یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

اتوار، 1 مئی، 2016

غور طلب

 مذہب ، عقیدے یا  نظریئے کی بحث میں جائے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام مذاہب، تمام عقائد و تمام نظریات  نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بنیادی بُرایئاں مثلاً جھوٹ بولنا یا چوری کرنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ۔ ان برائیوں کا مالک انسان اچھا شمار نہیں ہوتا اسی طرح ایک ایک آفاقی حقیقت اور ہمہ گیر سچائی پر منحصر تمام بنیادی اچھی و بری باتوں پر تمام مذاہب نے اتفاق کیا کیونکہ بنیادی مقصد ایک بہتر انسان کی تعریف طے کرنا تھا۔ جب ایک بنیادی نکتہ پر تمام مذاہب کا اتفاق تھا تو ایک ہی مذہب کیوں نہ رہا؟ اختلاف کہاں سے اور کیونکر شروع ہؤا؟ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں، ایک تو نا دانستگی میں اور دوسری وجہ بد نیتی ہو سکتی ہے۔ نادانستگی عقل و شعور پر جذبات کے غالب آجانے کیوجہ سے وجود میں آتی ہے، یہ جذبات انتہائی درجہ کی محبت و عقیدت کی کیفیت میں پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً کسی شخصیت سے لگاؤ کیوجہ سے ہم اس کی تعریف میں جب زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیں تو غیر ارادی طور پر کئی الفاظ ایسے کہہ ڈالتے ہیں جو ایک مناسب فہم و فراست والا انسان دانستہ طور پر نہیں کہنا پسند کرتا۔ پس یہیں سے اختلافِ رائے شروع ہو جاتا ہے۔ 

خالقِ کائنات کو کچھ بھی نام دے دیں نہ تو اس کو کوئی فرق پڑیگا اور نہ ہی نام دینے والے کو۔ ہاں اگر فرق پڑیگا تو اس بات سے کہ ہم اس کی بات پر عمل نہ کریں یعنی اپنے باپ کا نام تو میں نہایت ادب کے ساتھ لیکر لوگوں کو بتاؤں کہ میرے والدِ محترم کا اسمِ گرامی جناب سید عترت علی صاحب ہے لیکن ان کی ایک بھی نصیحت پر عمل نہ کروں اور معاشرہ یہ کہے کہ میرے قول و فعل میں تضاد ہے ، ہر وقت اپنے والد صاحب کی تعریفوں کے پُل باندھوں اور میرے اعمال میں قطعئی مماثلت نہ ہو تو لوگ میرے اس دعوے کو مسترد کر دیں گے کہ میں سید عترت علی کا بیٹا ہوں۔ لہذا میں خالق کائنات کا وجود ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ نہایت ادب و احترام کے ساتھ اس کا نام اور خصوصیات بھی بیان کروں لیکن میرا اپنا ایک بھی عمل اس کی منشا کے مطابق نہ ہو تو مجھے نہ تو کوئی حق پہنچتا ہے کہ میں اس کے بارے میں کسی قسم کی تبلیغ کروں اور نہ اپنے آپ کو اس کا دعویدار کہنا زیب دیتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خالق کی نصیحت کیا ہے اور وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اس موضوع کو سمجھنے کیلئے جہاں بے شمار لوگوں نے اپنا اپنا فلسفہ بیان کیا ہے تو جو کچھ میری سمجھ میں آیا وہ بیان کرنے کی جسارت چاہونگا:-
بچوں کی سالگرہ یا دیگر تفریحی تقریبات میں استعمال ہونے والا غبارہ ایک بہترین مثال ہے جس کو جسم و روح پر منطبق کیا جا سکتا ہے۔ہوا بھرے بغیر غبارہ ہمارا جسم ہے اور جب اس میں ہوا بھر دی جائے تو گویا جسم میں روح پھونک دی گئی۔ جس لمحے تک روح جسم میں 
موجود رہے گی یہ تندرست و توانا رہیگا اور روح پرواز کرتے ہی محض ایک ڈھانچہ رہ جائیگا۔ غبارہ کے اندر ایسی گیس بھر دی جائے جو عام ہوا سے ہلکی ہو اور زمین پر رہنے کے بجائے اوپر کی جانب پرواز کرے  تو پورا کا پورا غبارہ اوپر کی جانب پرواز کرتا ہے بعینئیہ پاکیزہ روح کا مالک جسم زمین پر رینگنے کے بجائے آسمانوں کی جانب پرواز کرتا ہے۔ سب سے پہلے انسان کہاں سے نمودار ہؤا؟ ہر مؤرخ و فلسفی کا اپنا اپنا  خیال  و اندازِ بیان ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو تاریخی شہادت یا فلسفہ ثابت بھی نہ ہو اور زبان زدِ عام ہو جائے اس کو ہی مستند سمجھ لیا جاتا ہے بالکل ایسے جیسے کسی نے کہا کہ میں خالقِ کائنات کا خاص بندہ ہوں تو فوراً ہی دوسرے نے اس کی بات کو تسلیم نہیں کر لیا بلکہ اپنی تسلی کے لئے اس نے اس شخصیت کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کرنا شروع کردیا جب اس کو تھوڑا تھوڑا یقین ہو چلا تو اس نے ایک اور شخص سے کہا ، اس طرح یہ عمل چل پڑا اور جب ایک خاصی تعداد پہلے شخص کے دعوے کے بارے میں شک کی کیفیت سے نکل کر یقین کی کیفیت میں داخل ہونے لگی تو دعوہ کرنے والے شخص کا قول و فعل، حرکات و سکنات ہر لمحے لوگوں کی کڑی نگرانی میں رہنے لگا اور یہ چند روز کی بات نہیں بلکہ دعوے پر ایمان لانے کا حتمی اعلان کرنے میں سالوں بھی لگے لیکن یہ سب کچھ ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ دعوہ کرنے والا شخص اپنے قول و فعل اور حرکات و سکنات کے ذریعے مکمل طور پر ثابت کرسکے کہ وہ عام لوگوں سے کس طرحح مختلف ہے اور خالق کا خاص بندہ ہے حالانکہ اس میں بھی خالق کی وہی روح (ہوا) بھری گئی ہے جو دوسروں میں۔ روح کی پاکیزگی اور پراگندگی سے پیشتر ہمیں یہ دیکنا ہو گا کہ خالق کائنات کی تھوڑی تھوڑی روح ہر انسان میں پھونکنے کے پیشِ نظر ایک انسان دوسرے سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے؟  
اس سے پیشتر خالقِ کائنات کی تعریف اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک غیر مرئی سائنسدان ہے اور چونکہ وہ خود ایک ایسا مرکب ہے جس میں مثبت و منفی دونوں عناصر  موجود ہیں اور بوقتِ ضرورت ان کو استعمال کرتا ہے، نیز اس کام میں اس کا کوئی اور شریک نہیں ہوتا۔( ہم انجانے میں ابلیس یا شیطان کو ایک باغی کی حیثیت میں اصل میں اس کو خالقِ کائنات کے کاموں میں مداخلت کا ذکر کرکے خواہ مخواہ شریک ٹھہرا رہے ہوتے ہیں)  اپنی اس ہی بنیادی خصوصیت کو عملی جامہ پہنا کر اس کائنات کی تخلیق کی اور یہ مثبت و منفی عناصر پر ہی تمام نظام قائم و دائم ہے۔ اس کا سب سے بنیادی ثبوت یہ ہے کہ اچھے نتائج پر  تو ہم بڑے فخر و یقین کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ "دیکھا  یہ ہم نے کیا" اور برے یا ناکامی کے نتائج پر اپنی غلطی کا اقرار کرنے کے بجائے بڑی بے بسی کے ساتھ اور بادلِ نخواستہ اپنی تشفّی و دوسروں کے سامنے اپنی جھینپ مٹانے کیلئے کہتے ہیں "جو اُس کی مرضی یا وہ بہتر کریگا"۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اگر ہم پانی میں چینی ملائیں تو وہ میٹھا ہوگا اور اگر نمک ملائیں تو نمکین، یہ تو سیدھی سیدھی سائنس ہے جو اس غیر مرئی سائنسدان نے مرتب کر دی ہے۔ چنانچہ اب یہ سمجھنے میں آسانی ہو گی کہ اچھا اور برا انسان کیسے وجود میں آتا ہے، ماں کے پیٹ سے نہیں بلکہ اپنے اعمال سے۔  
خالقِ کائنات تو سب سے بڑا  غیر مرئی سائنسدان ہے عقلِ کُل بھی ، قادرِ مطلق بھی اور طاقتور ترین بھی لہٰذا اس کو اپنا تجربہ یا کوئی کام انجام دینے سے پہلے نہ تو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے، نہ کسی ریفرنس کی اور نہ ہی نتائج کی کسی قسم کی پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی وہ لامحدود اختیارات کا مالک ہے۔ اس نے اپنی روح کا کچھ حصہ ماں کے پیٹ میں بے جان لوتھڑے میں پھونک کر جان ڈالی تو اُس ہی کی کچھ خصوصیات اس جاندار میں آ گئیں   بلکہ تمام ہی آ گئیں  ماسوائے چار  کے:-
 ۱۔ انسان غیر مرئی نہیں ہو سکتا۔
۲۔ انسان عقلِ کُل نہیں ہو سکتا۔
۳۔ انسان قادرِ مطلق نہیں ہو سکتا۔
۴۔ انسان طاقتور ترین نہیں ہو سکتا۔
مزید یہ کہ ایک لا محدود اختیارات کا مالک جو خالق کائنات بھی ہو وہ اپنی ہی تخلیق کو اپنے مد مقابل کیسے کھڑا کر سکتا ہے؟ لہٰذا اُس نے اپنی ایک غیر مرئی روح کو کسی حد تک تحفظ مہیا کرنے کیلئے ایک اور غیر مرئی عنصر انسانی ڈھانچے میں نصب کردیا جس کو ضمیر کہتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو کوئی بھی کام یا تجربہ کرنے سے پہلے بھی بتا تا ہے کہ اس ڈھانچہ میں موجود روح گھائل ہو گی یا نہیں اور کام یا تجربہ مکمل ہو جانے کے بعد بھی۔ سادے الفاظ میں روح پر اثر انداز ہونے والے مثبت و منفی اثرات کی نشاندہی کرنا اس کی ذمہ داری ہے اور اسی کے نتیجہ میں یہ طے ہو تا ہے کہ ایسا  ضمیر، ایسی روح اور ایسے ڈھانچہ پر مشتمل انسان اچھا ہے یا بُرا۔

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...