Search This Blog

Monday, April 21, 2025

ایک سفر ایک تجربہ

11۔ کراچی سے اَورلِی ائیرپورٹ پیرس

سفر تو یہ پی آئی اے کے جہاز ائربس اے 310 سے اپریل 1980 میں براہِ راست پیرس تک کا ہی تھا  اور ٹریننگ بھی ائر پورٹ پر ہی تھی جس کے لئے ہلٹن ہوٹل ائیر پورٹ میں ہی قیام کیا لیکن اپنی بیوقوفی اور اپنے ایک دوست کے بھتیجے کی غیر ضروری مہربانی کے باعث سفر در سفر  طول پکڑتا گیا لیکن ہوا میں نہیں بلکہ زمین پر ہی  کبھی  زمین کے اوپر چلنے والی ٹرین سے، کبھی زمین کے نیچے چلنے والی ٹرین اور کبھی بس کے ذریعے۔

(اورلی ائیرپورٹ بلڈنگ  اور پوممپیڈو میوزیم کی تصویریں میری ذاتی البم سے لی گئی ہیں)

روزآنہ  مارننگ واک پر تصویر میں ساتھ کھڑے جونئیر آفیسر  مَلِک محمد شفیق (چکوال سے) کے ساتھ  موٹر وے کے کنارے کنارے جایا کرتا ۔ موٹر وے  پر اپنی اپنی لین میں چلتی گاڑیوں کو شفیق نے پہلی مرتبہ دیکھا اور برجستہ کہا کہ "سر! صراطِ مستقیم پر تو یہ لوگ چل رہے ہیں"، اس کا یہ نایاب جملہ میں آج تک نہ بھولا۔ شروع میں میں اپنے جونیئر آفیسر انجینئرنگ کے ساتھ ائیرپورٹ ہلٹن ہوٹل میں ٹھہرا لیکن ایک ہفتے کے بعد مجھے اپنے دوست کے بھتیجے کے  ساتھ بہت دور مضافاتی علاقے میں  جانا پڑا جو مجھے زبردستی اپنی رہائش گاہ پر لے گیا۔ میرے دوست کے اس اقدام سے مجھے ایک سطحی ٹرین (1 گھنٹہ کا سفر)  کرنا پڑا، ایک زیر زمین ، پھر دوسری زیر زمین ٹرینوں کے ساتھ (1 گھنٹے کا سفر) اور SFENA تربیتی مقام پر Orly ہوائی اڈے تک 30 منٹ کی بس سواری۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجھے اپنی پہلی سطحی ٹرین کو 06:22 پر پکڑنے کے لیے ایک ڈیجیٹل گھڑی خریدنی پڑی   کیونکہ دوست کے بھتیجے نے ٹرین کا وقت ساڑھے چھ بتایا تھا جیسے ہم پاکستانی  وقت بتانے کی عادی ہوتے ہیں لیکن ٹرین کا وقت چھہ بج کر بائیس منٹ تھا اور وہ ٹھیک  وقت پر نکل گئی ، اگلی ٹرین کے لئے مجھے آدھا گھنٹہ  انتظار کرنا پڑا اور میں کلاس میں دیر سے پہنچا۔ یہ اس سفر کا نہایت تکلیف دہ کڑوا سچ تھا اور میرے سفر کا یادگار تلخ تجربہ۔

  

No comments:

Post a Comment

Archive