یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

اتوار، 22 اکتوبر، 2023

نگراں حکومت کو مشورہ

 

پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا لیکن اپنے ایک عمل سے دنیا میں پہلا نمبر ملک کہلانے کا جتنا مناسب موقع آج ہے  ایسا کبھی نہ میسر ہؤا۔کرپشن کے ناسور نے دنیا کے کسی ملک کو نہیں بخشاجس کے باعث انسانیت ایک شرمناک زوال کی جانب جس تیزی سے سفر کر رہی ہے اس کی مثال تاریخ میں شاید نہ مل پائے۔اس ناسور کا انسان تو شاید علاج کر ہی نہ پائے لیکن اس پر بند باندھنے کے مختلف طریقے اپنے اپنے انداز سے دنیا کے ہر ملک نے اختیار کئے۔ کسی نے اپنی  ڈکٹیٹر حکومت یا بادشاہت کو استعمال کیا تو کسی نے اس میں کمی لانے کا جمہوری طریقہ کار اپنایا، گویا کرپشن کی بھینس کو نہ تو لاٹھی سے ہانک کر  اس کا پورا دودھ نکالا جاسکا اور نہ ہی اس کو گولی مار کر ہلاک کرنے سے مسئلہ حل ہؤا البتّٰی اس بھینس کو نتھ ڈال کر باڑے میں کھڑاکر کے اس کا دودھ اس وقت تک نکالنے کا طریقہ سب سے زیادہ مہذب بھی ہے اور کارآمد بھی۔چنانچہ اپنے پیارے ملک پاکستان کی ذہین ترین نگران حکومت  جس طرح میاں نواز شریف صاحب کو جس عزت و وقار کے ساتھ بیرون ملک سے واپس اپنے ملک لے کر آئی ہے، اسی  شان و شوکت سے دو سال اس کو اس شرط پر حکومت کرنے کا اختیار سلیکشن کے ذریعے دے دے کہ اس کے تمام چیدہ چیدہ کرتا دھرتا تین سال  میں تمام  ناجائز دولت اپنے ملک کی تعمیر و ترقی پر خرچ کریں جس میں بنیادی عنصر تعلیم اور اس کے بعد صحت کے شعبے ہیں۔اگر ان تین سالوں میں پاکستان کی بنیادوں میں اپنی ناجائز کمائی بھی لگا دی گئی تو اللہ تعالیٰ ہم سب پاکستانیوں کی غلطیوں کو معاف کردے گا اور ہمارا ملک ترقی کی جانب گامزن ہو جائیگا انشاء اللہ۔

جناب میاں نواز شریف صاحب کے بعد بعد محترم آصف زرداری صاحب کو بھی اسی شرط پر تین سال ایک مرتبہ پھر حکمرانی دی جائے۔ ان چھہ سالوں میں عوام کو تمیز آجائے گی کہ اب الیکشن میں ووٹ کس کو دینا ہے کیونکہ کرپٹ حکمرانو ں کو اقتدار میں لانے کی ذمہ داری ہم عوام پر پوری پوری لاگو ہوتی ہے ورنہ اس کے بغیر ہمارا ملک اس قدر تنزلی کا شکار نہ ہوتا۔گویا چھہ سال میں دو بڑی بھینسوں کو نکیل ڈال کر دودھ نکال لیا اور اس کے بعد صحیح معنوں میں صاف و شفاف الیکشن کرا دئے تو اس سے بڑی ملک کی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے، لیکن اس کے بعد بھی یہی موجودہ نگراں حکومت کی ٹیم کسی نہ کسی انداز میں اپنے وطن کی نگرانی کرتی رہے تو اس کے بعد اس قوم کو دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ بھی آجائیگا اور ان چھ سالوں مین جو نسل تیار ہوگی وہ بھی اتنا شعور ضرور حاصل کر لے گی کہ ان کو اپنے ملک کی کس انداز میں خدمت کرنے کے  ساتھ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے انشاء اللہ۔  

 


 

جمعرات، 19 اکتوبر، 2023

اچھے انسان کی ضرورت کیوں آخر؟

 

کوئی انسان ایسا نہیں جس مین کوئی خامی نہ ہو لیکن عام طور پر سنجیدہ اور عقلمند لوگ اپنی برد باری کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی خامیوں کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے اور وہ دیگر سے بہتر انسان کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں۔ کوئی شخص کوشش بھی کرے کہ ان کو بدنام کرے یا کسی طرح نیچا دکھانا چاہے تو اس کو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ دیگر معاشروں کی نسبت بہتر معاشرہ کہلاتا ہے، اس کی ہر زاویہ سے خوبیاں ہی نظر آنے کے باعث دیگر معاشرے یا تو اس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں یا حسد کے باعث اس کے خلاف اس کی من گھڑت برائیوں کی ایک مہم چلاتے ہیں جس میں ان کو سو فی صد کامیابی تو حاصل نہیں ہوتی لیکن بہتر معاشرہ کو اپنے دفاع پر ضرور مجبور ہونا پڑ جاتا ہے۔ اس طرح خامیوں سے بھرپور معاشرہ کو تو کچھ سود مند شے حاصل نہیں ہو پاتی البتّیٰ بہتر معاشرہ کو اپنے دفاع کی کوشش میں اپنے آپ کو مزید بہتر بنانے کا موقع ضرور مل جاتا ہے۔

مختلف معاشروں کے مجموعے سے مل کر ہی اقوام وقوع پذیر ہوتی ہیں لیکن ایک انسان اور ایک معاشرہ کی نسبت اقوام کو اپنے آپ کو دیگر اقوام سے بہتر ثابت کرنے کے لئے کہیں زیادہ کاوشیں کرنا پڑتی ہیں۔ان قوموں کے کسی ایک گروہ کی لغزش یا جان بوجھ کر منفی حرکات کے باعث پوری کی پوری قوم کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے چنانچہ قوموں کے رہبروں کو اپنی قوم کا اچھا تاثر دینے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ ایسے کسی برے وقت سے بچنے کے لئے ایک رہ نما کو وقتاّ فوقتاّ قوم کے تمام نامی گرامی گروہوں کے ساتھ گفتگو اور ایک طرح کی تربیت کا عمل جاری رکھنا نہایت اہم ہو جاتا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ ایک انسان، ایک معاشرہ اور ایک قوم بھوک سے مر جاتی ہے لیکن مالدار ہوتے ہوئے اخلاقی طور پر گری ہوئی دیگر انسانون، دیگر معاشروں یا دیگر اقوام کے لئے ایک آسان شکار بن جاتی ہے۔ دنیا میں ہر قسم کا غلط کام ہونے کا سبب و منبع اسی قوم کو گردانا جاتا ہے اور یوں دیگر انسان، دیگر معاشرے و دیگر اقوام اس اخلاقی پستی میں دھنسی ہوئی قوم کو ہڑپ کرنے یا ملیامیٹ کرنے کے ایک ضروری کام میں مصروف ہو جاتے ہں ۔


 

پیر، 16 اکتوبر، 2023

اے خالقِ کائنات ہمیں آپﷺ کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرما۔

 

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو جو معلومات اپنے ماحول سے مل جائیں اس پہ قناعت کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں، کچھ ایسے ہوتے ہیں جو معلومات کے حصول کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور کچھ معلومات کا حصول اپنی زندگی کا مقصد بنا کر باقی سب دنیا کے کام اور اپنی ذمہ داریاں بھی بھول جاتے ہیں۔ ہمیں آج کے دور میں بیش بہا ذرائع ایسےمیسر ہیں کہ انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی معلومات کا طوفان اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے اب اس کے بعد بھی الّلہ نے کچھ انسان ایسے بنائے جو حاصل شدہ معلومات کو نہائیت غیر اہم شدہ گردان کر ان کو ذہن سے جھٹکنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جو ذرا سی معلومات ملتے ہی اس کھوج میں لگ جاتے ہیں کہ ان معلومات کا منبع کیا ہے،میرے ، میرے خاندان ، میرے معاشرے یا میرے ملک کو اس سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ، اس مقصد کے لئے وہ نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس وقت تک اس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں جب تک اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے، مقصد کی ناکامی میں ذرا بھی بددل نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی اس عادت کو چھوڑ پاتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب ان کا ظرف معلومات کے انبار سے لبالب بھر کر چھلکنے لگتا ہے، ان کی معلومات کو مزید پھیلانے کی کوشش کو ان کے خاندان کے ، ارد گرد معاشرے کے لوگ حتّیٰ کہ ان جیسے لوگ بھی ان کی تعریف تو درکنار ان سے حسد فرماتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کی معلومات کا فروغ زیادہ چاہتے ہیں۔اس طرح کی کیفیت سے دوچار ہونے کے بعداپنی تمام جمع شدہ معلومات کو غیر اہم سمجھتے ہوئے وہ انسان مایوسی کا شکار ہونے لگتا ہے ، اس کیفیت کے باعث اس کے اپنے اس کو نفسیاتی علاج کی جانب راغب کرتے ہیں، علاج اگر ڈھنگ کا ہو جائے تو صحیح ورنہ ان لوگوں کو عضوِ معطل کی مانندمعاشرے میں کوئی مقام نہیں مل پاتا، یوں ان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔

اندازہ لگائیے حضرت محمّدﷺ کا جن کے اوپر خالقِ کائنات نے اپنی تمام کائناتوں کی معلومات و راز افشاء کئے، حد تو یہ ہے کہ ازل سے ابد اور اس کے بعد آخرت کی ابدی زندگی کے بارے میں بھی آگاہی دی، کتنا ظرف ہوگا آپﷺ کا کہ نہ صرف تمام جہانوں کو اپنے اندر سمویا بلکہ ایک عام انسان کی زندگی میں عائد ہونے والی تمام تر ذمہ داریاں بھی پوری کرکے دکھائیں، مزید برآں دشمنوں کو برداشت کرنا، ان سے ہر طرح نمٹنا اور ساتھ ہی اپنوں کے ظلم و ستم برداشت کرتے ہوئے ایک فلاحی معاشرہ و شہرِمثالی بنا کر تمام دنیا کے لئے مشعل راہ چھوڑ جانا، سبحان الّلہ، سبحان الّلہ۔

اے خالقِ کائنات ہمیں آپﷺ کے نقشِ قدم پہ چلنے کی توفیق عطا فرما۔


 

جمعرات، 5 اکتوبر، 2023

انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے

 

انسان نے اپنی قدر و منزلت خود کم کی اور مزید کرتا چلا جارہا ہے۔ بعض مرتبہ مزاح میں کوئی بات کی ہوئی اصل بات سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا           مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اور مزاح نگار نے اس کو یوں پیش کیا:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا           رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

طنز و مزاح میں بھی جو بات منہ سے نکلتی ہے وہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوتی ہے اسی لئے اکثر اصل بات سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

قبل از تاریخ کے انسان نے پہلے طاقت کے بل بوتے پر زمین کے ٹکڑوں پر قبضہ کرکے بنی نوع انسان کو قبائل میں تقسیم کیا پھر دولت کے بل بوتے پر اور جب کوئی اور ہتھیار نہ مل سکا تو مذہبی و سیاسی بنیادوں پر تقسیم روا رکھی جو تا حال جاری ہے۔ عقل و دانش کی عطا میں فراوانی کو مثبت انداز میں انسانیت کی خدمت کے مقابلے میں انسانیت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک سُراب کی مانند اس راستہ پر لگا دیا جس میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ شہرت کا ایسا چسکا ملایا کہ بات انٹرنیٹ سے شروع ہوکر واٹس ایپ گروپس تک آن پہنچی تا آنکہ پسند و ناپسند کے زہر نے ان گروپس کو تقسیم در تقسیم کیا، شہرت کی چمک میں حسد کے کینسر نے وسیع الدماغی اور وسیع القلبی کو تقریباً بھسم کر دیا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری نے انسانی عظمت کو فرعون کی ممی بنا کر اونچی اونچی احرامِ مصر نما پتھروں میں دفن کر دیا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے۔

خدا بننے کا انسان کا شوق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا مع سوائے عظیم پیغمبران کے جن کو عام انسانوں سے کہیں زیادہ اختیارات عطا کیے گئے اور حد تو یہ ہے کہ معجزات بھی عطا کئے لیکن انھوں نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ معجزات اس بات پر قائل کرنے کے لئے عطا ہوئے کہ عام انسانوں کو باور کرایا جاسکے کہ ہمیں نبی یا رسول منتخب کرکے اس لئے بھیجا تاکہ ہم یہ بتا سکیں کہ خالقِ کائنات “ایک” ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ حضرت عیسیًٰ کو تو مردے کو جِلا بخشنے کی خاصیت بھی عطا ہوئے لیکن ایک پرندے کو ذبح کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑیوں پر پھینک کر آنے کے بعد آپ نے اس کو پھر سے صحیح سالم اور زندہ کر دینے کے باوجود بھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ میں خدا ہوں جبکہ قدیم مصری تہذیب میں بے پناہ طاقت و اختیارات ملنے کے بعد وقت کے فرعونوں نے اپنے آپ کو خدا منوانے کے لئے ان مٹ کوششیں کیں، اسی طرح قدیم یونانی تہذیب میں لامحمود طاقت و اختیارات پالینے کے بعد عام عوام کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کو دیوتا کہیں یا دیوی کہیں اور ان کے آگے جھکیں۔

یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری و ساری ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر تو بت توڑ ڈالے گئے لیکن اس کے باہر آج کے بادشاہ کا حکم نافذالعمل ہے کہ اس سے ملاقات کے لئے آنے والے ہر شخص کو اس کے سامنے سر جھکانا لازم ہے۔ سومنات کا مندر تو ڈھا دیا گیا لیکن گوتم بدھ جیسے عظیم انسانوں کے علاوہ جانوروں کے بُت بنا کر پوجنا ثقافت نہیں بلکہ عبادات کا ایک بنیادی اور لازمی عنصر ہے۔ انگلینڈ کی ملکہ سے ملاقات کرنے والے ہر شخص کو بھی اس کے سامنے جھک جانا لازم ہے، جاپان کے بادشاہ کے سامنے جھکنے کی روایت معاشرہ میں اس قدر جڑ پکڑ گئی کہ وہاں آج بھی عام لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور جدا ہوتے وقت ایک دوسرے کے سامنے اس وقت تک سر جھکاتے رہتے ہیں جب تک تھک نہ جائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عموماً قبروں و مزارات کے سامنے جھکنا کوئی معیوب نہیں بلکہ لازم سمجھا جاتا ہے اور تو اور کوئی الّلہ کا نیک و برگذیدہ بندہ نہ بھی ہو لیکن کسی قبیلہ کا سردار ہو یا بڑا سیاستدان، اس کی زندگی میں اور مرنے کے بعد اس کی قبر پر حاضری دینے پر تو جھکنا ہی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے نام کے ساتھ “جئے” لگانا ایک معروف روایت بن چکی ہے گویا بت پرستی آج تک ختم نہ ہوسکی اور لگتا ہے یہ شریر انسان اگلے جہان میں بھی کوئی نہ کوئی اپنی پسند کا شرک نکال لے گا۔

 


 

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...