یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

ہفتہ، 23 ستمبر، 2023

موت کا وقت معلوم ہوتا تو۔۔۔

 

کل میں نے اپنے ایک کزن سے پوچھا  کہ چوراسی سال کی عمر کو پہنچنے پر آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟

ان کا جواب تھا کہ اپنے والدین، اپنے بھائی بہن، اپنے بچوں اور اپنے دوستوں  کا خیال رکھنے اور  ان سے محبت کرنے کے بعد اب میں اپنے آپ  سے محبت کرنے لگا ہوں اور اپنا ہی خیال رکھتا ہوں۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ میں کوئی دنیا کا نقشہ نہیں ہوں اور نہ ہی دنیا میرے کندھوں پر رُکی ہوئی ہے۔میں نے اپنا اصول بنا لیا ہے کہ میں کبھی کسی غریب دوکاندار یا ٹھیلے والے سے بھاؤ تاؤ نہیں کروں گا بلکہ وہ میری خریدی ہوئی شے یا سامان کے جتنے پیسے بتائے گا فوراً دے دونگا  ، آخر چند ٹکے زیادہ دے دینے سے میں کونسا غریب ہو جاؤنگا بلکہ اس کی کمائی تھوڑی بہتر ہونے سے اس کے گھر کے حالات بہتر ہو جائیں شاید۔ میں اب ہر ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد ویٹر  کو ٹِپ ضرور دیتا ہوں جس سے میرے مالی حالات تو خراب نہیں ہوتے البتّیٰ اس کے تھوڑا بہتر ضرور ہو سکتے ہیں۔ میں نے اپنی عمر یا اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کو اپنی کوئی بھی بات یا کہانی دہرانے پر ان کو ٹوکنا نہیں کیونکہ اس سے ان کی ماضی کی یاد داشت کو بہتر بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔میں اب کسی کو یہ نہیں کہتا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں کیونکہ مجھے یہ احساس ہو گیا ہے کہ سب کو صحیح کرنے کی ذمہ داری میری نہیں۔اب میں کسی کی تعریف کرنے  یا کسی کی حوصلہ افزائی کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف اس کا موڈ بہتر ہوتا ہے اور وہ خوش ہوتا ہے بلکہ اس سے مجھے بھی راحت محسوس ہوتی ہے۔مجھے اب اپنے کپڑوں پر استری کی پرواہ بالکل نہیں ہوتی کیونکہ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ  ظاہری لباس جاذبِ نظر نہیں ہوتا بلکہ باطنی  شخصیت متاثر کن ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص میری عزت نہیں کرتا تو میں اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اب میری کتنی قدر ہونی چاہئے۔ میرا مذاق اڑائے جانے پر بھی میں طیش میں نہیں آتا، اس سے میرا بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔  میری جذباتی کیفیت دیکھ کر لوگ ٹوکتے ہیں تو میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ انسان ہی تو جذباتی ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے تو میں انسان ہوں۔ میں نے کسی بھی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنانا چھوڑ دیا کیونکہ لوگوں سے تعلقات بنائے رکھنا زیادہ اہم ہے ورنہ میں دنیا میں اکیلا رہ جاؤنگا۔ میں یہ سوچ کر  ہر روز اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہوں کہ شاید یہ  میری زندگی کا آخری دن ہو۔ 

میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے مجھے خوشی محسوس ہو جس کےلئے مجھے اتنا انتظار کرنے کی ضرورت نہ تھی ایسا کسی بھی عمر میں ممکن تھا۔ یہ آخری بات کہنے کے بعد میرے کزن بے حد جذباتی ہو گئے جو کہ میں کبھی نہیں دیکھا اور میں تھوڑ اپریشان بھی ہو گیا ان کی ایسی حالت دیکھ کر۔ ان کی بیگم نے فوراً  ملازم کو آواز لگا کر کہا "جلدی سے ان کی آکسیجن لا کر لگاؤ، ان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں"  میں نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر حالات کی کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اور کہا " بس چھوڑ دو، سب پیچھے ہٹ جاؤ، کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ، ان کو پہلی مرتبہ اپنے آپ کو ایک کامل انسان محسوس ہؤا ہے ، ان کے جذبات پر پل باندھنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کو چھوئی موئی کا پودا بنانے کی ضرورت ہے، ابھی کچھ دیر میں ان کی طبیعت سنبھل جائے گی اور چند منٹ بعد وہ  نہایت  پر سکوں انداز میں   محفل کو گرما رہے تھے۔ان کی قوت ارادی مزید مضبوط ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔جس پر مجھے اپنی بات کھل کر کہنے کا موقع مل گیا کہ " موت کو سامنے کھڑا دیکھ کر بڑے بڑے طرم خان ڈھیر ہو جاتے ہیں ، یہ تو ابھی چوراسی سال کے ہی ہوئے ہیں۔ کاش ہمیں ہوش سنبھالتے ہی ایسی کیفیت نصیب ہوجایا کرے تو ہم سب اچھے انسان بن جائیں۔موبائل فون ہاتھ میں آجانے کے بعد  کتابیں پڑھنے کا تو دستور ہی نہ رہا لہٰذا  بچہ پیدا ہوتے ہی کان میں اذان و تکبیر کے ساتھ اس کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ تمہاری موت کس سال، کس ماہ، کس دن اور کتنے بجےواقع ہو گی تو اسی فکر میں اس کا تما م رویہ ہو ش سنبھالتے ہی وہ ہو گا جو میرے کزن کا چوراسی سال میں ہؤا"۔   

محفل میں ایک بڑا قہقہہ  لگا اور برخواست ہوئی۔ 


 

بدھ، 20 ستمبر، 2023

آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں

 

مذہب اسلام میں جو شخص داخل ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی چادر سے اسے ڈھانپ لیتا ہے ، جو اسے ہر طرح کی پریشانی اور مصائب و مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے۔لیکن جب وہ گناہ کرتا ہے تو اس چادر میں ایک سوراخ ہوجاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو وہ سوراخ باقی رہتا ہے اور پھر جتنا گناہ کرتا ہے  اسی اعتبار سے سوراخ میں زیادتی ہوتی رہتی ہے ۔ یہاں تک کہ رحمتوں کی چادر چھلنی ہوجاتی ہے اور ان ہی سوارخوں کے ذریعے انسان پر مختلف قسم کی پریشانیاں نازل ہوتی ہیں ۔ کبھی بیماری ، کبھی گھریلو اختلاف ، کبھی تجارت اورکاروبار میں رکاوٹیں اور کبھی اولاد اور رشتے داروں کا دشمن بن جانا۔اس طرح کے بے شمار مسائل اس کے لیے کھڑے ہوجاتے ۔ وہ حیران و پریشان رہتا ہے ، مگر بہت کم لوگوں کا اس طرف ذہن جاتا ہے کہ یہ سارے مسائل اور پریشانیاں انھی کے اپنے عمل اور کردار کا نتیجہ ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے برکت کے نزول کا ضابطہ اس طرح بیان کیا ہے :

وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالأَرْضِ     ﴿الأعراف : ۹۶﴾                                

’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔‘

آسمان اور زمین کی برکتوں سے مراد ہر قسم کی برکات ہیں ، صحت میں ، کاموں میں ، وقت میں ، مال میں ، کھانے پینے اوراستعمال و ضرورت کی تمام چیزوں میں برکت و رحمت نازل کی جاتی ہے ، جس سے مقصود ومطلوب آسان ہوجاتا ہے اور تادیر اس کے استعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ مثلاً ایک آدمی کی صحت تقریباً دس سال سے بالکل ٹھیک ہے ، کبھی سر میں درد نہیں ہوا۔ اُسے یاد بھی نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس کب گیا تھا ؟ یہ صحت کی برکت ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانے آنے کی کلفتوں اور الجھنوں سے بچ گیا۔ وہ مستقل اپنا کام کرتا رہا ۔ وقت بھی محفوظ رہا اور پیسہ بھی۔ اسی طرح تھوڑے وقت میں امید سے زیادہ کام کرنا بھی ایک قسم کی برکت ہے۔ جس کام کے لیے آدمی کہیں جاتا ہے یا جس کام میں مصروف رہتا ہے ، اگر وہ کام صحیح طرح ہوگیا ، کوئی رکاوٹ نہ آئی تو یہ بھی برکت ہے اور اگر کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے اعمال بد کی نحوست کے سبب اللہ کی طرف سے بے برکتی کا انتظام کیا گیا۔ بہت سے لوگ وقت میں بے برکتی کی شکایت کرتے ہیں کہ صبح سے شام ہوجاتی ہے ، وقت اس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ دن کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ کوئی کام مکمل نہیں ہوپاتا ہے کہ دوسرا دن بل کہ دوسرا ہفتہ اور دوسرامہینہ شروع ہوجاتا ہے۔ سالہا سال تیزی سے گزر رہے ہیں۔ کوئی قابل لحاظ کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلا شبہ یہ بے برکتی ہے ، جو انسان کے اعمال بد کا نتیجہ ہے ؛ لیکن بہت سے بزرگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے بہت کم وقت میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے ہزاروں کتابیں تصنیف کیں، لاکھوں شاگردپیدا کیے ، تصوف وسلوک کی راہ میں بھی خلفا اور مریدین کی ایک بڑی تعداد تیار کی، ان کی طویل خدمات کو اگر ان کی عمر پر آج تقسیم کیا جائے تو عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوچنا پڑتا ہے کہ آخر اتنے کم وقت میں اتنا عظیم کارنامہ کیسے انجام دیا گیا۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے ان کے وقت میں برکت دی تھی کہ کم وقت میں توقع سے زیادہ وہ کام کرگئے، جو آج لوگ صدیوں میں نہیں کرسکتے۔ ایسے خداترس افراد آج بھی موجود ہیں اور ان کے اخلاص و للہیت کے مطابق ان کے اوقات میں برکت کا سلسلہ جاری ہے۔بل کہ ایک عام مسلمان بھی جب اللہ سے ڈرتا ہے اور اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بناتا ہے تو اس کی نیکی اور تقویٰ کے اعتبار سے اس کے وقت میں برکت دے دی جاتی ہے ، جس سے وہ بہت سے ایسے کام کرلیتے ہیں ، جو گنہگار نہیں کرسکتے ۔

بہت سے کج فہم لوگوں کو برکت کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگ مذاق بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس دس ہزار روپے ہیں ، کیا نیک کام کرنے سے وہ بارہ ہزار بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ برکت سے مراد روپے کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے ، بل کہ روپے کا صحیح جگہ استعمال ہونا ، کم پیسوں میں کام کا بن جانا ،  تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا یہ سب مال کی برکت ہے ، جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے ۔ بہت سے دوست و احباب کی آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہر مہینے ہوتی ہے ، مگر کچھ پیسے بیماریوں اور اسپتالوںمیں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ مہینا پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے سارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور قرض کی نوبت آجاتی ہے ۔ سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ قلبی و ذہنی سکون انھیں حاصل ہے۔ یہ اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے ، جس کے سبب مال سے برکت اٹھالی گئی۔ اس کے برعکس مدارس اور دینی کاموں سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک کو حیرت ہوگی کہ معمولی تنخواہوں میں اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوے وہ باعزت اور باوقار زندگی گزارتے ہیں ، جس پر بڑی تنخواہ پانے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔

(منقول  مفتی تنظیم عالم قاسمی)


 

ہفتہ، 16 ستمبر، 2023

الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ

 

میرے جیسے عام آدمی کی معلومات اپنے سماجی دائرے کے لوگوں سے ہوتی ہیں یا میڈیا کے ذریعے ۔ اپنے 77 سال کے تجربے کو ان تمام معلومات پر منطبق کرنے کے بعد میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں  کہ مُبَیَّنہ حافظِ قران سید عاصم منیر احمد شاہ  بھی  اسی فوج کے سربراہ ہیں جس نے 70 سال سے اپنی فہم و فراست سے لبریز قوت و شجاعت کا سِکّہ پوری دنیا میں جمایا ہؤا ہے۔ویسے تو مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے ہر فوجی سربراہ کو قران سے شغف رہا ہے لیکن حافظ ہونے کی نسبت سے عاصم منیر صاحب کو  زیادہ بہتر طریقے سے جانکاری ہو گی کہ ہمارے ملک کی موجودہ معاشی حالت کے بنیادی اسباب کیا ہیں ؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان کی بنیادی ذمہ داری سرحدوں کی حفاطت اور اندرونی امن و امان قائم رکھنا ہے لیکن ایمرجنسی میں جہاں زلزلہ  و سیلاب زدگان کی مدد کرنا کوئی انوکھی بات نہیں وہیں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ملک کی   سیاسی و معاشی کشتی کو ڈولتے وقت  ہماری پاک فوج نے ہی اپنی تمام تر استطاعت و کاوشوں سے سہارا  دے کر کنارے لگایا۔

نکتہ چینی کرنا اور منفی پراپیگنڈہ میرے لئے بھی کوئی  مشکل کام نہیں لیکن خوفِ خدا کا مطلب اللہ سے ڈرنا نہیں بلکہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر حق بات  کہہ کر عام عوام کو مایوسی کے بھنور سے نکالنا ہوتا ہے۔علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا تھا " ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی " ، تو جب جب یہ مٹی نم ہوئی ہے،  اس کی ذرخیزی کو ہماری پاک افواج نے ہی دنیا کو ثابت کر دکھایا ہے۔ اس مرتبہ جہاں ملک کو مایوسی کی تاریک ترین ابر آلود فضاؤں نے ڈھانپ رکھا ہے وہیں قوی ترین امیدِ بہار میرے ایمان کا حصہ بن چکی ہے۔ہمیشہ کی مانند تاریخ مسخ نہ کی گئی اور مزید پانچ سال  اللہ نے مجھے ہوش و حواس کے ساتھ زندہ رکھا تو  انشاء اللہ اپنی  اس روشنی کی کرن  کو پاکستانی عوام کے سامنے عظیم تحفے کے طور پر پیش کرونگا۔

 

 

 

 

 


 

جمعہ، 15 ستمبر، 2023

صراطِ مستقیم پر کیسے چلیں؟

 

ہمارا جسم خالقِ کائنات  نے تخلیق کیا اور اس میں روح بھی اس نے ہی پھونکی ، دونوں کی دنیائیں الگ ہیں اور دائرہ کار بھی۔ ان دونوں کو الگ رکھا جائے تو بہتر ہوتا ہے جو کہ ہے نہایت مشکل ۔دونوں کو آپس میں ملادینے سے دونوں کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے جسے ہم انسان کی غیر معمولی نفسیاتی کیفیت  "شقاق دماغی Schizophrenia " یا "دوہری شخصیت Split Personality  " کہتے ہیں۔

جسم مادی شے ہے جب کہ دماغ میں جنم لینے والے خیالات روحانی۔دماغ سے سوچ کی کمانڈ نکلے بغیر جسم کا کوئی عضو کسی قسم کی حرکت نہیں کر سکتا تو پھر بھلا کیسے ہم دونوں کے عمل کو الگ الگ انفرادی حیثیت میں استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے یہ ماننا پڑے گا کہ دماغ کے دو حصے ہیں ، ایک میں روح  پھونکنے والے کی جانب سے خیال آتے ہیں تو دوسرے میں ابلیس کی جانب سے  منفی کوششوں کی بھرمار۔انسان اپنے عطا کئے ہوئے اختیار (توفیق) کے ذریعے یہ فیصلہ کر پاتا ہے کہ کونسی کمانڈ جسم کے اعضاء  کو عمل کرنے کے لئے بھیجی جائے۔ یہ فیصلہ کرنا کسی صورت بھی مادی و روحانی  دنیا کے آپس میں خلط ملط ہونے  کا سبب نہیں بنتا۔روحانیت کے بارے میں آنے والے خیالات کے ردعمل کو روحانی دنیا میں ہی استعمال کیا جائے تو خالقِ کائنات کا قرب حاصل ہوتا چلا جاتا ہے جب کہ دنیاوی معاملات کے بارے میں آنے والے خیالات  مادی دنیا کے نفع و نقصان کے حصول کا سبب بنتے ہیں۔

روحانی دنیا میں اپنے راہ و رسم بڑھا لینے والے کو عرفِ عام میں پہنچا ہؤا یا مجذوب انسان کہتے ہیں جب کہ دنیاوی معاملات میں کامیابی و ناکامی  کا دارو مدار  ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس  قدر اس میں ملوث ہو تے ہیں۔ خالقِ کائنات  کے تمام کام مادیت پر مبنی ہوتے ہیں، کوئی کام روحانی نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو خود روحوں کا منبع ہے۔

مسافر جو اپنی خودی کو فنا کرکے عملاً و قولاً ذکر الہی میں کھو جائے فَنا فِی اللہ کہلاتا ہے  جب کہ علّامہ اقبال نے کہا "خودی کو کر بلند اتنا"، گویا خودی کو فنا نہیں ہونے دینا بلکہ روح کی پاکیزگی سے اتنا بلند کرنا ہے کہ  مرشد خود پوچھے "بتا تیری رضا کیا ہے؟"  جب خالقِ کائنات اپنے بارے میں نہیں سوچتا تو ہمیں کیا حق کہ ہم اس کے بارے میں سوچیں یعنی ہمیں اس سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے مادی دنیا  پہ ہی اپنی پوری توجہ مرکوز رکھنی ہوگی جس کے نتیجہ میں نفع و نقصان ہمارے اختیاری اعمال کے مطابق ہوگا۔ہم اپنے اختیاری اعمال کے مطابق دماغ کا وہ آدھا حصہ استعمال کریں گے جو ابلیس والے آدھے حصے کی سوچ کو رد کرے تو گویا ہم صراطِ مستقیم پر چل رہے ہونگے، ہماری روح کثافتوں سے پاک ہوگی، ضمیر مطمئن ہوگا اور زندگی نہایت آسان ہوگی جس کے نتیجے میں ہم اپنے فرائض ، ذمہ داریاں اور تمام نیک خواہشات باآسانی انجام دیتے چلے جائیں گے۔اپنے اعمال فطرت سے ہم آہنگ کرنے کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے۔

 


 

بدھ، 13 ستمبر، 2023

اتنی خراب دنیا بھی چھوڑنے کا دل نہیں چاہتا

 

مجھ سمیت کسی انسان سے پوچھ لیں  کہ وہ خوشی سے نہیں تو کیا اپنی مرضی سے یہ دنیا چھوڑ کر جانا چاہتا ہے، کوئی ہاں میں جواب نہیں دے گا مجھ سمیت۔ ہاں البتّٰی وہ انسان جو غیر معمولی ذہنی کیفیت کے باعث خود کشی کی جانب مائل ہو۔جب کبھی انسان کسی بھی عارضہ کے باعث ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ اس کی زندگی بہت کم دن کی باقی ہے تو اس مریض سمیت تمام لواحقین اس کی صحت یابی اور درازئے عمر  کی دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور وہی زندگی جس سے تھوڑا پہلے ہی بیزاری کی سی کیفیت تھی  اس سے ایک مرتبہ پھر شدید محبت ہو نے لگتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ موت سے بچ جانے کی کاوشوں میں ہم اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ہر وہ عمل و علاج معالجہ کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کو پہلے تسلیم ہی نہیں کرتے تھے ۔ نہ تو ہمیں اپنے مذہب کا پاس رہ جاتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی بھی نظریہ کا، چنانچہ جادو ٹونہ یا سفلی عملیات جن کا ہمیشہ مذاق اڑایا ہوتا ہے ان سب کو اپنے اوپر اس یقین سے آزماتے ہیں کہ ہم ضرور موت سے بچ جائیں گے، بھول جاتے ہیں کہ ہر مذہب و عقیدے میں موت برحق ہے۔ یہ وہ سبب ہے جس کے تحت ہماری ذہنی کیفیت خود کشی کرنے والے شخص کی کیفیت کے مکمل طور پر برعکس ہوجاتی ہے اور ہم ایسے خواب بھی دیکھنے لگتے ہیں کہ ہم موت کے منہ سے واپس آگئے۔ چنانچہ دنیا میں ایسی بے شمار کہانیاں اور قصے مشہور ہیں کہ فلاں شخص کو ڈاکٹروں نے مردہ ڈکلئیر کر دیا لیکن کچھ ہی منٹوں یا گھنٹوں کے بعد وہ زندہ ہو گیا اور اس  نے  موت کی حالت میں کیا محسوس کیا یا دیکھا وہ کچھ اس طرح سنایا کہ میں مر گیا  / گئی ہوں اور ایک اندھیری سرنگ میں لیٹا سرنگ کے انتہائی دوسرے کنارے پر ایک ہلکی یا تیز روشنی کی کرن دیکھ رہا/ رہی ہوں۔ جس کے بعد میں زندہ آپ کے سامنے ہوں۔کوئی بسترِ مرگ پر  اس سُرنگ میں لیٹے لیٹے یہ روشنی کی کرن دیکھتا ہے اور کسی کے مطابق وہ کسی سواری پر بیٹھا اس سُرنگ میں سفر کر رہا ہوتا ہے جس کے دوسری جانب وہ یہ چکاچوند دیکھتا ہے۔

میں خود اپنا واقع بلا خوف و تردید شئیر کرنا چاہوں گا کہ 2015 میں اچانک دل کے دورے کی کیفیت طاری ہوئی اور میں اس درجہ تک بے ہوش ہؤا کہ جس کو کومہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مجھے اپنے آس پاس کی تمام آوازیں آ رہی تھیں لیکن میں  نہ تو کسی آواز کا جواب دے سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کا کوئی عضو ہلا  کر اشارہ کر سکتا تھا ، یہاں تک کہ آنکھ  کی پلک کو بھی جنبش دے کر ہاں یا نہ کا اشارہ کر سکتا تھا۔ اس وقت میرے دو بائی پاس آپریشن ہو چکے تھے  اور تیسرے کے بارے میں ڈاکٹروں کی مختلف آراء تھی، کوئی کہتا ہو سکتا ہے اور کوئی کہتا کہ انجیوگرافی ٹیسٹ ہی نہیں ہو سکتا ، آپریشن تو بعد کی بات ہے، ایسا پاکستان اور انگلینڈ دونوں جگہ کے ڈاکٹروں کے فیصلوں کے بیچ لٹکنے کے دوران یہ واقع پیش آیا جو بیان کر رہا ہوں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے نہایت مشہور اسپتال میں  جب مجھے ہوش آیا تو  میرا بیان کچھ یوں ہے کہ دورہ پڑنے کی کیفیت میں ایمبولینس میں لے جایا جارہا تھا تو بیان کردہ بے ہوشی کی کیفیت میں  دیکھا کہ میں ایک نہایت تیز رفتار ٹرین میں سفر کرتا ہوا پاکستان کے مغرب کی جانب جارہا ہوں جب کہ ٹرین کے دونوں جانب باہر دیکھنے پر دنیا کے نقشہ کے مطابق تمام ممالک اس تیزی سے پیچھے جاتے دکھائی دے رہے ہیں جیسا کہ عام ٹرین میں سفر کرتے ہوئے اسٹیشن گذرتے ہیں۔ انگلینڈ کے بعد ٹرین   آسمان کی جاب ایک نہات تاریک سرنگ میں  پرواز کرتی ہوئی بحیرہ اوقیانوس پر سے واپس مشرق کی جانب سفر کرتی ہوئی اپنے اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے چلی تھی۔ ہوا میں مڑتے وقت  اندھیری سرنگ کے دوسرے کنارے پر کسی روشنی کے بجائے مزید شدت کا اندھیرا ہوتا ہے۔   مجھے ان خوابوں و خیالوں کی تعبیر تو معلوم نہیں لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ نہ مرنے کہ طلب و خواہش دماغ میں اس قدر گھر کر لیتی ہے کہ بے ہوشی یا کومہ میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا چنانچہ ایسی کہانیاں  "موت کے بعد کے مناظر" کے طور پر سامنی آتی ہیں۔

 




 

جمعہ، 8 ستمبر، 2023

وَحْدَہٗ لا شَرِیکَ لہٗ

 

خالقِ کائنات نے جو بھی شے تخلیق کی اس کا اپنا ایک مقام اور مقصد ہے۔ پتھر کو لوہے کی جگہ استعمال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی لوہے کو پتھر کی جگہ۔ اسی طرح ہر انسان کے دنیا میں آنے کا ایک مقصد اور مقام ہے ایک انسان دوسرے انسان کا متبادل نہیں ہوسکتا جیسے ایک انسان کی ہاتھ کی لکیریں یا فنگر پرنٹس مختلف ہیں ایسے ہی زید کو بکر نہیں سمجھ سکتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے متاثر ہو کر اس جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے لیکن ہر کوئی کسی ادارے کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔ ہر ادارے کا سربراہ ایک ہوتا ہے ، ایک سے زائد سربراہ بھی نہیں ہو سکتے ورنہ نظام نہیں چل سکتا۔ایک ہی باپ کے دو بیٹوں کی تربیت ایک جیسی ہوتی ہے ان کو ایک ہی تعلیمی ادارے میں تعلیم دلوائی جاتی ہے لیکن وہ دونوں ایک جیسی شخصیت نہ ہونے کے باعث ایک ہی کیرئیر  کے لئے منتخب نہیں ہو سکتے  وغیرہ وغیرہ۔

ہم جب کبھی کسی دوسرے انسان کو اپنے سے بہتر مقام پر دیکھتے ہیں تو فوراً دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میں اس کی جگہ ہوتا۔ خاص طور پر جب ہم اپنے بچپن کے ساتھی، اسکول فیلو یا کسی بھی تعلیمی ادارے سے ایک ساتھ فارغ ہونے کے بعد دیکھتے ہیں کہ وہ تو ایک نہایت مشہور ادارے کا سربراہ ہے اور میں ایک  مشہور  ریسٹورنٹ کا مالک، تو یک دم خیال آتا ہے کہ کاش میں اس ادارے کا سربراہ ہوتا  وغیرہ وغیرہ۔

"خالقِ کائنات اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں" کے بنیادی اصول کے تحت روئے زمین پر ایک کام کے لئے ایک انسان متعین کیا گیا، کوئی دوسرا انسان وہ کام تو کر سکتا ہے لیکن دونوں کے کام کرنے کے طریقہ کار اور نتائج بالکل مختلف ہوتے ہیں۔دونوں مل کر بھی کوشش کرلیں کہ ان کی پرفارمنس ایک دوسرے پر منطبق ہو جائے تو یہ ممکن ہی نہیں جیسے ایک کلاس میں ایک بچہ ہی اول پوزیشن حاصل کر سکتا ہے،  کسی بھی ادارے میں ایک ہی پوزیشن   پر کام کرنے والے افراد ایک دوسرے سے مختلف  پرفارمنس و مختلف نتائج مہیا کرتے ہیں۔

گویا  فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے لئے فطرت جیسا عمل کرنا ہوگا۔ فطرت خالقِ کائنات کا وصف ہے اس کا اکیلے تن تنہا بغیر کسی کی شرکت کے کائنات کا نظام چلانا ایک ایسی مثال ہے جس پر عمل کرنا انسان کے لئے ناممکن ہے لیکن اس وصف سے متاثر ہوکر اس سے ملتا جلتا عمل کرنا بھی ہم آہنگی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ وَحْدَہٗ لا شَرِیکَ لہٗ ایک ایسا وصف ہےجسے انسان پر منطبق کریں تو خود غرضی کا گماں ہوتا ہے  کہ ایک انسان اکیلے سب کام کرنا چاہتا ہے، کسی اور انسان کو اس میں شریک کرنا پسند نہیں کرتا تاکہ اس کام کے نتیجے میں حاصل ہونے والے تمام ثمرات خود ہی سمیٹ لے لیکن ایسا نہیں ہے ذرا سی دیر کے لئے اس وصف کو ایک اور زاویئے سے دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی کھیل میں ایک ٹیم کا ایک ہی کپتان ہوتا ہے ، میچ جیتنے کے بعد جیت کا سہرا پوری ٹیم کے گلے میں ڈالا جاتا ہے بلکہ اکثر مین آف دی میچ ٹیم کا کپتان نہیں ہوتا بلکہ اپنی پرفارمنس کی بنیاد پر کوئی کھلاڑی بھی اس کا حقدار ہو سکتا ہے۔اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کپتان  (وَحْدَہٗ) ہے اور اس کا کوئی شریک کپتان بھی نہیں جب کہ دیگر کھلاڑی اس کی جیت یا ہار میں برابر کے  شریک ہوتے ہیں۔اس اصول پر ہی کسی بھی کھیل میں ٹیم کے نتائج بہتر دستیاب ہوتے ہیں۔اس اصول پر عمل پیرا ہونے کے باوجود کسی ٹیم کا ہار جانا اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ انسانوں کا نظام ہے خالقِ کائنات کا نہیں لیکن اس سے ہم آہنگی کے نتیجے میں کھیل کا  خوش اسلوبی سے وقوع پذیر ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی واحد راستہ ہے کسی بھی کامیابی کا۔


 

جمعرات، 7 ستمبر، 2023

زمین خدا کی ہے

 

اس میں کیا شک ہے کہ یہ کرہ ارض  اس کی ملکیت ہے جس نے اس کی تخلیق کی بلکہ تمام کائنات کا خالق ہی اس کائنات کا مالک ہے ، کوئی اور کیوں کر ہو سکتا ہے۔اشرف  المخلوقات کو خالق نے جو شعور دیا اس کے تحت ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے آج انسان ایک ایک انچ زمین کے ٹکڑے کے لئے قتل و غارت مچائے ہوئے ہے جیسا کہ قبل از تاریخ   زن، زر و زمین کے لئے ہؤا کرتا تھا لیکن ہاں فرق یہ ہے کہ آج زمین کے ایک ٹکڑے کی ملکیت کے لئے بھی انسانی معاشرے کے بنائے ہوئے سخت ترین قوانین و ضابطے موجود ہیں۔یہ قوانین مختلف ممالک میں اس کے اپنے معروضی حالات کے مطابق بنائے جاتے ہیں  جو موجودہ تاریخ میں ترقی یافتہ ممالک اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں معمولی سے ردو بدل کے ساتھ موجود تو ہیں لیکن اپنے اپنے معاشروں کی استطاعت کے مطابق نافذ العمل ہیں چنانچہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں زمین کی ملکیت کے معاملے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں جس کی بابت یہاں کی عدالتوں میں اس   سے متعلق بے شمار کیسز پینڈنگ ہیں۔

ان کیسز کے بارے میں منہ شگافی کرنے کی بجائے ایک نہایت ہی واضح حقیقت کو مدِ نظر رکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پورے پاکستان میں ہماری پاک فوج کے اختیارات کے تحت زمین کا سب سے بہتر استعمال ہی نہیں بلکہ اس کی رکھوالی و اس پر ملکیت والے لوگوں میں بے حد خوشی و سکون دکھائی دیتا ہے۔ زیادہ تر ملکیت عدالتی فیصلوں کے مطابق جائز و ملکی قوانین کے عین مطابق ہے بشمول اس زمین پر رہائشیوں کی  زندگی کی بنیادی  سہولیات میسر ہونے کے۔چنانچہ پورے یقین کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو زمین پاک افواج کی کسی نہ کسی طرح ملکیت میں ہے اس کا نظام ایک مثال ہے ان علاقوں کی زمین کے لئے جو دیگر سول اداروں کے تحت چلائے جا رہے ہیں ۔مزید یہ کہ پاک افواج کے زیرِ انتظام علاقوں میں مثالی طرزِ زندگی دستیاب ہونے کے باعث دیگرعلاقوں  والے لوگ حسرت  بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے تمنا رکھتے ہیں کہ کاش ہمارے علاقے کا انتظام بھی پاک افواج کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا جائے تو ہماری زندگیاں بھی آسان  ہو جائیں۔

یہ محض رہائشی زمینوں کی بابت ایک حقیقت نہیں بلکہ ان زمینوں کے بارے میں بھی مکمل یقین و ثبوت کے کہا جا سکتا ہے جن کو رہائش کے علاوہ دیگر مقاصد کے استعمال میں لایا جارہا ہے جیسے زراعت   اور انڈسٹری۔ پاک فوج کے زیر استعمال زرعی زمینوں پر دیگر اداروں کی زمینوں کے مقابلے میں کہیں بہتر استعمال اور پیداوار میں بیش بہا فرق پایا جاتا ہے۔ انڈسٹریل زمینوں پر قائم فیکٹریاں روزِ اول سے توقع سے زائد پیداوار  و منافع کما کر دے رہی ہیں۔ہمارے دانشوروں، سیاستدانوں ، عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل بیٹھ کر ایک مرتبہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ  پاکستان کو ایک باوقار ترقی یافتہ مملکت بنانے کے لئے کیا  اور کیسے کرنے کی ضرورت ہے؟

میرا ایمان ہے کہ تمام زمینوں کا انتظام ہی پاک افواج کے حوالے کر دیا جائے تو چوبیس کروڑ عوام کی زندگیاں آسان ہو جائینگی اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر لوگوں کو ترقی یافتہ ممالک کی جانب ہجرت نہیں کرنا پڑے گی جس کے لئے انہیں جانی و مالی نقصانات اٹھا کر بھی کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔۔

 

بدھ، 6 ستمبر، 2023

نہ پریس کانفرنس نہ بریکنگ نیوز

 

خالقِ کائنات  کبھی سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کبھی اس نے کوئی پریس کانفرنس کی پھر بھی اس کے اگلے پچھلے بیانات سب غور سے سنتے ہیں۔ اگلے پچھلے سے مُراد تمام ادیان و مذاہب سے متعلق اور پریس کانفرنس سے مراد اہم اعلان یا بریکنگ نیوز ہے۔ بنی نوع انسان اپنی خود ساختہ جعلی طاقت کا مظاہرہ ہر دور میں کرتا چلا آیا ہے اور اس کی تمام تر کاوش رہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس دھرتی یعنی زمین کے گذشتہ، حالیہ اور مستقبل کے نظام کا بنانے اور چلانے والا ثابت کر دکھائے جس میں وہ ہمیشہ ناکام ہی رہا لیکن یہ ناکام کوششیں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔

پاکستان  میں کوئی خاص خرابی نہیں مع سوائے اس کے حکمرانوں کے جنھوں نے کبھی اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے  خاطر خواہ کام نہیں کئے جیسا کہ انھوں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کئے۔ حکمرانوں میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو ازل سے یہ ملک چلا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان ہی لوگوں نے یہ ملک بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔یہ حقیقت روزِ روشن کی مانند عیاں ہے کہ کاروباری افراد نےعلامہ اقبال کے پاکستان کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان کاروباری افراد کی کل تعداد آٹھ ہؤا کرتی تھی جو جنرل ایوب خان کے وقت تین سو تین ہوگئی اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے وقت یہ تعداد چودہ سو کے لگ بھگ ہوگئی ۔آج یہ تعداد خاصی بڑھ چکی ہے جس کا شمار تھوڑا مشکل اور غیر یقینی بھی ہے۔خیر کچھ بھی ہو اگر یہی کاروباری حضرات عوام کی فلاح و بہبود میں اپنا کچھ وقت دے دیں تو ان کے مال میں کوئی خاص فرق نہیں آئیگا لیکن عوام کی خوش حالی کے سبب اجتماعی صورت حال ملکِ پاکستان کی خوش حالی میں ایک نمایاں کردار ادا کرے گی۔ملک کے  کھیت  کھلیان زیادہ ہرے بھرے نظر آئیں گے، ملک کی فیکٹریاں نہایت زور و شور کے ساتھ اپنی پیدا وار بڑھاتی نظر آئیں گی اور ذرائع آمدورفت کی بنیادی سہولتوں کا ایک جال بچھا نظر آئیگا۔ان تمام بہتری کے اعشاریوں کی بابت ملک کے اشرافیہ کے حالات بھی یقیناً بہتر سے بہتر ہی ہونگے اور مجموعی طور پر پاکستان  نہ صرف ترقی کرتا نظر آئیگا بلکہ یقیناً بہت جلد ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جانے لگے گا۔ اس کے عوام اپنی زندگی بہتر بنانے کی خاطر کبھی بھی ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ ممالک کی جانب ہجرت کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں انشاء اللہ۔

دنیا کے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر بارہا یہ بات علی الاعلان کہی اور مانی جانی چکی ہے کہ پاکستان میں غربت و افلاس  اور شرح حصولِ تعلیم میں نمایاں کمی کے باوجود عوام میں بے پناہ پوٹینشل ہے جو انھوں نے شروع دن سے آج تک کئی بار  اور کئی میدانوں میں ثابت کر دکھایا ہے۔ابھی بھی دیر نہیں ہوئی محض ایک ایسے راہ نما کی ضرورت ہے جو ملک کو آگے بڑھانے کا ویژن رکھتا ہو  اور ایک ایسی ٹیم اپنے اردوں کی تلمیل کے لئے منتخب کرے جو ایک ترقی یافتہ ملک کے اداروں کو چلانے کی مہارت نہیں تو پوٹینشل ہی رکھتی ہو۔باقی صرف محنت، لگن اور خلوص   کو قائدِ اعظم کے  تین اصولوں میں جمع کر دیا جائے تو ملکِ پاکستان نہ صرف اسلام کا قلعہ بلکہ ایک نہایت مضبوط ترقی یافتہ ملکوں کی صفِ اول میں کھڑا نظر آئیگا انشاء اللہ۔


 

پیر، 4 ستمبر، 2023

تجربہ اپنا پنا

 

مولانا مودودی صاحب نے اپنی تفسیرِ قران میں تحریر کیا ہے کہ خالقِ کائنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا  لیکن  خالق  کی مرضی کے بغیر ایک پتّہ بھی جنبش نہیں کر سکتا۔ بہت عرصہ تک تو یہ بات سمجھ نہ آئی  کہ انسان کو خلیفہ تو بنایا لیکن وہ پتّہ بھی خالق کی مرضی کے بغیر  نہیں ہلا سکتا تو خلیفہ کیسا؟۔غور جاری رکھا اور آخر35 سال بعد اتنا سمجھ آیا کہ ہوتا تو ہر کام خالقِ کائنات کے حکم سے ہی ہے  لیکن کسی بھی عمل کے لئے انسان کی خلوصِ دل سے بھرپور کاوش ہو تو خالقِ کائنات اس کی مدد فرماتا ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے جس میں دیر سویر ضرور ہوتی ہے جس دوران انسان کا صبر ماپا جاتا ہے اور کام ہو جانے کی صورت میں یہ بھی پرکھا جاتا ہے کہ نیکی کا کام تھا یا بدی کا وہ کام جس کو ممنوع قرار دیا گیا ، نیکی کا کام ہونے کے بعد بندے نے خشوع و خضوع کے ساتھ پیدا کرنے والے کا شکر ادا کیا یا نہیں۔ مکمل طور پر خالق کے پیمانے پر پورا اترنے کے بعد وہ بندہ خالق کی نیکو کار بندوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر اس کی زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں جس کے سبب آئندہ کبھی بھی ابلیس اس کو ورغلا کر کوئی غلط کام نہیں کرا سکتا۔

جب خالقِ کائنات کے حکم کے بغیر ایک پتّہ نہیں ہِل سکتا تو نیک لوگوں کو اپنے سے ہم آہنگ رکھنے کے لئے بھی اسی کی ہدایت آتی ہے جس کے ذریعے انسان خالقِ کائنات کے احکامات کی تعمیل کے لئے سرِ تسلیم خم کرتا ہے اور پھر اس کے لئے اپنے جسم کے ہر عضو بشمول دماغ  اپنی مرضی کے مطابق عمل میں لانا قطعئی مشکل نہیں رہتا۔ یاد داشت کو بہتر بنا سکتا ہے جیسے دیگر جسمانی اعضاء کو ورزش کے ذریعے مضبوط کر پاتا ہے بالکل اسی طرح دماغ کے نیورون کو بار بار استعمال کے ذریعے مستعد و مضبوط کر سکتا ہے جو کہ یادداشت یا میموری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔

ایک  انسان کے فنگر پرنٹس دوسرے انسان کے فنگر پرنٹس سے مختلف ہوتے ہیں کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک انسان   کا جسمانی نظام دوسرے سے مختلف ہوتا ہے  یعنی بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمام انسانوں کے معدے ایک جیسا نظام ہضم رکھتے ہونگے لیکن تحقیق و تجربہ سے ثابت شدہ بات ہے کہ ایک انسان کا نظام ہضم تو کیا ، کوئی عضو دوسرے انسان کے  عضو جیسا کام نہیں کرتا یا دو مختلف انسانوں کے کسی بھی جسمانی عضو کو دوسرے انسان کے جسمانی عضو پر منطبق نہیں کیا جاسکتا ۔اسی دلیل کی مناسبت سے یہ بات بھی مکمل وثوق سے کہی جاسکتی ہے کی ایک انسان کو جو پیٹ کے درد کی دوا دی جائے وہ  ضرور دوسرے  انسان کے پیٹ کے درد کے لئے  بالکل وہی  اثرات مرتب کرے۔یہی وجہ ہے کہ ایک انسان کو ایک دوا سے فائدہ نظر آتا ہے تو دوسرے کو اسی دوا سے کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

اکثر سنا ہے کہ فلانے شخص کے اوپر کوئی سایہ ہے، اس کے اوپر جِن آگیا ہے یا وہ آسیب زدہ ہے۔ زیادہ تر اس قسم کے انسانوں  کا  علاج علماء سے دم کروا کر یا دیگر روایتی جادو ٹونوں کے توڑ  اور مزاروں وغیرہ پر لے جاکر کیا جاتا ہے ، بیشتر کو ان میں سے کسی ایک سے شفا بھی مل جاتی ہے لیکن میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ایسے انسان کے دماغ کی کیمسٹری میں انجانی وجوہات کی بابت  غیر معمولی بدلاؤ آجاتا ہے جو کہ کیمیکل دواؤں کے ذریعے واپس بہتری کی جانب لانے سے مریض رو بہ صحت ہو جاتا ہے ،  تجربہ اپنا پنا، واللہ عالم بالثواب۔

 

جمعہ، 1 ستمبر، 2023

سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ

 

بےشک اللہ سُنتا دیکھتا ہے

یہ جو خالقِ کائنات کا نام لے کر ہم قسم کھاتے ہیں ( خدا کی قسم)  تو سوچیں کہ اس کا نام لینے یا اس کو حاضر ناظر جان کر کوئی   بیان دینا تاکہ اس بیان کو سچ مانا جائے ، عقل کی بات ہے یا بے وقوفی کی ؟ جب خالقِ کائنات کی حقیقت کو تسلیم کر ہی لیا تو اس کو کہہ کر یا اس کا نام لے کر قسم کھانا کوئی ضروری نہیں ، ہم اس کا نام نہ بھی لیں یا ہم اس کو حاضر ناظر  نہ بھی کہیں  تو کیا  اس کی موجودگی سے کوئی انکار کر پائے گا؟

خالقِ کائنات ہر وقت و ہر جگہ موجود ہے لیکن ہم اس کو دیکھ نہیں پاتے محض اس کی نشانیوں سے اس کا احساس ہی کافی ہے لہٰذا ہم جو کچھ بھی کہیں خواہ وہ عمومی بیان ہو یا حلفی، دونوں صورتوںمیں وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے کیونکہ اس کی 99 صفات میں سے دو صفات "سمیع و بصیر" بھی ہیں۔ ہم کسی بھی وقت، کسی  بھی جگہ کچھ بھی بولیں  ، وہ سنا جارہا ہوتا ہے اور سننے والوں میں ہر وقت و ہر جگہ خالقِ کائنات ہوتا ہے تو پھر ہمیں ہر وقت و ہر جگہ سچ بولنا چاہئے۔اپنی کسی بات کا دوسرے کو یقین دلانے یا کسی عدالت میں تفتیشی افسر کے سامنے اپنا سچا بیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بغیر کسی اور شے کی مدد کے ہم جو بھی بیان دیں وہ سچ مانا جائے یہ ہمارے کلچر میں نہیں ، نہ صرف ہمارے ملک یا معاشرے میں بلکہ تمام دنیا میں اس کا رواج نہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمیں معاشرہ و ملک کی روایات کے مطابق وہاں کی مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بیان دینا پرتا ہے اور ساتھ ہی بیان ایک اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دینا پڑتا ہے جو پیپر عدالتوں میں ملتا ہے چند سِکّوں کے عوض۔ اس میں زبان بھی عام فہم کی نہیں ہوتی بلکہ رائج الوقت عدالتی زبان ہوتی ہے جو محض عدالتی عملہ یا جج ہی پڑھ سکتے ہی اور اس کی تشریح بھی وہی کر سکتے ہیں جس کی بابت اس میں  پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے ان سب کی روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے۔ اگر ہمارے منہ سے نکلا ہؤا ہر لفظ سچ ہو اور مانا بھی جائے تو بہت سے افراد کی روزی روٹی ختم ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا یہ رواج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور آئیندہ بھی رہے گا۔

گویا تمام دنیا میں جھوٹ سر چڑھ کر بولتا ہے کیونکہ اسی کا بول بالا ہے ۔ جھوٹ کو ہی سچ ثابت کرنے کے لئے بے شمار ترکیبیں اور طریقے ایجاد کئے گئے ۔ ہمارے منہ سے نکلا ہؤا ہر لفظ سچ ہو تو اس کو سچ ثابت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئے؟ ایک اور انسان کی بد نصیبی کہیں کہ تمام دنیا میں کسی سے اپنی مرضی کا بیان دلوانے کو بھی سچ اگلوانا کہا جاتا ہے جس کا ہر معاشرے میں ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ہر پُر تشدّد طریقہ جس کی تاب نہ لاکر ملزم وہ بیان دے دے جو مطلوب ہو، افسوس اس قدر ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ دور میں بھی آج تک نہائت پُر تشدد طریقوں سے بیان لئے جاتے ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا بھر میں کام کر رہی ہیں لیکن ان کی بھی بس روٹی روزی لگی ہوئی ہے کیونکہ طاقتور کے سامنے وہ دیگر طبقات کی مانند بے بس ہیں۔

 


 

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...