Search This Blog

Friday, April 11, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

4۔ کراچی سے ڈھاکہ (سابق مشرقی پاکستان)

پاکستان نیشنل  اسکاؤٹ جمبوری دسمبر   1970  میں ڈھاکہ میں منعقد ہوا جو اس وقت مشرقی پاکستان کا حصہ تھا۔ یہ جمبوری پاکستان میں منعقد ہونے والی 5ویں قومی جمبوری تھی۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان میں اسکاؤٹنگ پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کا حصہ تھی۔

(صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان کی تصویر گوگل سے لی گئی ہے)

1970 میں جناب حنیف موتی والا کو سندھ بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کا سیکریٹری مقرر کیا گیا جبکہ میں  1965 کی انڈیا پاکستان جنگ کے دوران پی آئی اے روورز اسکاؤٹ منتخب ہو چکا تھا اور حج فلائٹس  کے مسافروں کی ہر طرح کی مدد و دیگر خدمات پانچ سال سے بخوبی انجام دے رہا تھا۔چنانچہ  پاکستان نیشنل  اسکاؤٹ جمبوری دسمبر   1970  کے لئے بآسانی چُن لیا گیا جس میں شرکت کے لئے کُل دس روورز اسکاؤٹس پی آئی اے سے تھے اور باقی پاکستان کے چاروں صوبوں کی اسکاؤٹس ایسوسی ایشنز کی جانب سے تھے۔13 دسمبر 1970 کی صبح سات بجے ڈھاکہ (سابق مشرقی پاکستان) کی فلائٹ پر ہم دس روورز اسکاؤٹس سوار ہوئے اور  کولمبو ائرپورٹ پر ایک گھنٹہ ٹھہرنے  کے بعد  مقامی وقت کے مطابق دوپہر بارہ بجے ڈھاکہ ائرپورٹ پر اتر کرمحمد پور روڈ پر واقع  پی آئی اے کے گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے۔ یہاں سےٹھیک پینسٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر" موچک"  کے جنگل میں پاکستان نیشنل جمبوری کے کیمپ میں  پی آئی اے  کے نام کا ٹینٹ لگانے اگلے روز ہی چلے گئے جہاں تین روزہ قیام کے دوران متعلقہ تقریبات ہوئیں ، آخری روز مہمانِ خصوصی جنرل آغا محمد یحیٰ خان صدرِ پاکستان نے شرکت کی جن کا سُرمئی رنگ کا سوٹ  نہایت قریب سے دیکھ کر دل خوش ہوگیا۔ رنگ تو میرا پسندیدہ تھا ہی لیکن اس کی سلائی اتنی زبردست تھی کہ حسرت ہی رہی کبھی میرے  سوٹ کی بھی ایسی سلائی ہو۔چوتھے روز ٹرین کے ذریعے ڈھاکہ ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہو کر پوری رات کے سفر کے بعد چٹاگانگ پہنچے  تو میرا گلہ بالکل بند ہوچکا تھا کیونکہ دسمبر کا مہینہ  اور بلا کی سردی، ایک کمبل، دوسرا کمبل ، کنٹوپ، دستانے وغیرہ سب کچھ تو تھا لیکن ٹھنڈ نے اپنا کام کر دکھایا۔

دلچسپ و حیران کن تجربہ اس سفر کے نتیجے میں یہ ہؤا کہ چٹاگانگ ریلوے اسٹیشن پر آواز بالکل نہ نکل پانے کے باعث میں اشاروں سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہمارے ساتھ نصیرالدین راجپوت پاکستانی بیڈمنٹن ٹیم کے کپتان بھی تھے، انھوں نے چٹاگانگ ریلوے اسٹیشن سے برانڈی خریدی اور دو چمچے گلاس میں ڈال کر اسمیں چائے والے سے نیم گرم پانی لے کر مجھے پینے کے لئے یہ کہہ کر دیا کہ اس کے بارے میں  علماء دین کا فتویٰ موجود ہے کہ بیماری کی صورت میں دوا کے طور پر پینا حرام نہیں ہے، باقی آٹھ ساتھی بھی اصرار کرنے لگے تو میں نے پانچ منٹ میں پورا گلاس ختم کر لیا جس کے فوراً بعد ہی میری آواز نکلنے لگی اور میرے سمیت سب حیران رہ گئے کہ اتنی جلدی تو کسی دوائی نے آج تک  اثر نہ کیا تھا۔چٹاگانگ میں ریلوے کالونی میں رہائش پذیر اپنے ساتھی زبیر احمد کے ماموں کے ہاں مہمان بنے جنہوں نے اصفہانی چائے کے باغات کی سیر کرائی جہاں وہ منیجر کی حیثیت سے ملازم تھے۔تین دن بعد ہم لوگ کاکسس بازار کے سمندری ساحل پر سیر کر رہے تھے جہاں ہم اپنے پی آئی اے کے فوکر جہاز کے ذریعے   پہنچے تھے۔تین دن بعد واپس سارا سفر کراچی تک کا پی آئی اے کے ذریعے طے کیا، بہت ہی لطف آیا۔

 


 

No comments:

Post a Comment

Archive