![]() |
(سید عترت علی جعفری
القادری والد سید مسرت علی)
جب انسان اپنے دماغ، اپنے ہاتھ پاؤں اور اپنے
بنائے ہوئے تحقیق
کرنے والے سامان کے ذریعےہزارہا سال پرانے انسانی جسم کے حصوں کے ذریعے اس کا شجرہ
مع اس شخصیت کی تمام اچھائیاں اور برائیاں معلوم کر سکتا ہے تو انسان
کی تخلیق کرنے والا خالق اپنے دماغ، اپنے ذرائع
اور اپنی قدرت کے ذریعے ہمارے تمام کرتوت ایک روز کیوں نہیں سامنے لاسکتا
جسے روزِ محشر کہتے ہیں۔اسی اصول کے تحت آج میں نے ایک ایسا شجرہ نسب دریافت کیا
جس کے ذریعے مجھے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔یہ شجرہ
میرے والد صاحب مرحوم کے پاس تھا جو میں نے ان کی زندگی میں اس وقت دیکھا تھا جب میری عمر چودہ سال تھی۔ 20 ستمبر
1980 کو والد صاحب کا انتقال ہو گیا تو ان کی چھوڑی ہوئی چند کتابیں جو گھر کی ایک الماری میں رکھی تھیں، میرے ہاتھ لگ گئیں۔ایک کتاب کے اندر
سے شجرہ نکلا تو میں نے احتیاطً اس کی فووٹو کاپی کرالی۔1997 میں اپنی بیٹی کے لئے
پہلا کمپیوٹر لیا تو وقت ملنے پر میں نے بھی استعمال کرنا شروع کردیا۔ نہایت ہی سست رفتار انٹرنیٹ پر ای میل بھیجنے اور
وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہؤا تو والد صاحب مرحوم کے دوست جو پشاور یونیورسٹی کے
وائس چانسلر تھے ، ان کے بیٹے نے جو میرا دوست تھا، شجرہ بذریعہ ای میل بھیجنے کا
کہا، جو میں نے بھیج دیا۔چند دن بعد میری
اہلیہ مرحومہ نے گھر میں بنائی ہوئی میری
ورکشاپ کا کچھ سامان مع میری کتابوں کی
پیٹی کے دیگر پرانے فرنیچر و گھر کے سامان کے ساتھ کباڑئیے کو اس وقت بیچ دیا جب
میں اپنے دفتر گیا ہؤا تھا، یہ سب اس لئے کیا کیونکہ اس سے پہلے والا کرائے کا
گھر آٹھ کمروں پر مشتمل تھا جب کہ موجودہ
گھر میں محض تین کمرے تھے۔ جب میں کام سے واپس آکر ناراض ہؤا تو یہ کہہ کر میری
ہنسی نکال دی "ساماں سو برس کا ہے، پل کی خبر نہیں"۔
آج میں اپنے بارہویں
کمپیوٹر کی غیر اہم دستاویزات، تصاویر اور وڈیوز سے صفائی کر رہا تھا تو 2011 کی
ایک میل میں یہ تاریخی شجرہ ملا جس کے
بعد کلاؤڈ اسٹوریج سروسز پر پکا یقین ہوگیا اور اپنے تمام
پاس ورڈز بھی کلاؤڈ اسٹوریج میں جمع کرا دئے تاکہ "ساماں سو برس کا ہے، پل کی
خبر نہیں" کے بعد میری بیٹی اپنا شجرہ نسب معلوم کر سکے۔
No comments:
Post a Comment