یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

منگل، 27 جون، 2023

خالقِ کائنات کی مسقل مزاجی



کائنات میں کسی شے کا مشاہدہ کریں ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ خالق میں کس قدر مستقل مزاجی ہے، جو اس نے سوچ لیا کر دیا ، کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کی ہر مخلوق میں بھی یہی خصوصیت بدرجئہ اُتم پائی جاتی ہے مع سوائے انسان کے۔ انسان کا بچہ ماں کے پیٹ سے لے کر آخر دم تک وقت و حالات ، ارد گرد کے ماحول ، کچھ نہیں تو اپنی مرضی  کے حساب سے ہی گرگٹ کی مانند رنگ بدلتا رہتا ہےجس کے نتائج بھی اسی انداز میں برآمد ہوتے ہیں۔اپنے ہی کرتوت کے باعث اپنی پسند کے بر خلاف نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور منفی نتائج        کا ذمہ دار ہر حال میں دوسرے لوگوں ،    ماحول و حالات کو گردانتا ہے، جب کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھے تو ذمہ داری خالقِ کائنات پر منتقل کرکے "اللہ بہتر کریگا" کہہ کر اطمینان سے بیٹھ جاتا ہے۔ حکمرانوں کے ہاں پیدا ہوئے بچوں کی پرورش کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ان میں مسقل مزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کی سوچ کا  انداز خالقِ کائنات سے اس حد تک تو ملتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا اور سب سے طاقتور سمجھتے ہیں لیکن انصاف کا پیمانہ خالق کے پیمانے سے قطعئی مختلف ہوتا ہے جس میں ان کے ترازو کا وہی پلڑا بھاری ہوتا ہے جو ان کی پسند کا ہو۔گویا ان کے اعمال میں مستقل مزاجی کے بجائے خود پسندی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس عام انسان بھی کچھ اسی قسم کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے  لیکن کمزور ہونے کے باوجود حکمرانی کے حصول کے لئے ایک سیڑھی بھی چڑھنے کی کوشش نہیں کرتا پھر بھی اٹھتے بیٹھتے اور ہر قدم پر حکمرانوں     کو صلٰواتیں سناتا رہتا ہے جس کے باعث اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا وقت بھی اسکے پاس نہیں بچتا۔ پس ماندہ اقوام کے انسانوں میں ننانوے فی صد اپنی کوئی بھی ذمہ داری پوری نہ کرتے ہوئے بھی خود پسندی کا اس قدر شکار ہوتے ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کیسے حکمراں بن جائیں۔ انسانوں کےعلاوہ دیگر تمام مخلوقات فطرت کے نظام سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہوئے چین و سکون کی زندگی گزارتی ہیں سوائے اپنے سے زیادہ طاقتور کے خوف کے باعث اپنی جان بچانی کی تدبیروں کےمطابق اپنا بندو بست کرنے کے۔

چونکہ انسان کی سوچ میں مستقل مزاجی معدوم ہوتی ہے  جو فطرت کے نظام سے قطعئی غیر آہنگ ہوتی ہے  لہٰذا تمام زندگی بے اطمینانی کی کیفیت میں بسر ہوتی ہے۔کھوکھلی و بے بنیاد خواہشات جو خوابوں سے کسی درجے کم نہیں ہوتیں ، ہر مرتبہ آنکھ کھلنے پر چکنا چور ہونے والے خوابوں پر ماتم کرنے میں جاگنے والا بچا کچھا وقت بھی خاک میں ملا دیتی ہیں۔اس قسم کے انسانوں میں کوئی سائنسی ایجاد کرنے کی صلاحیت بھی معدوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی خوابوں سے بھرپور پُر کشش چھٹی حِس پر اس قدر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں کہ ایسے  کوئی سائینس دان بھی  اپنی لیبارٹری میں ایک مدلل فارمولے کی بنیاد پر نتائج کا انتظار نہیں کرتا۔

ترقی پزیر اقوام میں شامل ہونے کے لئے ہمیں اپنی سوچ کے بدلنے سے شروعات کرنا ہوگی۔ جب تک قوم کا ہر فرد اپنے مزاج میں مستقل مزاجی قائم نہیں کر لیتا ، اس پر عمل پیرا نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک ترقی یافتہ ہونے کا سوچنا ایک شیخ چِلّی کی سوچ سے کچھ کم نہیں۔تقریریں و نعرے ہوا میں بھاپ کی مانند تحلیل ہونے کے بعد دیگچی میں پانی ختم ہو جانے پر جل جانے کی کیفیت سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ 

پیر، 26 جون، 2023

سفید جھوٹ کیا ہے؟

 

سورج کی روشنی میں ہر شے صاف نظر  آتی ہےجب کہ رات کی تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا۔سورج کی سفیدی حق ہے اور رات کی سیاہی جھوٹ۔سفید جھوٹ کی اختراع ان عناصر کی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے لباس کی سیاہی چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ وہ جھوٹے ہیں، شُومِئیِ تقدیر دیکھئے کہ ان کے دَم سے  ہمارا محکمئہ انصاف ہے جو ہمارے معاشرے میں قائم جاری و ساری نظام کا ایک نہائیت ہی اہم ستون ہے۔پیشگی معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیجئیے کہ سفید رنگ حق ہے جب کہ سیاہ رنگ ابلیس کی نمائندگی کرتا ہے۔ سفید رنگ میں سائنس کے مطابق زندگی کے تمام رنگ ہوتے ہیں جن میں سات بنیادی رنگ ہیں جن سے قوسِ قزح بنتی ہے۔گویا  ہماری زندگی کا دارومدار حق پر ہو تو یہ بے حد رنگین ہوتی ہے، ذرا سی سیاہی ہمارا منہ کالا کر دیتی ہے ۔ عُرفِ عام میں مشہور ہے کہ کالے عمل کی سیاہی کے باعث ہم معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے لیکن جب ضمیر کی بار بار وارننگ کی پرواہ نہ کرتے        ہوئے اور اپنے سیاہ کارنامے جاری رکھتے ہوئے ہم  اس کو سیاہ کر لیتے ہیں تو ایسی صورت میں منہ کالا ہونے کی کون پرواہ کرتا ہے۔اس پہ ستم یہ کہ ہمارا معاشرہ سیاہ ضمیر و کالے کرتوتوں کے مالک کو  ایک اعلیٰ مقام بخشتا ہے ، اس کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور رفتہ رفتہ سورج کی سفیدی کو کالے بادلوں کی مانند ڈھانپ لیتی ہے جس کے بعد قومیں ترقی نہیں کیا کرتیں اوران کا زوال عروج سے پہلے ہی شروع  ہو چکا ہوتا ہے۔

ذہنی وجسمانی دونوں تندرستیا ں  درکار ہوتی ہیں ایک اچھے انسان کو ایک اچھی زندگی گذارنے کے لئے ۔ عمر کے کسی حصے میں خدانخواستہ انسان کی صحت خراب ہوجائے تو اس کے قریبی اس کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، اچھے انسان کی جسمانی صحت کی خرابی  کے دوران اپنے خونی رشتے ہی کام آتے ہیں  جب کہ سیاہی مائل انسانوں کی خدمت کے لئے ابلیس کی ایک پوری فوج اپنے سیاہ کرتوت کی خفت مٹانے کے لئے قطار میں کھڑی ہوتی ہے ۔ مریض  اپنا کالا دھن اس فوج پر نہیں لُٹاتا بلکہ لالچ و ہَوِس اس کیفیت میں بھی اس کو دو اور دو پانچ کرنے پر مجبور کرتی ہے ، یہ حقیقت جاننے کے باوجود کہ اس دنیا سے وہ خالی ہاتھ ہی جائیگا وہ انجانے میں اپنی سیاہ وردی والے سپاہیؤں کی مدد کر رہا ہوتا ہے جو رواجی قوانین کے تحت اس کے ورثاء میں اس کی وصیت کے برعکس   مال و دولت تقسیم کرنے کی تگ و دو میں ایک بھاری حصہ اپنا بھی نکال لیتے ہیں اور جھوٹ کے کالے بادلوں تلے حق کی ایک کرن بھی پہنچنے نہیں دیتے۔حد تو یہ ہے کہ جہنم کی آگ کے خوف کے بیان کرنے والے بھی چند کاغذ کے ٹکڑوں کی تصدیق کرکے ابلیس کے نہام نہاد شریف پیادے بھی اپنا  روایتی حق حاصل کرکے معاشرے میں مزید بلند ممبر پر بیٹھنے کے مستحق ہو جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا تمام باتیں ہمیں نظر آتی ہیں لیکن درج شدہ لائنوں کے بیچ کے الفاظ ہم پڑھ نہیں پاتے۔ جہنم کی آگ سے پہلے جب ہماری زندگی جہنم بنتی ہے تو ہم غور نہیں کرتے کہ ہمارے اوپر حق کی کرن کیوں فلیش مار رہی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ حق نے ہمیں اپنی ٹیم کی جانب پکارا ہے اور موقع دیا ہے کہ ہم اپنا منہ بھی کالا نہ ہونے دیں اور اپنے ضمیر کو بھی مردہ ہونے سے بچائیں۔پس جس نے اس کرن سے مارا ہؤا فلیش ساحلِ سمندر پر نصب شدہ کنٹرول ٹاور کا اشارہ سمجھ کر اپنی کشتی کا رخ موڑلیا ،  وہ فلاح پاگیا، اپنی زندگی اور آخرت دونوں ہی کو جہنم سے بچا لیا اس نے۔     

 


 

جمعہ، 23 جون، 2023

ذرائع آمدورفت کی روانی میں خلل

 

ایک نہایت اہم نکتے کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا کہ خالقِ کائنات کی ہر تخلیق کا ظہور  پیدائش سے لے کر  خاتمے تک اینالاگ سسٹم کے تحت ہے نہ کہ ڈیجیٹل سسٹم کے۔ سورج، چاند اور ستارے  تمام کے تمام ایک سوئچ سے منظرِ عام پر نہیں آجاتے بلکہ رفتہ رفتہ اپنی مقرر کردہ رفتار و وقت سے سفر کرتے ہیں جو اینالاگ سسٹم کا واضح ثبوت ہے۔ پہاڑ، جنگل، صحرا، سمندرسب     ہی اینالاگ طریقے پر بڑھتے اور گھٹتے ہیں ۔ سیلاب ہوں یا زلزلے ایک سوئچ سے آن آف نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ خالق کی ہدایات کے مطابق اپنی کاروائی شروع کرکے مقرر کردہ وقت اور جگہ پر اختتام کو پہنچتے ہیں۔جدید ترین ٹیکنالوجی  آرٹیفیشل انٹیلیجنس ہمارے ذہن کی اختراع ہے خالقِ کائنات کے ہاں ایسا کوئی تصور موجود نہیں ، اس کا ہر کام اس مخلوق کو بہ نفسِ نفیس کرنا پڑتا ہے جس کو وہ تفویض کیا گیا ہو خواہ وہ فرشتہ ہو یا ایک جرثومہ۔کسی مخلوق کی پرچھائیں بھی  اپنے آپ حرکت نہیں کر سکتی۔

یہ صحیح ہے کہ انسان اپنی قدرت سے کچھ نہیں کر سکتا ، تمام تر سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات  خالقِ کائنات کی عطا کردہ ذہانت کا نتیجہ ہیں جن کا استعمال بھی ہم مخلوقات کی منشا پر چھوڑ دیا گیا۔ کوئی پرندہ اپنا گھونسلہ  پہاڑ و جنگلات چھوڑ کر سمندر میں بنانے چلا جائے تو انجام کا وہ خود ذمہ دار ہوگا اور کوئی انسان  ٹیکنالوجی کے ذریعے دھوکہ دہی و بے ایمانی کرے تو اس کا خمیازہ بھی خود اس کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجبس کے ذریعے  ذرائع آمدورفت کی روانی میں خلل یا سماجی نظام میں ناپسندیدہ فعل رونما ہونے کی صورت میں ہم خود اس کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔  

ہمارا ہر وہ عمل جس  کی وجہ سے  خالقِ کائنات کی زمین  یا اس کی ماحولیات کو گزند پہنچے ، بالکل ایسا ہی ہے جیسے خالق کی تمام مخلوق کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہو۔زمین ، ماحولیات یا  خالق کی مخلوقات کے ساتھ وہ خود چاہے جو مرضی سلوک کرے،اس کی اپنی تخلیق ہیں ، وہ قادرِ مطلق ہے اور جانتا ہے اس کے  ہر عمل کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ہمیں نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی اس کا علم کہ انجام کس قدر خوفناک ہوسکتا ہے۔ فہم وفراست سے ہمیں نواز کر خود مختار کر دیا  اور انجام سے آگاہ کردیا ، اب ہمارے ہاتھ میں مستقبل کا ہر لمحہ ہے۔ ہم اپنی زندگی بھر کے اعمال کا کیلنڈر بنا کر نفع  سمیٹیں یا نقصانات کی خندقیں کھود ڈالیں۔ہمارا ہر عمل ایک آفاقی پیمانہ پر جانچا جائے تو معلوم پڑے گا کہ ہم کتنا نفع کما پائے اور کتنے سودے گھاٹے کے کئے۔وہ آفاقی پیمانہ ایک ہی ہے کہ ہم اپنے حواسِ خمسہ سے حاصل کیا ہؤا ڈیٹا اپنے دماغ کے اندر پروسیس کر کے اپنے تمام جسمانی اعضاء کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ آج کل کی ڈیجیٹل زبان میں   "1"   کا مطلب ہے فطرت کے نظام سے ہم آہنگی اور "0"  کا مطلب ہے غیر آہنگی۔

بہت مشکل کام ہے کہ دل چاہ رہا ہو بغاوتی رویہ اختیار کریں ، خالقِ کائنات کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کسی طریقے سے اپنی ہی جان دے دیں۔لیکن ایسے مقام پر  سر تسلیم خم کر کے یہ کہیں  "جو تیری مرضی"، یقین کیجئے بے حد سکون ملے گا۔ ذرا ہم اپنے گریبان میں دیکھیں تو حقیقت عیاں ہو جائیگی کہ جب تک ہماری خواہشات پوری ہوتی چلی جائیں اور کامیابیاں نصیب ہوتی رہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا  کہ نظام کون چلا رہا ہے، جوں ہی کسی قسم کی ناکامی ہوئی یا کوئی خواہش رد ہوئی  تو فوراً  دعا کے لئے ہاتھ اٹھ جاتے ہیں  اور گڑ گڑانا شروع کر دیتے ہیں، یعنی بے بس ہوتے ہی خالقِ کائنات نظر آ جاتا ہے۔کاش ہم بے بسی سے پیشتر  "جو تیری مرضی" کا وِرد کرتے رہیں تو کامیابی پر غرور ہو گا نہ ہی ناکامی میں بغاوتی رویہ جنم لے گا۔ 

 

بدھ، 21 جون، 2023

تقدیر و تدبیر

 

ہمارا دماغ کسی کائنات سے کم نہیں، کائنات کو مسخر کرنا اور اپنے دماغ کو کنٹرول کرنا ایک برابر ہے۔ فطرت کا نظام جو کائنات میں قائم ہے بعینئیہ ہمارے دماغ کا نظام بھی  کام کرتا ہے۔اپنے دماغ کو کنٹرول میں کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی عمر بڑھنے سے روک دیں، کسی بیماری کا حملہ ہمارے جسم پر ہو ہی نہیں سکتا جب تک ہم نہ چاہیں۔ ہماری تمام خواہشات ہماری مرضی کی ہوں، ہم خواب اپنی مرضی کے دیکھیں، حواسِ خمسہ کے نتائج ہماری منشا کے مطابق ہونے لگیں ، خواب ہماری پسند کے نظر آنے لگیں اور خیالی پلاؤ آج کی اس سوچ کے مطابق تیار ہونے لگے تو ذرا سوچیں  کہ ہمارے جسم کا تمام نظام درہم برہم نہیں ہو جائیگا۔ ہر انسان اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گذارنا چاہے گا تو پورا معاشرہ ہی ایک انارکی کا شکار نہیں ہو جائیگا۔نتائج کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتےکیونکہ ہماری منتشر الخیالی  ہمیں کوئی ایک فیصلہ کرنے ہی نہیں دے گی ۔خالقِ کائنات خوب جانتا ہے اسی لئے ماں کے پیٹ کے اندر ہمارے جسم میں روح تو ڈالتا ہے لیکن کسی قسم کا اختیار ہمیں نہیں دیتا سوائے سوچنے اور غور کرنے کے۔ اپنی سوچ   اور ادراک کے مطابق ہمیں فیصلے کرنے کا اختیار ضرور دے دیا تاکہ اس کا نظام آگے کی جانب چل پائے۔

گویا کائنات کا نظام وہ چلا رہا ہے اور اس نظام میں ہمیں عطا کی ہوئی نعمتیں ہمارے مصرف کے لئے ہیں۔ اس کے ننانوے نام ہیں جو اس کی صفات ہیں، وہ بڑا رحیم و کریم ہے تو قادر و قہار بھی۔ هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚاَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ اَلْمُؤمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِ یْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ؕسُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْن0۔ الصبور: بڑا صابر کہ بندوں کی بڑی سے بڑی نافرمانیاں دیکھتا ہے اور فوراً عذاب بھیج کر تہس نہس نہیں کرتا یعنی ہوش سنبھالنے سے لے کر موت واقع ہونے تک اپنے شعور کے مطابق اپنا نظام چلانے کا ہمیں اختیار ہے  جس کے تحت تمام فیصلے کرنے کا بھی ہمیں پورا پورا حق دے دیا لیکن ساتھ ہی ان فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری بھی ہمیں ہی لینا ہوتی ہے۔ نتیجہ اچھا ہو تو اس کو ہم اپنی خوش قسمتی کہتے ہیں ، نتیجہ اچھا نہ ہو تو اللہ کی مرضی کہہ کراور سمجھ کر ہی صبر آتا ہے کیونکہ اپنی فہم کے مطابق فیصلہ کرنے کا شکوہ کس سے کریں ؟ جو ہو گیا سو ہو گیا ، آگے کی خیر مانگ کر ہی آگے برھا جائے تو بہتر ہوتا ہے ورنہ زندگی میں جمود آ جاتا ہے۔

فطرت کے نظام سے ہم آہنگی اختیار کرکے زندگی میں سکھ اور چین نصیب ہوتا ہے تو اپنے دماغ کے نظام سے بھی ہم آہنگی کی جاسکتی ہےجس کے لئے تقدیر و تدبیر کا فلسفہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ابھی  صرف یہ سمجھ لیں کہ ہمیں پہلے کسی شے کا مستحق بننا چاہئیے پھر اس شے کو حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کریں۔ لیکن اگر مکمل طور پر مستحق ہونے کے باوجود ہماری خواہش پوری نہ ہو پائے تو صبر و شکر کا سہارا لینا چاہئے، کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں ہمارے پاس کیونکہ ہمیں اپنے دماغی نظام پر مکمل اختیار حاصل ہی نہیں ۔ کائناتی نظام اور دماغی نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے ایک باریک سی لکیر کا فرق سمجھنا نہایت اہم ہے۔کائناتی نظام و دماغی نظام سے غیر آہنگ ہونے کا مطلب ایک ہی ہے اور دونوں میں مکمل مشابہت ہے مع سوا جزوی اختیار کے جو خالق نے ہمیں اپنے دماغ پر سوچنے کے عمل سے نواز کر دے دیا جس سے مستفید ہو کر ہم اپنی تقدیر کے مالک کہلاتے ہیں جبکہ کائنات کے کسی نظام میں ہم قطعئی طور پر دخل اندازی نہیں کر سکتے۔

 

منگل، 20 جون، 2023

حواسِ خمسہ، خواب اور خیالی پلاؤ

 

ہم اپنے جسم پر اختیار نہیں رکھتے اور سوچتے ہیں کہ پورے کائناتی نظام پر ہمارا اختیار ہو جائے۔ اپنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی ہلانے کے لئے خیال آئے یا ضرورت محسوس ہو تو جب تک ہمارے دماغ سے سگنل کمانڈ نہیں آئے ہم انگلی ہلا نہیں سکتے۔ ہمارے دماغ  کے اندر خیالات پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہماری آنکھیں جو دیکھتی ہیں، ہمارے کان جو سنتے ہیں ، ہمارا جسم جو محسوس کرتا ہے، ہماری ناک جو سونگھتی ہے اور زبان جو ذائقہ بتاتی ہے اس کے حساب سے کیلکولیشن (حساب کتاب) کرکے دماغ سے الیکٹرک کرنٹ کی رفتار سے سگنل نکلتے ہیں جو ہمارے جسم کے ہر عضو کی حرکت کا باعث بنتے ہیں۔ضروری نہیں کہ یہ پانچوں اِنپُٹس (اندر جانے والے سگنل )صحیح ہوں ۔ ان میں سے ہر سگنل کے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ بھی ہمارے دماغ کے اندر ہی ہوتا ہے۔ اگر ایک سگنل بھی غلط نکلے تو   کیلکولیشن کے بعدپانچوں کا اجتماعی فیصلہ اس فیصلے سے قطعئی مختلف ہوگا جو پانچوں حواس کے صحیح ہونے پر ہوگا۔   ہم نے کسی سے سنا کہ فلانے درخت کا پھل نہایت ہی مزیدار ہے ، ہم جاکر اس پھل کو دیکھیں گے، ہاتھ سے چھوکر دیکھیں گے کہ کچا ہے یا پک گیا، توڑنے اور کاٹنے کے بعد چکھیں گے ، پھر سُنی ہوئی بات کی تصدیق یا تردید کر پائیں گے۔کسی انسان کے بارے میں سنیں کہ فلاں شخص بہت اچھا ہے تو  اس سے ملنے کا موقع تلاش کرکےملاقات کے بعد تھوڑا بہت پرکھ کر ہی تصدیق یا  تردید کر پائیں گے ۔

خیالی پلاؤ پکانے  کا بیان کردہ حواسِ خمسہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ عمل ہے جس کی تمام اِنپُٹس (اندر آنے والی معلومات) ہمارے دماغ کے اندر ہی جنم لیتی ہیں، وہ کسی شے کے بارے میں ہوسکتی ہیں اور کسی شخصیت  یا جگہ کے بارے میں  بھی۔لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ جن عناصر کو ملا کر ہم خیالی پلاؤ بناتے ہیں وہ سب ہم نے دیکھے، سنے یا محسوس کئے ہوتے ہیں۔ان تمام عناصر کو ہمارے دماغ کا وہ باورچی خانہ  یا لیبارٹری جو عام حالات میں کبھی استعمال میں نہیں رہتا ، حرکت میں آتا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ بقیہ دماغ بالکل فارغ ہو۔نیز اس خالی لیبارٹری یا باورچی خانہ میں ہم جو چاہیں تیار کر لیں خواہ اس کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملانے پڑیں، اسی لئے اس کی تیار شدہ شے کو خیالی پلاؤ کہا جاتا ہے۔

حواسِ خمسہ  اورخیالی پلاؤ  دونوں کے لئے جمع کئے ہوئے اجزائے ترکیبی کو ملا کر خواب کہا جاتا ہے ۔ جاگتے ہوئے  خواب دیکھنا خیالی پلاؤ پکانا کہلاتا ہے جبکہ سوتے ہوئے اس کیفیت کے  دیکھنے کو ہم خواب کہتے ہیں۔حواسِ خمسہ کو استعمال کرنے کے بعد ہمارا کوئی بھی عمل آزاد نہیں ہوتا بلکہ ایسے عمل کا انحصار حواس اور دماغ کی مشورہ جاتی ہدایات پر ہوتا ہے۔خیالی پلاؤ پکانے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی یہ عمل مادر پِدر آزاد ہوتا ہے۔ جب کہ خواب کی سب سے پہلی شرط ہے نیند، جس کی تین کیفیات ہوتی ہیں۔کچّی نیند جو آنکھ بند کرتے ہی جسم کو بے جان کر دیتی ہے، پکی  نیند میں جسم اس حد تک بے جان ہوتا ہے  کہ قوتِ سماعت تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو جاتی ہے اور گہری نیند میں تمام حواسِ خمسہ معدوم ہو جاتے ہیں۔ نیند کی تینوں کیفیات  کے خواب بھی مختلف انداز کے ہوتے ہیں جن کی تعبیریں بھی مختلف ہوتی ہیں جن کو آگے چل کر زیرِ بحث لایا جائیگا۔فی الحال خواب کے بارے میں اتنا کہنا ہے کہ عموماًاس میں جاگنے کی صورت میں دیکھے جانےوالے  مناظر ،دیکھی بھالی جگہیں،  دیکھی و جاننے والی شخصیات اور دیگر اشیائے استعمال  کا مجموعہ ہؤا کرتا ہے جب کہ  کبھی نہ دیکھی ہوئی جگہیں، ان دیکھی شخصیات اور کبھی استعمال میں نہ لائی جانے والی اشیاء بھی ہو سکتی ہیں۔ گویا خواب حدود و قیود کے پابند بھی ہو سکتے ہیں اور مادر پِدر آزاد بھی۔درج بالا  کسی کیفیت میں ہمیں اپنے جسمانی اعضاء پر اختیار نہیں تو فطرت کے نظام سے ہم آہنگی کیسے؟    


 

پیر، 19 جون، 2023

خالقِ کائنات سے براہِ راست

 

 

خالقِ کائنات سے ہم ہر وقت بات چیت کرسکتے ہیں بشرطیکہ ہمارے پاس وہ ڈیوائس ہو جس کے ذریعےاس سے رابطہ ہو سکتا ہے۔ ویسے تو ایک نمبر پر عمل  (ڈائل نہیں )                کرنے سے بھی وہ کسی نہ کسی حد تک رابطہ میں رہتا ہے ۔ 2 فرض فجر کے وقت، 4فرض ظہر ، 4فرض عصر ، 3فرض مغرب اور 4 فرض عشاء کے باقاعدہ خشو و خضو کے ساتھ پڑھنے کے بعد دل کی آواز کو وہ ضرور سن لیتا ہے یعنی 43442           اس کا نمبر ہے جو ان لوگوں کو دیا گیا جو اسلام کے نام پر رجسٹرڈ ہیں اسی طرح دیگر رجسٹرڈ شدہ گروپس کے الگ الگ نمبر ہیں جن کے ذریعے  وہ لوگ اس سے رابطے میں رہتے ہیں۔گویا کسی نے اسلام نام کی ڈیوائس لے لی، کسی نےہندو اور کسی نے عیسائی وغیرہ وغیرہ۔ کسی قسم کی ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہر انسان پیدائشی طور پر اس سے مزیّن ہوتا ہےجو روح کے ساتھ منسلک ہوتی ہے یا اسی پیکیج میں ہوتی ہے جس میں ضمیر ہوتا ہے۔ہمیں کبھی کبھار تنہائی میں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں کسی نے آواز دی یا کوئی سامنے دروازے یا کھڑکی کے پیچھے سے گذر کر گیا ہے ، یہ دونوں اس حقیقت کی علامات ہیں کہ ہماری آڈیو اور وڈیو دونوں ہی ہر وقت ٹیون اِن ہونے کی کوشش میں رہتی ہیں جس کے بارے میں مَیں نے بذاتِ خود اپنے دوستوں یا جاننے والوں سے دریافت کیا جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں ، انھوں نے بالکل یہی بیان کیا کہ ہاں ہمیں بھی آوازیں اور پرچھائیاں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں لیکن طبعئی طور پر نہ تو ان کی بات سمجھ آئی اور نہ ہی ہم ان کو چھوکر محسوس کر پائے۔یہ کیونکر ممکن نہیں جب کہ بلا شک و شبہ ہمارے طبعئی جسم کا وجود بولتا چالتا اور چلتا پھرتا نظر آتاہے جس کی بنیادی وجہ ایک غیر مرئی عنصر ہے جس کو روح کہتے ہیں جو ہمارے اندر پھونکے جانے کے بعد ہی ہمارے جسم میں حرکت شروع ہوتی ہے ، جس روز یہ روح ہمارے جسم سے پرواز کر جاتی ہے ، ہمارا جسم بے جان رہ جاتا ہے۔ ہمارے ہر عمل پر نظر رکھنے اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے والا عنصر بھی غیر مرئی ہے جس کو ضمیر کہتے ہیں۔ ہم ان دو غیر مرئی نصب شدہ عناصر کے مالک ہوتے ہوئے غیر مرئی آوازیں کیوں نہیں سن سکتے اور غیر مرئی پرچھائیاں کیوں نہیں دیکھ سکتے۔

 میں نے تو سنا اور پڑھا    بھی ہے ایسے لوگوں کے بارے میں جو غیر مرئی عناصر سے باقاعدہ گفتگو کر لیتے ہیں اور خود بھی مرئی حالت میں تبدیل ہوکر پلک جھپکتے ہی ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو ہزاروں میل پر واقع ہوتا ہے۔کئی سال پہلے میں نے ایک خبر انٹرنیٹ پر پڑھی تھی کہ کیلیفورنیا کی ایک نہائیت ضعیف خاتون کی  کسی بیماری کی تفتیش کے لئے جب اسکا دماغ کھول کر دماغی لہروں کو چیک کرنے والے آلے کی ایک لِیڈ (پروب) دماغ کے مختلف حصوں پر لگانے کےساتھ گفتگو کے  دوران  اچانک خاتون نے کہا "روکو، روکو ، یہیں روکو بہت اچھا لگ رہا ہے"   سرجن نے پوچھا کیا اچھا لگ رہا ہے تو اس خاتون نے بتایا  کہ وہ نو سال کی ہے اور اپنی ایک دوست کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہے جس میں نیلے رنگ کے پردے لٹک رہے ہیں۔ سرجن نے لِیڈ ہٹائی تو خاتون نے کہا "اب میں آپریشن تھیٹر میں لیٹی ہوں۔ یاد رہے کہ دماغ کے جتنے آپریشن ہوتے ہیں ان میں مریض کو بے ہوش نہیں کیا جاتا کیونکہ دماغ مکمل صحیح طور سے کام کر رہا ہوگا تب ہی تو معلوم ہوگا کہ اس پر آپریشن یا تفتیش کے دوران جو کام کیا جارہا ہے اس میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں  جو بے ہوشی کے عالم میں معلوم نہیں ہو پاتیں۔لہٰذا اللہ کے برگزیدہ انسان جیتے جاگتے، ہوش حواس میں اس مقام اور اس دور میں پہنچ سکتے ہیں جس میں وہ چاہیں۔


اتوار، 18 جون، 2023

میں کیا کروں؟

 



جب انسان سوچ لے کہ اسے زندگی میں آگے چل کر کیا کرنا ہے تو اس کے حساب سے اپنا لائحہ عمل تیار کرتا ہے ۔ ڈاکٹر بننے کے لئے میڈیکل کالج میں داخلہ  لیتا ہے اور ڈاکٹری کے شعبہ سے متعلق کتا بیں خرید کر انہیں پڑھتا ہے ، اگر انجینئیر بننا ہے تو انجینئیرنگ کالج میں داخلہ لیتا ہے، انجینئیرنگ سے متعلق کتا بیں خرید کر ان کو پڑھتا ہے اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنی منزل تلاش کرنے کی خاطر ان سے متعلق  لوازمات کا بندوبست کرتا ہے ۔ اپنی منزل پہ نظر اور عملِ پیہم ہی اس کو کامیابی سے   خوابوں کی تعبیر دکھا سکتا ہے ۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے نہ تو خواب ہوتے ہیں اور نہ ہی انھوں نے کوئی منزل سوچ کر رکھی ہوتی ہے بس ہوا کے دوش پر اڑتے چلے جاتے ہیں اور جہاں وہ ان کو پٹخ دے اسی پہ قناعت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کا انجام کبھی بہت  شاندار بھی ہو جایا کرتا ہےجس کی وجہ تو معلوم نہیں ہو پاتی لیکن شاید فطرت سے مکمل ہم آہنگی ان کے روشن مستقبل کا سبب بن جاتی ہے لیکن  انسان ایک لکھاری بن کر یہ سوچے کہ وہ حکومت وقت سے ٹکر لے اور قلم کی طاقت سے حکومت کا تختہ الٹ دے تو یہ ایک جذباتی نعرہ تو ہو سکتا ہے ، حقیقت سے اس کا قطعئی کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے قلم کی طاقت سےانقلاب برپا نہیں کیا جب تک اس کے ساتھ مختلف اشکال میں دیگر طاقتیں شامل نہ ہوں کیانکہ بہر حال کسی مسلمہ طاقت سے ٹکرانے کے لئے اس سے زیادہ طاقت ہو گی تو مقابلہ ہو پائے گا ۔

انسانی تہذیب کے ابتدائی ارتقائی زمانے میں انسان کو محض زندہ رہنے کے لئے  جسمانی طور پر طاقتور ہونا لازم ہؤا کرتا تھا تو آج کیوں نہیں؟ اپنے قبیلہ کےسردار کے انتخابی مقابلہ کے لئے اپنی جسمانی طاقت کے جوہر دکھانا پڑتے تھے، بالکل اسی طرح آج بھی جسمانی طور سے صحت مند ہونے کے ساتھ مالی طور پر اپنے مدِ مقابل سے زیادہ طاقتور ہونا لازم ہے  کیونکہ انتخابی عمل سے گذرنے کے لئے آج کل کے حالات و روایات کے مطابق ایک کثیر دولت درکار ہوتی ہے ۔ ایک نامور لکھاری یا شاعر وہ انتظامات کیسے کر سکتا ہے جس کے لئے دولت درکار ہوتی ہے، انتخاب جتوانے والے آپ کے چاہنے والے ضرور ہونگے لیکن وہ آپکی مالی امداد کسی صورت نہیں کرتے ۔گویا آپ کی تمام تحاریر، شاعری اور نعرے کھوکھلے ثابت ہونگے۔ فطرت کے نظام سے ہم آہنگی کے زُمرے میں ہوا  کے دوش پر اڑتے ہوئے منزل پالینا آتا ہے تو جسمانی و مالی حیثیت مضبوط ہونا بھی رائج  الوقت سکّہ ہے جو حکمرانی کی منزل کے حصول کے خواب دیکھتا ہے۔رہا    رائج الوقت قوانین کا معاملہ تو قوانین ہمیشہ حکمرانی میں شامل لوگ اپنے فائدے کے لئے بناتے ہیں تاکہ نظام چلانے میں ان کو آسانی ہو۔

اپنی حیثیت و مرتبے سے ہٹ کر منزل کے حصول کا سوچنا تو ہر انسان کا حق ہے لیکن عملی طور پر  حصول کے لئے  یقینِ محکم، اور عملِ پیہم کا ہونا لازم ہے اس کے بغیر ہمارا رویہ فطرت کے نظام سے غیر آہنگ ہوگا اور کامیابی مشکوک ہو جائیگی۔

ہفتہ، 17 جون، 2023

مجھے اپنا کام ذمہ داری سے کرنا ہے

    

حضرت جبرائیل علیہ السلام کو کتاب سپرد کی گئی ہے کہ وہ اسے رسولوں تک لے جائیں ، بارش اور زمین کے نباتات حضرت میکائیل کے سپرد ہیں ، جہنم کے نگہبان حضرت مالک،  جنت کے داروغہ اور   خازن         کا نام رضوان ، قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے، حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں کی روزی وروٹی کے انتظام پر، حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے  اور حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔گویا خالقِ کائنات نے اپنا نظام چلانے کے لئےایک منظم طریقے پر اپنے کارندے مقرر کئے ہوئے ہیں۔ ہر کارندہ اپنا  اور محض اپنا کام سر انجام دیتا ہے ، کبھی کوئی کسی کے کام میں دخل اندازی کرتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کے کام پر تبصرہ ورنہ سوچیں کہ کسی روز اسرافیلؑ کہیں کہ میں آج سے میکائیلؑ کا کام کرتا ہوں اور وہ میری ذمہ داری نبھائیں ۔ اس ایک بد نظمی کے باعث سارا نظام درہم برہم ہو جائیگا یا نہیں۔ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ انجینئیر بیماریوں کے علاج کے بارے میں اپنے ادارے میں آن ڈیوٹی بیٹھے تبصرے کر رہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹرز  اسپتالوں میں ڈاکٹرز روم میں بیٹھے سیاست پر تبصرے فرماتے پائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات موٹر ویز اور پلوں کے ڈیزائین اور تعمیر پر نکتہ چینی کرکے اطمینان محسوس کرتے ہیں جب کہ بچت بازاروں میں بنیادی  اشیائے خوردونوش خریدنے والے ماہرِ معاشیات کی مانند تبصرہ کے لئے کسی ٹی وی چینل کے رپورٹر اور کیمرہ مین کو ڈھونڈنے میں اپنا وقت گزارتے پائے جائیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا جو آج ہمارے سامنے ہے۔

 گویا فطرت کے نظام کا نظم و ضبط دیکھ کر بھی ہم کچھ نہیں سیکھ پائے اور ہم نے  من حیث القوم ، تعلیم یافتہ ہوں یا جاہل، سب نے فطرت کے نظام سے غیر آہنگی  کے ریکارڈ توڑ رکھے ہیں جس کے باعث ابھی تک ترقی پذیر ملکوں میں بھی اپنا شمار نہیں کروا پائے بلکہ پس ماندہ اقوام میں شامل کئے جاتے ہیں۔

درج بالا بیان کئے گئے حالات کا تقاضہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر وقت صرف کرے، نہ تو کسی دوسرے کے کام میں نقص نکالے، نہ ہی  کسی قسم کی نکتہ چینی کرے۔ سرکاری ادرے میں ملازمت ہو یا پرائیویٹ  کمپنی میں، کاروبار  ذاتی ہو یا مشورہ جاتی، ہر صورت میں محض اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے فرائض کی انجام دہی بہتر نتائج کی حامل ہوتی ہے۔آج تک جن قوموں نے ترقی کی ہے ان کے افراد نے صرف اپنے اوپر عائد کی ہوئی ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی نبھائیں ، یہاں تک کے سپر پاور  کے یونیورسٹی کے طالب علموں کو اپنے وزیر خارجہ کا نام تک نہ معلوم تھا جب ان سے  1974ء میں ایک ٹیلیویزن پروگرام میں پوچھا گیا، گویا ہر فن مولا ہونا کوئی کمال کی بات نہیں بلکہ اپنے کسی خاص کام میں ماہر ہونا اپنی قوم کو ترقی کی جانب لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ایک مقرر کردہ عمر کے بعد ریٹائر منٹ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں رائج ہے جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد کنسلٹنٹ کے طور پر اسی کو مقرر کیا جاتا ہے جو کسی خاص شعبہ میں ماہر ہو اور اپنے کام پر مکمل عبور رکھتا ہو۔کنسلٹنٹ مقر ر ہوجانے کے بعد اس کی کوئی عمر کی قید نہیں ہوتی ،  اس کا  صرف ذہنی طور پر صحت مند ہونا لازم ہوتا ہے،  خواہ جسمانی طور پر کسی بھی وجہ سے معذور ہو چکا ہو بلکہ کسی بھی قسم کی جسمانی معذوری کا مداوا  کرنے کے لئے ضرورت کی مناسبت سے مختلف سہولتیں اس کو مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ظاہر ہے جب ایک شخص نے اپنی قوم اور اپنے ملک کی ترقی کی خاطر اپنی پوری زندگی لگائی ہو تو اس کا صلہ تو ملے گا ۔  


 

جمعرات، 15 جون، 2023

فرعون نہ بنیں

 


اپنی کی ہوئی غلطی ہماری  اپنی  ہی مایوسی کا باعث بنتی ہے کیونکہ غلطی  سے کئے ہوئے عمل کا نتیجہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں نکلتا، گویا ہمارا عمل ہماری ممکنہ توقعات سے  ہم آہنگ نہیں   ہوتا۔کسی بھی عمل سے پہلے اس کا نتیجہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان اپنی مرضی کے نتیجہ کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔اگر اس کو معلوم بھی ہو کہ  انجام کیا ہونا ہے، پھر بھی دانستہ طور پر اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا  کیونکہ اس نے منزل حاصل کرنے کا آسان راستہ پہلے سے ہی اپنے ذہن میں چُنا ہؤا ہوتا ہے۔البتّٰی عمل کی تکمیل اور  اس کے نتیجہ کے بعد وہ اپنے آپ کو دل ہی دل میں برا بھلا  ضرور کہتا ہے ۔خالقِ کائنات کا طریقہ کار بالکل بھی ایسا نہیں بلکہ اس نے اپنا ہر عمل اور اس کا نتیجہ ازل سے طے کر رکھا ہے، توقعات رکھنا اس کا شیوہ نہیں، یہ محض ہم انسانوں    کو اختیار دیا گیا ہے  کیونکہ اچھے برے ، نیک و بد اور صحیح غلط  دونوں کی تمیز عطا کر کے ہم انسانوں کو خود مختاری دے دی گئی۔ہاں میں نے جو سن رکھا ہے اور عملی تجربہ بھی ہے کہ اچھا  یا نیک کام کرتے وقت خالق کی تھوڑی بہت مدد شامل ہو جاتی ہے میرے عمل میں جب کہ برے  کام کرتے وقت  ایک عجیب سا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی سن نہ لے، دیکھ نہ لے ، پکڑا نہ جاؤں وغیرہ وغیرہ۔یہ ہوتی ہے اصل میں ایک وارننگ جس کو نظر انداز کرکے میں غلط یا برا کام کر گذرتا ہوں لہٰذا نتیجہ بالکل غیر یقینی ہوتا ہے، کبھی    توقع کے مطابق اور کبھی بر خلاف۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کون بتاتا ہے ہم  نے کوئی غلطی کی ہے اور کس وقت بتاتا ہے، یہ سمجھنا کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ نہیں۔ہماری پیدائش کے وقت جہاں ہمیں جسمانی اعضاء تحفہ میں ملے وہیں کچھ غیر مرئی  یا روحانی عناصر بھی ہمارے جسم کے اندر نصب کر دئیے گئے جن کا کنٹرول ہمیں نہیں  دیا گیا۔ان اعضاء میں سے اس وقت ایک پر ہی روشنی ڈالی جائیگی جس کا نام ہے "ضمیر"۔ ہمارے جسم کے نظر آنے والے یا طبعئی اعضاء میں دل اور نہ نظر آنے والے روحانی یا غیر مرئی عناصر میں ضمیر، یہ دو نوں ہماری ماں کے پیٹ کے اندر ہمارے جسم کی تکمیل کے دوران  اس میں روح پھونکنے کے فورً بعد ہی  نصب کر دئے جاتے ہیں اوریہ دونوں اپنا    کام شروع کر دیتے ہیں ان میں سے ایک بھی کام کرنا بند کر دے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہماری موت واقع ہوگئی ہے۔ ماں کے پیٹ کے اندر ہمارے وجود میں آتے ہی ہمارا دل دھڑکنا شروع کر دیتا ہے اور ہماری موت واقع ہونے تک دھڑکتا رہتا ہے جب کہ ہمیں شعور  آتے ہی ضمیر متحرک ہو جاتا ہے اور یہ بھی ہماری موت کے وقت تک کام کرتا رہتا ہے۔ دونوں کا کنٹرول تو ہمارے پاس نہیں ہوتا لیکن ان کے ساتھ زبردستی کر کے کام سے روکا جاسکتا ہے یعنی دل کی دھڑکن کو زبردستی روکا جاسکتا ہے اور ضمیر کا ہمارے ہر عمل کی جانچ پڑتال کا عمل روک دیناہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔گویا ہم ان دونوں عناصر کو فطرت کے نظام میں اپنا کردار ادا کرنے  سےروکتے ہیں تو ایک کا نتیجہ" موت"  کی صورت میں اور دوسرے کا انجام "مُردہ"   ہونے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کسی انسان کو کوئی اختیار دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھے جیسے تاریخ میں فرعونوں نے اپنے آپ کو سمجھا، ان کا انجام کیا ہؤا ؟ دنیا آج تک اس بات کی تحقیق میں سرکرداں ہے  جب کہ اللہ نے اپنی کتاب میں صاف صاف بتا دیا کہ ان سب کا انجام عبرتناک ہؤا۔ لہٰذا فطرت کے نظام کے تحت ہی ہمیں اپنے دل اور اپنے ضمیر دونوں کو کام کرنے دینا چاہئے تاکہ ہم  تاریخ میں عبرت نامہ نہ بن جائیں۔

بدھ، 14 جون، 2023

 

لیڈیز فرسٹ

خواتین سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھنے پر مجبور ہوں کہ خالقِ کائنات کا پہلے آدم اور اس کے بعد حوّا کی تخلیق رائج الوقت لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کے بالکل برعکس  عمل تھا۔ شاید اس کا مقصد مرد کی برتری ثابت کرنا ہو لیکن از راہِ تفنّن عرض کروں کہ عورت نے اس کا بدلہ آدم کو شجرِ ممنوعہ کا پھل کھلا کر جنّت سے نکلوا کر لے لیا جس کا کوئی توڑ نہیں اور اگر ہے بھی تو تقریباً ناممکن کیونکہ عورت نے اپنا نمائندہ قیامت تک تمام انسانوں کے پیچھے ایسا لگایا  جس سے جان چھڑانا تقریبًا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔افسوس کا پہلو یہ ہے کہ مرد نے اپنی برتری فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے اس کے قطعئی برعکس چلنے کا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ صبح شام بھگتتا ہے۔تقریباً تمام ہی ترقی یافتہ اقوام میں لیڈیز فرسٹ کا سِکّہ چلتا ہے ، جہاں ایسا نہیں وہ  پس ماندہ اقوام کہلاتی ہیں  کیونکہ  لیڈیز فرسٹ (خواتین پہلے) کو  جب خواتین کے حقوق کا رنگ دے دیا جائے  تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جیسے حقوق نسواں کی اصطلاح میں تمام انسانی حقوق شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر اس موضوع میں وہی حقوق شامل کیے جاتے ہیں جن کے استحقاق کے حوالے سے معاشرہ مرد اور عورت کے درمیان فرق روا رکھتا ہے۔ چنانچہ حقوقِ نسواں کی اصطلاح عام طور پر جن حقوق کے لیے استعمال کی جاتی ہے ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔



مجھے تو روزمرہ کی زندگی میں ایک زیادتی شدت سے متاثر کرتی ہے کہ لڑکی یا عورت چوبیس گھنٹے ، سات دن اور پورا سال کوئی نہ کوئی ذمہ داری نبھا رہی ہوتی ہے جب کہ مرد کوہر جگہ ، ہر وقت، ہر دن کسی نہ کسی بہانہ چھٹی چاہئے ہوتی ہے وہ قومی سطح ہو، صوبائی ہو، غم ہو، خوشی ہو، سرکاری ہو یا پرائیویٹ اور اگر سب چھٹیاں ختم ہو جائیں تو جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی مرد ہی اس کو بنا کر دے دیتے ہیں۔بیٹی نے ذرا چلنا شروع کیا اور اس کو چھوٹے بھائی کی نگرانی پر لگا دیا، ذرا بڑی ہوئی تو اسی بھائی کو پہلے کھانا کھلا کر بعد میں بچا ہؤا اس کو، گھر کی صفائی اور تمام گھر گرستی لڑکی کی ذمہ داری، چار جماعتیں پڑھا کر اسکول ختم اور شادی کے لئے قربانی کی بکری کی نمائش شروع، شادی کے بعد سسرال میں تمام وہ ذمہ داریاں جو بابل کے گھر تھیں بِنا کسی چھٹی کے۔ جذباتی ہو جاتا ہوں یہ سب لکھتے لکھتے، اس لئے زیادہ نہیں لکھ پاتا ورنہ ایک مکمل کتاب اسی موضوع پر لکھ بیٹھوں لیکن پھر بھی اپنی اور آپ کی زندکی پر سکون بنانے کے واسطے اسی نکتہ کی وکالت کرونگا کہ فطرت سے ہم آہنگی میں ہی سکون ہے، اس پر ساری عمر بحث  ہو سکتی ہے۔

میرا ایمان ہے کہ خالقِ کائنات کا ہر عمل حق پر مبنی ہوتا ہے اسی لئے ہر سچی بات کو برحق کہا جاتا ہے۔فطرت کے نظام میں غلط یا جھوٹ کی گنجائش قطعئی طور پر نہیں کیونکہ حق کے حکم سے انکار تو ابلیس کی علامت ہے، اگر ہمیں فطرت کے نظام سے غیر آہنگ ہونا ہے تو ہم بھی جھوٹ بول کر حق سے فرار کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں، تما   م   دنیا کے غلط کام کر سکتے ہیں، ہمیں کوئی نہیں روکنے والا ، لیکن بالآخر نتائج کی ذمہ داری ہماری اپنی ہوگی۔ میرے ایمان کا ایک یہ بھی حصہ ہے کہ خالق اپنے پسندیدہ انسان  کو کوئی بھی غلط کام کرنے سے جلد ہی کسی نہ کسی ذریعے سے روک دیتا ہے گو کہ اس وقت اس انسان کو شدید     ناگوار گذرتا ہے کہ  اتنے ڈھیروں انسان یہی کام کر رہے ہیں اور خوش ہیں ، مجھے کیوں روک دیا جاتا ہے۔ حتمی طور پر  جب اس کی مصلحت سمجھ آتی ہے تو پروردگار  کے لئے شکر کے کلمات بے ساختہ نکل پڑتے ہیں۔

منگل، 13 جون، 2023

فطرت کے نظام سے ہم آہنگی 1

خالقِ کائنات  نے نظامِ کائنات کسی خاص اصولوں کے تحت وضع کیا ہےجیسے ہماری زمین ، سورج، چاند اور ستارےاپنے مقرر کردہ دائروں میں رہتے ہوئے سفر کر رہے ہیں۔ ہوائیں، زلزلے اور سیلاب اپنے مقرر کردہ قوانین کے تحت جنم لیتے ہیں اور اپنے اثرات بھی مقرر کردہ کلیات کے تحت چھوڑ جاتے ہیں۔درختوں سے لے کر انسانوں تک تمام مخلوقات ایک خاص بنیادی اصول کے تحت نمودار ہوکر مقرر کردہ معیاد کے بعد صفحئہ ہستی سے مِٹ جاتی ہیں۔ایک مخلوق کا دوسری مخلوق کی جان لے لینا ایک الگ اصول  کے تحت ہے جب کہ ایک مخلوق کا اپنی ہی  ہم مخلوق کی جان لینا کسی اور ضابطے کے تحت ہے اور یوں ہمیں ظلم و  رحم کا وجود دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر مخلوق نے عطا کردہ اپنے اپنے شعور کے مطابق نہ صرف زندگی گذارنے کے طریقے اختیار کیئے ہوئے ہیں بلکہ ان زندگیوں میں رنگ بھرنے کے طریقے بھی خود ہی دریافت کیئے  جن میں ماہ و سال کے تغیرات کے ساتھ تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔


 

ایک نکتہ قابلِ غور ہے کہ ہر مخلوق اپنی زندگی کو سب سے مقدّم  سمجھتی ہے اور اس کو قائم و دائم رکھنے کے لئے دوسری مخلوق تو کیا اپنی ہم مخلوق کی زندگی کو بھی اہمیت نہیں دیتی۔جیسے ایک مضبوط نسل کا پودا  زمین سے باہر نکلتے ہوئے زمین کو  چیرتے ہوئے، اپنے اوپر موجود ہر قسم کے گھاس پھوس اور کیڑے مکوڑوں کے بسیروں کو تہس نہس کرتا ہؤا زمین پر آس پاس جھانکنا شروع کرتا ہے اور قد آور ہونے تک اس کے راسے میں کوئی بھی کمزور پودا، بیل بوٹا آجائے تو اس کو کسی خاطر میں نہیں   لاتا، حتیّٰ  کہ جب کوئی دیوار راستہ روکنے کی کوشش کرے تو اس کو بھی چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔بعینئہ ہر مخلوق کرتی ہے جیسے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے، جنگل میں شیر بادشاہ ہوتا ہے اور کسی جانور کو مارکر کھا جانا اس کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، اشرف المخلوقات حضرتِ انسان نے وقت کے ساتھ دوسرے انسان کو کھانے کے لئے مارنا تو چھوڑ دیا لیکن اپنے فائدے کے کئے ابھی بھی کسی کی جان لینے سے دریغ نہیں کرتا، اسی لئے یہ محاورہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا  "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"

ابھی میں نے خالقِ کائنات کی فطرت بیان کی ہے جو کوئی انکشاف نہیں، سب ہی یہ باتیں جانتے اور سمجھتے ہیں  لیکن جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس سے ہٹ کر کچھ کرنا آسان نہیں ہوتا ، یعنی فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا خمیازہ بھی بگھتنا پڑتا ہے اس لئے کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہیئے کہ فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے ایسا عمل کیا جائے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تو آئیے آپ کو بتائیں کہ ایسا کیسے ہوگا؟  

  

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...