20۔ کراچی سے لندن براستہ
دبئی
1994 میں بیوی اور
چاروں بچوں کے لئے سیر تفریح کے لئے
انگلینڈ کا انتخاب ہؤا لیکن شاپنگ بھی ایک لازمی امر ہوتا ہے جب اہلیہ اور بیٹیاں ساتھ ہوں ، لہٰذا دبئی کو بھی اس
سفر میں شامل کرلیا گیا۔ جاتے ہوئے انگلینڈ میں رہنے والوں کے لئے اور واپسی پر پاکستان
میں رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے تحائف ایک لازمی امر تھا۔
![]() |
(میں اور اہلیہ ماموں و مومانی کے ہمراہ ساؤتھ ہمپٹن پورٹ پر) |
(اندر کے کٹے ہوئے صفحات والی کتاب گوگل سے)
دبئی ڈیوٹی فری شاپس سے رشتہ داروں اور دوستوں کے لئے چھوٹے موٹے تحفے لیتے ہوئے لندن پہنچے تو ائر پورٹ پر میرے ماموں لینے آئے ہوئے تھے۔ لیکن وہ شخص نظر نہ آیا جس کے بھائی نے بارہ کتابیں دی تھیں پڑھ کر گریجوئیشن کا امتحان پاس کرنے کے لئے۔جی ہاں یہ تھااس سفر کا سب سے تکلیف دہ تجربہ جو سفر شروع ہونے سے پہلے ہی کراچی میں رات میرے گھر سے شروع ہو چکا تھا۔میرے ایک پی آئی اے کے ساتھی نے میرے گھر پر بارہ کتابیں یہ کہہ کر لادیں کہ اگر آپ لے جاسکیں تو ٹھیک ہے ورنہ چھوڑ جائیں میرا چھوٹا بھائی لندن میں ایک امتحان کی تیاری کر رہا ہے اس نے منگائی ہیں۔ دیگر رشتہ دار و دوست وغیرہ بھی رات دیر تک ملنے اور اپنا اپنا سامان دینے آتے رہے۔ سب سے دیر میں رات بارہ بجے میرے ایک خاص دوست آئے جنھوں نے کچھ دینا تو نہ تھا صرف خدا حافظ ہی کہنا تھا لیکن ایک اطلاع بھی ساتھ میں دے دی کہ آجکل کتابوں میں اندر کے صفحات کاٹ کر چرس وغیرہ بھر کر اسمگلنگ ہوتی ہے تو کسی قسم کی کسی کی بھی کوئی کتاب نہ لے جائیں۔وہ تو چلے گئے اور کتابیں دینے والا بھی لیکن مجھے اس کا گھر کا پتہ نہیں معلوم تھا اور نہ ہی اس کے ہاں لینڈ لائن فون تھا (موبائل فون ابھی عام نہ ہؤا تھا)۔صبح چھ بجے ائرپورٹ پہنچنا تھا لہٰذا میں نے بارہ کی بارہ کتابوں کو کھول کھول کر چیک کیا کہ کہیں کوئی غلط حرکت نہ کی ہو ، تین گھنٹے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہوگئے لیکن لند ن ائر پورٹ پر کتابیں وصول کرنے والے کا موجود نہ ہونا بہت پریشان کُن تھا۔ ماموں کی گاڑی میں ڈال کر چار گھنٹے کے فاصلے پر ساؤتھ ہیمپٹن پہنچ گئے۔ ایک ہفتہ انتظار کیا کہ کوئی رابطہ کرے لیکن ایسا نہ ہؤا۔میں اور میرے بیوی بچے ماموں کی فیملی کے ساتھ خوب گھومے پھرے اور پھر انھوں نے ہمیں سَلاؤ کے علاقے میں ایک دوست کے گھر اتار دیا۔ اس کے بعد ساؤتھ ہال وغیرہ سے شاپنگ کرتے ہوئے لیڈز اور ومبلڈن وغیرہ۔واپسی پر دبئی ڈیوٹی فری شاپس سے کراچی والوں کے لئے تحفے۔ کتابیں جو ساتھ گئیں تھیں وہ ماموں کے ہاں ایک ماہ پڑی رہیں ، اللہ جانے موصوف نے کیسے رابطہ کیا اور امتحان ختم ہو جانے کے بعد کتابیں وصول کر لیں۔آئندہ کے لئے میں نے تو کان پکڑے کہ کسی کا کوئی سامان لے کر نہ جاؤں گا۔
No comments:
Post a Comment