یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

بدھ، 6 اگست، 2014

Ruling Elite must listen carefully.آدمی کو چاہئے وقت سے ڈر کر رہے۔

Clocks are devices followed us during the long history of modern human civilization, from the times when sun represented the only way we can reliably track time to the modern day when atom clocks and widespread expansion of digital processing enable us to always be connected with clocks that never show wrong time.
Sundials are the first time measuring devices known to man. Created originally in Babylon over 6 thousand years ago, and developed into more functional state in Ancient Egypt, sundials became extremely useful analogue clock device that remained in continual use for many thousands of years after, even managing to survive until today. But this is not my topic, my topic is "TIME" and the clock is an instrument to measure the time. Unfortunately clock cannot measure the Past, Present and Future. As a matter of fact all the three time periods are not of priority importance at that very moment because these are relative terms. The present is a moment in time observable as intermediate between past and future. We are so focussed on this that we forget to recall our Past whether it was good enough of or was bad to be forgettable, My verdict is that any person, community or nation if forgets its past, can never any lesson good or bad. The future which has to come yet is actually dependant on a temporary intermediate duration of present but mostly its foundations are lying in the past which actually determine the structure of the future. Whatever the philosophy may be one should always be scared, worried as well as careful with Present as it is extremely unpredictable and ever changing moment to moment as this beautiful poetry says:

پیر، 4 اگست، 2014

14th.August 2014

Pervez Musharraf forgot in interview with Mubashir Luqman in last night's interview on ARY News that East Pakistan was separated in General Yahya's regime and 90,000 army personnels surrendered in the leadership of General Tikka Khan. It does not mean that our Armed Forces are coward but bravery is useless without sincerity which was compromised by "NRO"
Written on 30th.May2014


I have gone one step ahead of the repeated statement of D.G ISI (Ret.) and prepared this map of New Pakistan whose foundation will be laid on the forthcoming Independence Day. General Ret. Hameed Gul says that after 9/11, Iraq was the Excuse, Afghanistan was the Target and Pakistan will be the Destination. Islamic History tells us that we are the most fertile community called Ummah to help the enemy making their job easy with a very negligible commission in return. Any one who has a little interest in history knows very well the traitors during the Life of Mohammad PBUH, later during Caliphate era, Mir Jafar and Mir Sadiq and so many others difficult to encompass in just one article.

Just after Independence in 1947, selfish Muslim Businessmen started selling the shares of Pakistan who were very keen to get Independence from Tata and Birla, the giant tycoons of sub-continent. Mohammad Ali Jinnah was himself a business man but despite high level of intellect was sincere and honest human, trapped by 22 families of hawks. Gradually these families multiplied and now they are the real owner of this country. All our top notches contributed in shares' selling, the largest share was East Pakistan. Not even a single Jinnah is available today and final business bell is going to ring on 14th. August. No one can stop the International market running as all of us are share holders. Business is Business and a Cup of Tea is a Cup of Tea.  

اتوار، 3 اگست، 2014

Civilization starts at Home

موجودہ دور کی نسل خصوصاً چھوٹے بچّے یا تو جانتے نہیں یا بھولتے جا رہے ہیں کہ اخلاقیات کیا چیز ہے۔ تعلیم حاصل کر لینے کے باوجود بھی اُن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ گھر کے اندر یا گھر سے باہر کس قسم کا رویّہ اختیار کرنا ہے۔ بسا اوقات وہ جانتے بھی ہیں لیکن پھر بھی جان بوجھ کر مثبت و اچھے رویّے اپنانے کے بجائے منفی رویّہ اختیار کرنے میں اپنی بڑائ اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ اِس مرض کے اسباب پر ہم بحث نہیں کریں گے بلکہ یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ تعلیم یافتہ انسان اچھے اخلاقی رویّہ کے بغیر اَن پڑھ جاہل ہی کہلائے گا۔ لہٰذا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیّت نہایت ضروری ہے جو بنیادی طور پہ گھر سے شروع ہوتی ہے۔ تعلیم تو مسلسل جاری رہنے کا عمل ہے لیکن مثبت تربیّت کی ایک مرتبہ مضبوط بنیاد رکھ دی جائے اور ہم یہ تحیّہ کر لیں کہ اِس مثبت رویّہ سے ہم زندگی میں کسی بھی لمحے روگردانی نہیں کریں گے تو ہماری شخصیّت میں ایک ایسی تبدیلی آتی ہے کہ نہ تو ہمیں اِس کے اعادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی زندگی میں کبھی کوئ ہم پر انگلی اُّٹھا سکتا ہے۔
بہت کم گھروں میں معا شر تی تربیّت پہ توجّہ دی جاتی ہے اور بہت کم اسکولوں میں اِس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نہ صرف ہماری زندگی کو معیاری بنانے بلکہ ایک مثالی معاشرہ اور ایک بہتر ُملک بنانے میں یہ کس قدر اہم ہے۔ میں نے اسی اہمیّت کے پیشِ نظر ایسے موضوعات  پر مبنی ایک کتاب لکھی ہے جن کے ذریعے ہم گھر میں اپنے بچّوں کی زندگی کے ہر زاویے سے اچھی تربیّت اور مثبت رویّے کی ایسی مضبوط بنیاد رکھ سکیں جس پر عمل پیرا ہو کر آنے والی نسلیں ایک تہذیب یافتہ معاشرہ فراہم کر سکیں اور ہمارا ملک بھی کم از کم تہذیب یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ 
معاشرتی تربیّت کے نتیجہ میں جو مثبت عنصر نمایاں ہوتا ہے وہی کسی قوم کا چہرہ ہوتا ہے اور کسی بھی قوم کی شناخت میں سب سے پہلے نمبر کا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اِس تربیّت کے نتیجہ میں جو شعور اُجاگر ہوتا ہے اُس کو انگریزی میں  Social Sense یا  Civic Sense بھی کہتے ہیں۔ اِس کے بغیر کسی بھی قوم کو جاہل یا پَس ماندہ سمجھا جاتا ہے خواہ اُس میں تعلیم یافتہ افراد کا تناسب زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ مثلاً کوئ قوم ایٹم بم اور میزائل تو بنا لے لیکن ٹریفک سگنل کی سُرخ بتّی کو خاطر میں نہ لائے یا ٹرین کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے سب کو دھکّے دیتا ہؤا کھڑکی تک جا پہنچے۔
مندرجہ بالا باتیں کوئ نئی نہیں اور نہ ہی میں پہلا شخص ہوں جو یہ موضوع لیکر بیٹھا ہوں لیکن اِس اعادہ کے پیچھے میری ایک تمنّا ہے اور وہ یہ کہ ۶۸ سال گذرنے  کے بعد بھی مندرجہ بالا شعور کے آثار میرے ملک میں کہیں نظر نہیں آتے تو کوئ بات نہیں، اب تک کی نسلوں نے جو شرمندگی اُٹھا لی سُو اُٹھا لی لیکن میرے اِس اعادہ کو آج اگر مُلک کے تمام پرائمری اسکولوں کے نصاب کا لازمی حصّہ بنا دیا جائے تو شاید آئندہ آنے والی نسلیں بین الاقوامی دنیا میں شرمندگی کی زندگی نہ گزاریں۔
اصل میں ہمارا مرکزی نکتہ (Focus) اخلاقیات ہے نہ کہ قانون پہ عملدرآمد ، جو کہ ریاست اور حکومت کی ذمّہ داری ہے، لہٰذا  ہم قانون کی خلاف ورزیوں اور اُن کے نتائج کے بجائے زندگی کے ہر قدم پر اخلاقیات کے ہماری شخصیت پر اثرات کے بارے میں بات کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک بہتر ، تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
قانون کی پاسداری سزا کے خوف کے بجائے اخلاقی ذمّہ داری سمجھ کر کی جائے تو ہم بہتر انسان کہلانے کے مستحق ہونگے۔ اگر ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوں اور قانون بھی اپنی ذمّہ داری پوری نہ کرے تو نتیجہ یہی ہوگا جو آج ہمارے سامنے ہے۔  اس کتاب میں کسی مذہب ، ثقافت یا علاقائ روایات کو نہ تو موضوع بنایا گیا ہے اور نہ ہی تقابلی جائزہ لیا گیا ہے بلکہ اشرف المخلوقات جنابِ حضرتِ انسان اور حیوان کے درمیان اُس تفریق کا اعادہ کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر معاشرہ اور اقوام کی پہچان ہوتی ہے۔ آج ہم جِس ذہنی پَستی اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اِس کا میری نظر میں محض ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے بچّوں کو اُس َروِش پر چلنے سے پہلے تہذیب یافتہ اقوام کی صَف  میں کھڑا ہونے کے قابل بنا نے کی کوشش کریں۔                                                                                                                       

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...