Search This Blog

Saturday, April 12, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

5۔ کراچی سے لندن براستہ دبئی -  دمشق

1973 میں  پی آئی اے لندن فلائٹ پر کوئی سیٹ نہ ملنے پر انٹرلائن  پالیسی کے تحت 10٪ ادئیگی کے ذریعے سیرین عرب ائرلائن کا ٹکٹ  لے کر کیراویل جہاز میں سوار ہوکر دبئی اور دمشق رکتے ہوئے دس گھنٹے بعد لندن پہنچا۔پیکاڈلی سرکس کے ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پکڑی اور سات گھنٹے  حسین نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے مانچسٹر، جہاں میری پھوپھی زاد بہن میری راہ تک رہی تھیں کیونکہ پیکاڈلی کے ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ سے اطلاع دے چکاتھاجب ان کے گھر کا  راستہ بھی سمجھ لیا ۔

(ماموں زاد بھائی اور پھوپی زاد بہن کے بچوں کے ہمراہ لی گئ تصویر میری ذاتی البم سے)

تقریباً تین ہفتے قیام کے دوران دلچسپ  و انوکھا واقعہ جو اس زمانے کا زندگی کا پہلا تجربہ تھا : بہن کے بیٹے اور بیٹی کی دوسر ے کمرے سے بحث و تکرار کی آواز آنے پر دیکھا   کسی حساب کے سوال پر اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش تھی، بہن نے ایمرجنسی میں ٹی وی آن کرنے اور   اس سے جواب حاصل کرنے کی اجازت دی تو پانچ منٹ میں فیصلہ ہوگیا  کس کا جواب صحیح تھا۔ریڈیوالیکٹرونکس میں ڈپلومہ ہولڈر اور پی آئی اے کی انسٹرومنٹ اوورہال شاپ میں آٹھ سال سے کام کرنے کے ناطے  میں نے اپنے اوپر فرض سمجھ لیا کہ ایسا کیسے ہوتا ہے کہ یہاں اسکول کا ہوم ورک ٹی وی کے ذریعے بآسانی ہو پاتا   ہے۔ہم نے  اپنے بچوں کو اس کی لَت ابھی تک نہیں ڈالی، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے ترقی یافتہ ممالک کے بچوں سے زیادہ ذہین ہیں۔

اسی  سفر کے  دوران ایک اور حیران کن معلوماتی واقعہ پیش آیا جب میرے ماموں زاد بھائی سنٹرل لندن سے آکر مانچسٹر سے بس کے ذریعے اپنے  اپارٹمنٹ لے گئے جہاں وہ اپنے  ساتھیوں کے ہمراہ   بحری جہاز کے چیف انجینئیر بننے کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔رات کو ان کے ساتھ سڑک پر چہل قدمی کے دوران ایک بہت بڑے کوڑے دان میں پرانا ٹی وی، ٹیپ ریکارڈر، ریڈیو گرام وغیرہ پڑے دیکھا، پوچھنے پر  معلوم ہؤا کہ ذرا سی خرابی پر یہاں یہ اشیاء پھینک دی جاتی ہیں کیونکہ مرمت میں لاگت زیادہ آتی ہے۔میں شرم کے مارے  وہ نہ کہہ سکا جو کہنا چاہتا تھا لیکن گھر پہنچ کر ان کے دوستوں کے سامنے ذکر ہؤا تو ایک پاکستانی اور ایک انڈین ساتھی فوراً اٹھے اور تھوڑی دیر میں ایک  ٹیپ ریکارڈر اٹھا لائے۔مجھ سے اس کو ٹھیک کرنے کی درخواست کی تو ان کے نیک ارادوں کے باعث محض پندرہ منٹ کا کام نکلا۔ٹیپ ریکارڈر ٹھیک ہو گیا تو اس قدر خوشی منائی گئی کہ بغیر پیسوں کے اپنے امتحان کی تیاری کرنے کے لئے چیپٹر ریکارڈنگ کی سہولت میسر ہوگئی۔ میں تو دنگ ہی رہ گیا کہ یہ کونسی دنیا  ہے جو زندگی میں پہلی بار تجربہ ہو رہا ہے۔

 


 

No comments:

Post a Comment

Archive