہ بھی زندگی میں پہلی
بار، بس نہ ہی پوچھیں اور پوچھے گا کون؟ آجکل
ملک سے باہر جانا آنا ایسا ہے جیسا کبھی ایک ہی شہر میں ایک علاقے سے دوسرے
میں جانا ہؤا کرتا تھا۔ بہر حال میرے لئے تو ایک شاندار تجربہ تھا لیکن ایک دلچسپ
تاریخی تجربہ یہ تھا کہ روزآنہ نیلسن صبح ساڑھے آٹھ بجے مجھے اپنی سِٹرون کار میں لے کر نکلتے تاکہ نو بجے فیکٹری
پہنچ کر کام شروع کیا جاس سکے۔ شام پانچ بجے چھٹی کر کے ساڑھے پانچ بجے گھر واپس آ
جایا کرتے ۔ ان کا بیٹا مائیکل روزآنہ مجھ
سے پوچھتا کہ آپ کتنے بجے آئیں گے اور میرا جواب ہوتا "ساڑھے پانچ"۔ ایک
روز نیلسن پانچ بجے چھٹی کے بعد دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ مال کارشٹاڈ لے گئے جہاں تین گھنٹے لگ گئے ۔ نیلسن
نے اپنی بیوی کو فون پر بتا دیا تھا لیکن بیوی نے اپنے بیٹے مائیکل کو نہ بتایا۔
ہم جب گھر پہنچے تو مائیکل اوپر اپنے بیڈروم سے نیچے اتر کر نہ آیا۔ مرے بہت
استفسار پر دونوں ماں باپ نے بتایا کہ مائیکل مجھ سے ناراض ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں نے صبح ساڑھے پانچ واپس
آنے کا کہہ کر وعدہ خلافی کی ہے اس لئے میں ان سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ بقیہ بارہ
روز میں مائیکل مجھ سے نہ ملا اور حد تو یہ ہے کہ ماں باپ کی صفائیوں کے باوجود اس
نے مجھے معاف نہ کیا اور پاکستان واپس رونگی کے وقت بھی مجھے خدا حافظ نہ کہا۔اس
واقعہ کا مجھے جب بھی خیال آتا ہے تو نہائت شرمندگی ہوتی ہے حالانکہ ہمیشہ میرے
ساتھیوں، دوستوں اور رشتہ داروں نے یہ کہہ کر مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کوئی
ایسی بڑی بات نہیں لیکن میرے اوپر اس کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں نے
کبھی کسی سے کیا ہؤا وعدہ نہیں توڑا بِنا کسی معقول وجہ اور وضاحت کے۔
No comments:
Post a Comment