یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

پیر، 31 جولائی، 2023

دیکھو ہم ہیں فطرت کے غلام

 
 اپنا عمل فطرت کے نظام سے ہم آہنگ کرنے اور حالات کی رو میں بہہ جانے میں بہت تھوڑا نہیں بہت بڑا فرق ہے۔

ایک لوہے کی چادر کا شیڈ  نیچے ریسٹورنٹ کے تندور میں کچرا گرنے سے بچانے کے لئے لگا تھا۔ سب  سے اوپر والے فلیٹ سے پانی گرنے کے باعث شور ہوتا  جس کو کم کرنے کے لئے پلائی ووڈ کی شیٹ اس جگہ رکھ دی گئی جہاں پانی گرتا۔پلائی کی شیٹ پر بھی کچرا گر رہا ہے لیکن پلائی ووڈ جس مرکب سے بنی ہوتی ہے وہ فطرت نے پودے اُگنے کے لئے زرخیز بنایا یہ تب معلوم پڑا جب بغیر کوئی مٹی، کھاد یا بیج ڈالے گھاس پھوس و دیگر پودے اس پر اُگنا شروع ہو گئے۔حالات کا  تو تقاضہ تھا کہ اس جگہ جہاں کچرا گر رہا ہوں، اور پانی گر رہا ہو وہاں کچرے کی بدبو دار کیچڑ اور کاہی ہونی چاہئیے تھی لیکن پودوں اور گھاس پھوس نے فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے عمل کیا اور حالات کے برعکس ان سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنا پنا سر اوپر نکالا اور آج پلائی ووڈ کی  خاصیت کے ساتھ مل کر کچرے کو شکست دے دی۔اس جگہ اور ارد گرد کے ماحول کو خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جو کہ اشرف المخلوقات کے لئے ایک نایاب مشعلِ راہ ہے۔ دیکھنے میں اس قدر ناتواں و نازک پودے آکر بغیر بیج کے کہاں سے نکل آئے اور ابھی تک سخت گرمی میں ہرے بھرے لہلہا رہے ہیں گویا چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں  "دیکھو ہم ہیں فطرت کے غلام اور ہمیں فخر ہے فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے پر۔



 

بدھ، 19 جولائی، 2023

ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنا پڑے گا

 
 

اول تو ہمیں کسی پر نکتہ چینی کا حق نہیں لیکن اگر اختلاف کا اظہار کرنا ہی ہو تو اس انداز میں کیا جائے کہ سامنے والی کی عزت و وقار کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھا جائے، کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہ ہو کہ جس سے اس کی تضحیک ہوتی ہو اور ساتھ ہی ہماری اپنی دلیل میں اتنا وزن ہو کہ ہماری بات کو سنا جائے۔ جب نہایت ہی مدلّل گفتگو ہو گی تو یقیناً بات سنی و سمجھی جائے گی اور یہی مطمع نظر ہونا چاہئے کسی بھی گفتگو کا۔

دنیا کے بارے میں تبصرہ اسی کا قابلِ قبول ہوگا جس نے دنیا دیکھ رکھی ہو اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ  کائنات، ربُّ العالمین اور رحمتُ العالمین کے بارے میں بھی یہی دلیل لاگو ہو گی۔ تسخیرِ کائنات تو سائنسداں اپنے ذمہ لے کر پایئہِ تکمیل تک پہنچانے کا کام کر ہی رہے ہیں، رحمتُ العالمین کو جن انسانوں نے دیکھ رکھا تھا یا ملاقات کی۔ ربُّ العالمین کو نہ کسی نے دیکھا اور نہ ہی ملاقات کی سوائے حضرت موسیٰ کے اور وہ بھی ملاقات کی ایک جھلک کی تاب نہ رکھ پائے۔پھر بھی انھوں نے جو بیان کیا اس پر ہمارا مکمل یقین ہے۔یہ بہت زیادتی ہوگی اگر ہم بزرگانِ دین کی باتوں کو چیلنج کرنے بیٹھ جائیں، انھوں نے بہت محنت کی ہو اور دین کے بارے میں علم ہم تک پہنچانے میں بہت محنت کی ہے، ہمیں اختلافِ رائے کا حق ضرور ہے لیکن نکتہ چینی کا بالکل بھی نہیں۔ اس لئے کہ ہمارے پاس ان جتنی معلومات ہی نہیں۔

اسی طرح سائنس دانوں نے بے پناہ محنت و ریسرچ کے بعد ہم تک جو معلومات پہنچائی ہیں اگر ہم ان سے اختالاف رکھتے ہوئے نکتہ چینی کریں گے تو ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنا پڑے گا۔

 



 

منگل، 18 جولائی، 2023

دنیا کو دیکھنے کا انداز بدلیں

 
 نزدیک اور دور کی عینک کا نمبر جتنی جلد تبدیل ہو اتنا ہمارے حق میں بہتر ہے۔ نزدیک کی نظر بہتر ہو تو اپنے ارد گرد واقع قریبی اشیاء کو اچھی طرح سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں ایسے انسان بھی شامل ہیں جن کی حالتِ زار کو ہم اکثر نہ سمجھنے کی باعث نظر انداز کر جاتے ہیں جب کہ وہ ہماری توجہ کے شدید مستحق ہوتے ہیں۔لیکن اس میں تمام قصور ہمارا نہیں ہوتا بلکہ ان قریبی لوگوں کا صبر و برداشت ان کی پریشانی کے اظہار کے آڑے آ جاتا ہے یا پھر یہ قریبی ان فاصلہ والوں کے شور شرابے کی زد میں دب جاتے ہیں جو بلا وجہ اپنی جانب متوجہ کرکے ہماری ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ بہر حال کسی بھی مسئلہ کا حل یہ نہیں ہؤا کرتا کہ ہم سارا نظام ہی بدل دیں بلکہ اس کے لئے ہمیں اپنا آپ بدلنا ہوتا ہے۔ موجودہ بیان کردہ مسئلہ  کا حل یہ ہے کہ ہم دنیا کو دیکھنے کا انداز بدلیں جس میں قریبی اشیاء ہمیں شفاف نظر آئیں اور دور والی بھی بشمول انسانوں کے۔جب ہمارا دیکھنے کا انداز بدلے گا تو ایک دن ضرور آئیگا کہ ہمارا سوچنے کا انداز بھی بدل جائے جو کہ مثبت کی جانب ہو تو بہتر ہے ورنہ منفی کی جانب تو دنیا ساری ہی جارہی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ منفی سوچ کی وجہ سے ہم انجانے میں اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ یقین جانئے کسی ذیادتی پر زیادتی کرنے والے کو معاف تو کر کے دیکھیں، بہت لطف آئیگا زندگی کا۔جب ک اس کے برعکس اس کے غصہ میں کڑھ کڑھ کر اپنا خون جلا کر آپ کو اندازہ ہوگا کچھ عرصے بعد کہ آپ نے اپنی صحت کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ عفو و درگذر کے علاوہ برداشت کے نتائج تو نہایت شاندار ہوتے ہیں دراصل کسی کو معاف کردینا تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اندر برداشت ہو۔

خالقِ کائنات کا ابلیس کی نافرمانی پر اس کو نظر انداز کرنا بھی ایک برداشت کی صورت ہے لیکن اس کی معافی ہوتی ہے یا نہیں یہ خالقِ کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔ ویسے بھی ابلیس نے روزِ اول سے اس زمین پر جو کہرام مچایا ہؤا ہے، اس کے شر سے اپنے آپ کو بچانا ہماری اپنی ذمہ داری ہے جس کا پھل بھی ہم ہی کھائیں گے یعنی ابلیس کی منفی سیاست کو چھوڑ کر ہم مثبت اندازِ فکر اپنائیں گے تو نہ صرف ہمارے گھر کا ماحول اچھا ہوگا بلکہ پورا معاشرہ ہی بہتر ہوتا چلا جائیگا۔

ذرا غور کریں کہ قادرِ مطلق کو بڑھاپے میں ہماری نظر کمزور کیوں کرنی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے تاکہ ہمیں اپنے بچپن کے ساتھیوں کے چہرے پر جھریاں نظر نہ آئیں اور ہم ان کو اپنے سے زیادہ ضعیف نہ سمجھیں۔ جوانی کے دور کی بیوی ہو یا محبوبہ، دونوں ہی ہمیں جوان ہی نظر ائیں۔

 

 


 

پیر، 17 جولائی، 2023

الّلہ ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 
شعور نہ ہو تو بہشت ہے یہ دنیا
بڑی عذاب میں گذری ہے آگہی کے ساتھ
اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہی نہیں کہ ہوائی جہاز کیسے ہوا میں اڑتا ہے اور اس میں کیا کیا خرابی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ نیچے زمین پر گر سکتا ہے یا پھر موسم کی خرابی کس درجہ کی ہو تو ہوائی جہاز کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے تو ایسے شخص کو تو جہاز میں بیٹھنے کے بعد خوف بالکل محسوس نہ ہوگا لیکن ایک ایسے شخص کو جس کو اوپر بیان کرد سب باتوں کا علم ہو تو اس کو مقابلتاً جہاز کے گرنے کا خوف ذرا زیادہ ہوگا۔ ایک اور مثال ہے کہ تاریخ کی آگہی زیادہ ہو نے سے فکر و پریشانی یا تردد کے اسباب میں موجودہ حالات سے زیادہ ان حالات کے پس منظر میں جو تاریخ چھپی ہو اس کے باعث اس کی پریشانی و مایوسی کا دارو مدار ہوتا ہے مثلاً سومنات کے مندر کا بُت کیوں اور کس نے توڑا اور اس کے پیچھے پوشیدہ تاریخ کیا ہے۔ یعنی اگر میرے علم میں ہو کہ خانہ کعبہ کے اندر رکھے بتوں کو گرانے کا حکم کیوں دیا گیا، اس کے محرکات کیا تھے اور اس کے آنے والے وقت پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، یہ تمام آگہی ہو تو انسان ایک نتیجہ تو اخذ کر ہی سکتا ہے کہ جن ہستیوں کے احکام کے مطابق عمل کرتے ہوئے خانہ کعبہ کے اندر بتوں کو گرایا گیا، ان ہی کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سومنات کے مندر کے بُت ڈھائے گئے لیکن مسخ شدہ تاریخ یا کسی خاس شعبئہ فکر کی لکھی ہوئی تاریخ اس کو یوں بیان کرے کہ سومنات کے مندر کے اندر سونے، ہیرے و جواہرات کے چڑھاوے لوٹنے کی خاطر بُت گرائے گئے تو پڑھنے والے کا ردِّ عمل بالکل مختلف ہوگا۔
گویا گزشتہ تاریخ کی آگہی کے اثرات کا انحصار مورخ پر زیادہ ہے کہ وہ کس قسم کی تاریک لکھتا ہے، لہٰذا قاری کو صحیح جانکاری کے لئے اپنی سی تحقیق لازم ہے۔ اس میں مزید اہم اضافہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر قاری کو اپنی جانکاری اندازے کے تحت یا بِنا ثبوت آگے پھیلا دینا ایک مناسب عمل نہیں بلکہ پہلے اپنا مکمل اطمینان اور اس کے تمام ثبوت اس کے ساتھ منسلک ہونا ایک مستحسن قدم ہوتا ہے تاکہ مورخ کے بارے میں ہر قاری ایک مضبوط اور قابلِ بھروسہ تاثر قائم کر سکے۔
سنی سنائی باتوں یا واقعات کو بنا تحقیق آگے پھیلانے سے بہتر ہے کہ ایسے معاملات میں انسان خاموشی اختیار کرے یا برملا اپنی لاتعلقی کا اظہار کرکے نتیجہ میں رونما ہونے والے اثرات کی ذمہ داری سے مبرّا ہو جائے۔
الّلہ ہمیں جھوٹ کے شر سے محفوظ رکھے۔کسی بات کی آگہی ہونے کے بعد اس کا حقیقت پہ مبنی ہونا بھی ثابت ہو جائے تو پھر اس کے بارے میں شک و شبہ میں گرفتار رہنے سے زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔الّہ ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

ہفتہ، 15 جولائی، 2023

ہر غروب ہونے والا سورج زوال کی علامت نہیں ہوتا

 

 

یہ درست ہے کہ میں نے ہمیشہ لکھا اور کہا کہ "ایک زوال سا زوال ہے" لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر غروب ہونے والا سورج زوال کی علامت ہو اور اس میں بھی شک نہیں کہ سورج غروب ہونے کے بعد جو رات شروع ہوتی ہے وہ ایک سیاہ رات ہوتی ہے لیکن یہ سیاہ رات کئی انسانوں کے لئے عروج کا سامان لے کر آتی ہے۔ بے انتہا کارخانے اور کاروبار لوگوں کے لئے اس لئے سیاہ رات میں  چلتے ہیں کہ وہ دن دہاڑے اس قسم کا کام نہیں  کر پاتے۔ بے شمار ایسے چرند پرند ہیں جو رات کی تاریکی میں اپنی خوراک کے شکار کے لئے نکلتے ہیں کیونکہ دن کے اجالے میں ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

جُگنوکے لئے رات کی تاریکی شروع ہوتے ہی اس کی دنیا کا عروج شروع ہوجاتا ہے ، اس کی چمکنے کی صلاحیت اپنے شکار کو بلانے کا ایک ہتھیار ہے اور یہی صلاحیت کسی دوسرے کوڈ میں اپنی مخالف جنس کو بلانے کا ایک انداز بھی۔ دن کی روشنی میں جگنو کی چمک کیونکہ ماند پڑ جاتی ہے اس لئے دن کی چکا چوند کو جگنو کی دنیا کا زوال کہہ سکتے ہیں۔ دیگر بے شمار جنگلی مخلوق ایسی ہے جس کو سورج کی روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا اور رات ہوتے ہی اس کی آنکھیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور مکمل سیاہ رات میں اس کی نظر بالکل صاف اور دور دور تک کام کرتی ہے جس کے باعث دیگر مخلوق کا شکار ہونے سے بچنا بھی آسان ہو جاتا ہے اور اپنا شکار تلاش کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا۔

سورج غروب ہونے کے بعد ہی ستارے اور دیگر سیارے ہمیں نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے انسٹرومنٹس دریافت ہونے سے پہلے بحری سفر کرنے والے کاروباری لوگ ستاروں کی مدد سے اپنا راستہ طے کیا کرتے تھے جس کے لئے قطب ستارہ سب سے زیادہ مشہور تھا جو آج بھی رات شروع ہوتے ہی سب سے پہلے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ رات کی سیاہی نہ ہوتی تو چاند سے متعلق تمام تشبیہات اور شاعری کا وجود ناممکن تھا، مزید برآں چاند گرہن سے وابسطہ عاملوں کا کاروبار وجود میں نہ آتا۔


بدھ، 12 جولائی، 2023

جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری

 



انسان نے اپنی قدر و منزلت خود کم کی اور مزید کرتا چلا جارہا ہے۔ بعض مرتبہ مزاح میں کوئی بات کی ہوئی اصل بات سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اور مزاح نگار نے اس کو یوں پیش کیا:

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

طنز و مزاح میں بھی جو بات منہ سے نکلتی ہے وہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوتی ہے اسی لئے اکثر اصل بات سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

قبل از تاریخ کے انسان نے پہلے طاقت کے بل بوتے پر زمین کے ٹکڑوں پر قبضہ کرکے بنی نوع انسان کو قبائل میں تقسیم کیا پھر دولت کے بل بوتے پر اور جب کوئی اور ہتھیار نہ مل سکا تو مذہبی و سیاسی بنیادوں پر تقسیم روا رکھی جو تا حال جاری ہے۔ عقل و دانش کی عطا میں فراوانی کو مثبت انداز میں انسانیت کی خدمت کے مقابلے میں انسانیت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک سُراب کی مانند اس راستہ پر لگا دیا جس میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ شہرت کا ایسا چسکا ملایا کہ بات انٹرنیٹ سے شروع ہوکر واٹس ایپ گروپس تک آن پہنچی تا آنکہ پسند و ناپسند کے زہر نے ان گروپس کو تقسیم در تقسیم کیا، شہرت کی چمک میں حسد کے کینسر نے وسیع الدماغی اور وسیع القلبی کو تقریباً بھسم کر دیا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری نے انسانی عظمت کو فرعون کی ممی بنا کر اونچی اونچی احرامِ مصر نما پتھروں میں دفن کر دیا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے۔

خدا بننے کا انسان کا شوق ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا مع سوائے عظیم پیغمبران کے جن کو عام انسانوں سے کہیں زیادہ اختیارات عطا کیے گئے اور حد تو یہ ہے کہ معجزات بھی عطا کئے لیکن انھوں نے کبھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ وہ معجزات اس بات پر قائل کرنے کے لئے عطا ہوئے کہ عام انسانوں کو باور کرایا جاسکے کہ ہمیں نبی یا رسول منتخب کرکے اس لئے بھیجا تاکہ ہم یہ بتا سکیں کہ خالقِ کائنات “ایک” ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ حضرت عیسیًٰ کو تو مردے کو جِلا بخشنے کی خاصیت بھی عطا ہوئی لیکن ایک پرندے کو ذبح کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑیوں پر پھینک کر آنے کے بعد آپ نے اس کو پھر سے صحیح سالم اور زندہ کر دینے کے باوجود بھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ میں خدا ہوں جبکہ قدیم مصری تہذیب میں بے پناہ طاقت و اختیارات ملنے کے بعد وقت کے فرعونوں نے اپنے آپ کو خدا منوانے کے لئے ان مٹ کوششیں کیں، اسی طرح قدیم یونانی تہذیب میں لامحمود طاقت و اختیارات پالینے کے بعد عام عوام کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان کو دیوتا کہیں یا دیوی کہیں اور ان کے آگے جھکیں۔

یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری و ساری ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر تو بت توڑ ڈالے گئے لیکن اس کے باہر آج کے بادشاہ کا حکم نافذالعمل ہے کہ اس سے ملاقات کے لئے آنے والے ہر شخص کو اس کے سامنے سر جھکانا لازم ہے۔ سومنات کا مندر تو ڈھا دیا گیا لیکن گوتم بدھ جیسے عظیم انسانوں کے علاوہ جانوروں کے بُت بنا کر پوجنا ثقافت نہیں بلکہ عبادات کا ایک بنیادی اور لازمی عنصر ہے۔ انگلینڈ کی ملکہ سے ملاقات کرنے والے ہر شخص کو بھی اس کے سامنے جھک جانا لازم ہے، جاپان کے بادشاہ کے سامنے جھکنے کی روایت معاشرہ میں اس قدر جڑ پکڑ گئی کہ وہاں آج بھی عام لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور جدا ہوتے وقت ایک دوسرے کے سامنے اس وقت تک سر جھکاتے رہتے ہیں جب تک تھک نہ جائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عموماً قبروں و مزارات کے سامنے جھکنا کوئی معیوب نہیں بلکہ لازم سمجھا جاتا ہے اور تو اور کوئی الّلہ کا نیک و برگذیدہ بندہ نہ بھی ہو لیکن کسی قبیلہ کا سردار ہو یا بڑا سیاستدان، اس کی زندگی میں اور مرنے کے بعد اس کی قبر پر حاضری دینے پر تو جھکنا ہی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے نام کے ساتھ “جئے” لگانا ایک معروف روایت بن چکی ہے جیسے “جئے بھٹو”، اور ہاں اس نام سے شدید متاثر ہونے کے بعد تو سیاسی نعرہ ہی بن گیا جیسے جئے الطاف، جئے نواز شریف وغیرہ وغیرہ۔

گویا بت پرستی آج تک ختم نہ ہوسکی اور لگتا ہے یہ شریر انسان اگلے جہان میں بھی کوئی نہ کوئی اپنی پسند کا شرک نکال لے گا۔

 

 

منگل، 11 جولائی، 2023

انسان خود سب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے

 

کائنات میں جو بھی مخلوق ہے ، بے شک خالقِ کائنات کی ہی تخلیق ہے ، ہم نے نام مختلف دئیے ہوئے ہیں جیسے ڈائنا سور اور جراثیم یا وائرس۔ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سی چھوٹی مخلوق کا نام ہمیں معلوم ہے اور انسان ایسی مخلوق ہے جس کا ہر قسم کی مخلوق سے واسطہ پڑا اور پڑتا رہیگا، شاید اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات کا نام دیا گیا لیکن میرے خیال میں ایک اور زاویہ ہے انسان کو دیکھنے اور پرکھنے کا اور وہ یہ کہ یہی وہ مخلوق ہے جو کائنات کی تمام معلوم اور نامعلوم مخلوقات کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ اس نے ایک زمانے میں ڈائناسور کا شکار کرکے اس کو بھی کھا لیا اور جراثیم یا وائرس تو ازل سے اپنی جانوں پر کھیل کر کھاتی چلی آرہی ہے۔ آج تک تمام دریافت شدہ وائرس انسان کے جسم میں جاتا ہے ، یا تو وہ انسان اس کو برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہے یا اسی وائرس سے بچنے کے لئے اس کا توڑ اپنے جسم میں داخل کر لیتا ہے تاکہ  قدرتی اور مصنوعی دونوں وائرس لڑیں ، مقابلہ کریں تاکہ انسان کی زندگی کا فیصلہ ہو سکے کہ کیسے بچانی ہے؟

میری نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ازل سے ابد تک جتنے بھی وائرس دریافت ہوں گے، انسان ان سب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے کیونکہ یہ تمام کائناتوں میں موجود ہر مرئی اور غیر مرئی شے کو کھا جاتا ہے، کووڈ 19 اس کے مقابلے میں  کچھ بھی نہیں۔مشرق سے مغرب تک نہایت اہم و مشہور ممالک کا سفر طے کرنے اور وہاں کے مقامی لوگوں سے دوستانہ تعلقات بنا لینے کے بعد جو میں نے سیکھا وہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان جتنا دوسرے انسان سے ڈرتا ہے اتنا کسی نا معلوم مخلوق سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ تاریخ میں جس قدر ہلاکتیں انسان کے ہاتھوں ہوئیں وہ کسی اور مخلوق کے باعث نہ ہوئیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان نے ہر دیگر مخلوق سے زیادہ بہتر ذہن پایا ہے لہذا وہ ہر دیگر مخلوق کی جانب سے اپنے اوپر حملہ آور ہونے سے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیتا ہے اگر اس عمل میں تاخیر بھی ہو جائے تو وہ انسانی نقصان ہونے کے بعد اپنے شعور و تحقیق کے بعد اس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلینے کے بعد اپنے آنے والی نسلوں کو ہر صورت بچاتا آیا ہے لیکن دیگر انسانوں کی ذہنی برتری کے باعث وہ کسی ایسے آنے والے اَن دیکھے خطرے سے قطعئی طور سے لا علم رہنے کے باعث ہر مرتبہ نقصان اٹھاتا ہے اور آئندہ بھی اٹحاتا رہے گا۔ انسان کا شعور ہمیشہ ترقی پذیر رہا ہے اور یہ ارتقائی عمل ابد تک جاری رہے گا چنانچہ ہر آنے والے لمحے انسان کو انسانی حملہ کے لئے تیار رہنا عملی طور سے ناممکن ہے، سو نقصان ہونے کے بعد جب وہ اِس حملہ کا توڑ دریافت کر پاتا ہے تو دوسرے لمحے ایک نیا حملہ کا طریقہ واردات دریافت ہو چکا ہوتا ہے، یہ چوہے بلّی کا کھیل ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

مبالغہ آرائی کی حدود میں داخل ہونے سے اجتناب کرتے ہوئے میرا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قدرتی آفات سے انسانی جانوں کا زیاں مکمل روکنے نہیں تو اس کو کم سے کم کرنے کے انتظامات کر لینے سےبھی بیش بہا خطرات سے انسان نے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے اور یہ عمل بھی ارتقائی منازل کی جانب نہایت خوش اسلوبی اور سُبک رفتاری سے رواں دواں ہے۔     


 

جمعہ، 7 جولائی، 2023

اگر دم ہے تو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کا نظام بدل لیں

 

ہر انسان کے دیکھنے ، سوچنے اور  ردِّ عمل کا اندازمختلف ہوتا ہے، ضروری نہیں جیسے میں چیزوں کو دیکھ رہا ہوں آپ بھی ویسے ہی دیکھیں، ضروری نہیں ان کے بارے میں جو میں سوچ رہا ہوں آپ بھی ویسا ہی سوچیں اور یہ  بھی ضروری نہیں کہ میرا جو ردِّ عمل ہو آپ کا بھی وہی ہو۔ لہٰذا اس میں نہ تو کسی کو بُرا بھلا کہنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ناراض ہونے کی۔ مثلاً چھُری دیکھتے ہی میرے ذہن میں پھل یا سبزی کاٹنے کا خیال آتا ہے لیکن ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چھُری دیکھتے ہی کسی کا گلا کاٹنے یا پیٹ پھاڑنے کا سوچتے ہیں۔ ماچس دیکھتے ہی سگریٹ یا چولھا جلانے کا خیال آتا ہے ہے اور کسی کو پوری دنیا کو آگ لگانے کا۔ایٹم دریافت ہونے کے بعد اس کو توڑنے کا خیال آیا تو جو انرجی اس عمل سے پیدا ہوئی اس سے دنیا کو روشن کرنے کا خیال آیا اور کسی کو ایٹم بم بنا کر دنیا کو تباہ کرنے کا، گویا خالقِ کائنات کی ٹیم کے لوگ ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا سوچتے رہتے ہیں جب کہ ابلیس کی ٹیم کے لوگ انسانیت کو نیست و نابود کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔

تاریخ میں دس نامور انسان ایسے گزرے ہیں جو کوئی شے ایجاد یا دریافت کرکے بعد میں بہت پچھتائے:

1۔ جے رابرٹ اوپن ہائمر.......ایٹم بم                                        6۔ باب پراپسٹ.......آفس کیوبیکل

2۔ میخائل کالشنکوف.......رائفل اے کے 47                             7۔ ونسنٹ کاننارے.......مائکرو سافٹ فونٹ "کومک سانس"

3۔ ٹم برنرز لی.......ڈبل سلیش //                                            8۔ٹام کیرین.......ریلے چاپر بائی سائیکل

4۔ ایتھن ذوکر مین.......پاپ اپ اشتہار                                    9۔ کامران لاغمین.......کالی مرچ کا اسپرے ہتھیار

5۔ ڈونگ اینگوئن.......فلیپی برڈ گیم                                            10۔ جان سلوین.......کافی کیپسولز

ہمارے مذہب، ملک یا پسندیدہ رہنما کا کوئی مذاق اڑائے تو ہمیں فطری طور پر بہت غصہ آتا ہے، ہمارے والدین یا بہن بھائی کو کوئی گالی دے تو غصہ سے دماغ بالکل پاگل ہو جاتا ہے لیکن اگر گالی دینے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو تو غصہ فوراً قابو بھی کرنا آتا ہے۔ اسی طرح جب ہم سے کہیں زیادہ طاقتور ملک ہمیں لڑنے کی جانب اکساتا ہے تو غصہ قابو کرتے ہوئے بات چیت کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکالنا چاہیئے نہ کہ میزائل بردار ملک کو پتھر اٹھا کر مارنا شروع کردیں یا اپنے ملک میں توڑ پھوڑ اور گھیراؤ جلاؤ کرکے دشمن کے ہاتھ مزید مضبوط کریں۔

اگر دم ہے تو "جس کی لاٹھی اس کی بھینس "کا نظام بدل لیں

 


 

جمعرات، 6 جولائی، 2023

دل و دماغ کی کشمکش

 

دل نہیں چاہ رہا
دل نہیں مانتا
سب ٹھیک ہے لیکن دل کا کیا کروں؟
دل دُکھانا
دل صاف ہونا
دل کو کھلونا سمجھنا
دل کی بات
دل سے تسلیم کرنا
دل تو پاگل ہے
دل کے ہاتھوں مجبور ہونا
اللہ کے ذکر سےدل کو اطمینان حاصل ہونا
دل پہ مہر لگ جانا
دل میں احساس جگانا وغیرہ وغیرہ۔
خالقِ کائنات نے انسان کو پیدا ہوتے وقت جو عقلِ سلیم عطا کی وہ دل کی دھڑکن کی مانند ماں کے پیٹ سے ہی دماغ کے ابتدائی خلیات کی حیثیت میں اپنا استعمال شروع کر دیتی ہے یہی خلیات جوں جوں بڑھنا شروع ہوتے ہیں ، عقلِ سلیم بھی آگہی، شعور ، فہم، ادراک اور دانش کی منازل طے کرتی ہوئی اپنی لا متناہی حیثیت کو پہنچتی ہے تو ہم اس کو نہ تو کوئی معنی دے پاتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی تشریح کرنے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ یہ کام صرف وہی عقل یا دماغ کر سکتا ہے جو ایک درجہ زیادہ ہو۔گویا دماغ و دل دو مختلف اجزاء ہیں البتّٰی ان دونوں کو ملانے اور مل کر کام کرنے کے لئے عقل کام آتی ہے جس کی نہ تو کوئی ڈرائنگ بنائی جا سکتی ہے اور نہ خاکہ، نہ ہی میڈیکل سائنس میں اس کی تشریح لکھی جا سکتی ہے۔
میں چونکہ بنیادی طور پر انجینئر ہوں اس لئے اسی زبان میں ہر چیز کو سمجھتا اور بیان کرنا پسند کرتا ہوں۔ الیکٹرک اور الیکٹرونک ٹیکنالوجی کی زبان میں فریکوئینسی ایک شے ہوتی ہے، فریکوئنسیFrequency) ) سے مراد تعدادِ ارتعاشات ہوتی ہے جو کوئی مرتعش جسم ایک سکینڈ میں پوری کرے۔ جب کوئی لہر اٹھ کر دَبتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اس نے ایک چکر پورا کر لیا۔ ایک لہر ایک سکنڈ ميں ایسے جتنے چکر پورے کرتی ہے وہی اس کی فریکوئنسی ہوتی ہے۔ ہمارے دماغ سے نکلنے والی فریکوئینسی کسی طرح خالقِ کائنات کی فریکوئینسی سے ہم آہنگ ہوجائے تو سمجھ جائیں کہ ہم اور خالق ایک پیج پر ہیں یعنی ایک دوسرے کی بات سمجھ رہے ہیں، جو اتنا آسان نہیں جتنی آسانی سے میں نے بیان کر دیا بلکہ اس کے لئے ایک عمر چاہئیے اگر ہم منتخب شدہ نہیں۔ منتخب شدہ انسان تو پہلے ہی خالق کی فریکوئینسی سے ہم آہنگ ہوتا ہے لہٰذا اس کا ہر وقت براہِ راست رابطہ ہو سکتا ہے۔ عام انسانوں کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان میں میرے خیال میں سب سے پہلی سیڑھی تمام کام چھوڑ کر اپنے ذہن کو اپنے اندر جھانکنے پر فوکس کرنا ہے۔
اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم کچھ پڑھنا یا لکھنا شروع کردیں، پڑھنے کے لئے ایسی عبارت ہونی چاہئے جس کی آواز سے (خواہ دل کی آواز ہی کیوں نہ ہو) کوئی نہ کوئی فریکوئینسی نکلتی ہو اور لکھنے میں وہ مواد ہو جو ہماری فریکوئینسی کے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں یعنی جب ہم یہ سوچ کر لکھیں گے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں تو کچھ اچھا ہی لکھیں گے اور ہر اچھی بات کا منبع خالقِ کائنات ہے جب کہ بری بات کا ابلیس۔
گویا اچھا لکھنے اور اچھا پڑھنے سے ہم اچھا سوچنا بھی شروع کر دیں گے یوں ہمارے دل کو اطمینان نصیب ہو گا، ابلیس کا غلبہ ہم پر کم سے کم ہوتا چلا جائیگا اور دل و دماغ کی کشمکش بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی جائیگی۔


 

بدھ، 5 جولائی، 2023

خود نظمی

 

ہم جب بھی کسی انسان سے ملاقات کرتے ہیں تو یا تو ہمیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی معاشرے میں حیثیت کیا ہے اور کوشش کرتے ہیں کہ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اس کی شخصیت کس نوعیت کی ہے، دِکھنے میں کیسا ہے وغیرہ وغیرہ۔اگر فون کے ذریعے بتانا چاہیں کہ ہم ملنا چاہتے ہیں تو یا تو وہ کہتا ہے کہ جب چاہے آجائیں یا فون اٹھانے والا کہتا کہ آپ پہلے تاریخ اور وقت بتا دیں کیونکہ اس کے ملنے کے اوقات یہ ہیں تو ہم اسی حساب سے اس کی اور اپنی سہولت دیکھ کر ملاقات طے کر لیتے ہیں۔ نتیجتاً اس کا اور ہمارا بھی وقت ِ مقررہ پر ملاقات طے ہو جانے سے اس کا اور ہمارا بھی وقت ضائع نہیں ہوتا اور دیگر اس سے جڑی ہوئی پریشانیوں سے بھی بچ جاتے ہیں۔گویا ہم دوسرے انسان سے اس کے طے کئے ہوئے اصولوں پر چلتے ہیں۔ اگر اسی طرح ہم اپنے آپ کی زندگی کے اصول بھی طے کر لیں اور اپنے آپ سے ملاقات کرنے کے لئے بھی وقت مقرر کر لیں تو ہماری پوری زندگی منظم ہوجائیگی ، گویا ہمارے پاس وقت ضائع ہونے کا کوئی تصور ہی نہ ہوگا، ہم زندگی کے ہر لمحہ کا بھرپور اور خوش اسلوبی کے ساتھ فائدہ اٹھا پائیں گے۔

ہمیں کسی پہلوان سے ملاقات کے لئے پیشگی وقت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ نہایت ہی معتبر اور دنیا کا نامی گرامی پہلوان نہ ہو اوروہ بھی اسوجہ سے اس سے پیشگی وقت طے نہیں کرتے کہ وہ جسمانی طور سے ہم سے زیادہ طاقتور ہے بلکہ اس کا وقت بہت قیمتی ہے ، اسی طرح ایک جسمانی طور سے کمزور آدمی سے ملاقات لینے کے لئے بھی وقت محض اس لئے لینا پڑتا ہے کہ وہ اپنا وقت ایک منظم طریقے سے گذار رہا ہے۔ کسی بھی انسان کا منظم ہونا گویا خالقِ کائنات کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اس سے زیادہ کوئی انسان منظم نہیں ہو سکتا پھر بھی یہ ایک کوشش ہی عام انسان کو ایک اچھا انسان بنا دیتی ہے اور جسمانی طور سے کمزور انسان کو بھی طاقتوروں کی صف میں لا کھڑا کر تی ہے۔


 

منگل، 4 جولائی، 2023

حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ امّت روایات میں کھو گئی

 

انسان نے تو بے شمار ارتقائی منازل طے کیں اور کسی نہ کسی زاویہ سے آج بھی کل سے بہتر مقام پر ہے اور آنے والے کل بھی آج سے آگے والے سنگِ میل پر ہی ہوگا لیکن افسوس کہ اس کی اصل پہچان مع اس کے سب سے اہم وصف "انسانیت" کو عروج و زوال کی کئی منازل طے کرنے کے بعدگزشتہ کئی دھائیوں سے زوال پذیر ہی پایا۔

انسان نے اپنے لباس، رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے کی روایات و آداب، سفری ذرائع اور گفتگو کے ذرائع میں بے پناہ ترقی کی اور کرتا چلا جا رہا ہےجس کی بنیادی وجہ ایک دوجے پر تنقید نہ کرنا بلکہ ایک دوسرے سے سیکھنا دو اہم نکات ہیں۔البتّیٰ ان معاملات میں چند اقوام بہت ترقی یافتہ کہلائیں جبکہ دیگر ترقی پذیر۔میرے خیال میں مذکورہ تمام معاملات میں جس قدربد تہذیبی و بد تمیزی دکھائی گئی اتنا ہی اس کو فیشن سمجھ کر نہ صرف قبول کیا گیا بلکہ ترقی یافتہ انسان یا قوم کہلانے کے لئے اس کو لازم قرار دیا گیا جس کے باعث احساسِ کمتری کا شکا ترقی پذیر انسانوں اور اقوام نےاس کی پیروی کرنا لازمی قرار دے دیا۔ نتیجتاً انسان کا اصل وصف "انسانیت" بے توجّہی کا شکار ہوکر روایتی ترقی یافتہ اعمال میں کہیں گُم ہو گیا۔جس موقع پر شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمداقبال نے کہا "حقیقت خرافات میں کھو گئی، یہ امّت روایات میں کھو گئی"۔میرے خیال میں اقبال نے اُمّت قران کو سامنے رکھ کر محمدﷺ کے پیروکاروں کو کہہ کر مخاطب کیا اور بے شمار ایسے اشارے دے کر سمجھانے کی کوشش کی کی کسی طرح یہ لوگ حقیقت کی جانب لوٹ آئیں، آج بھی تقریباً ہر بڑا اور مستندعالمِ دین اپنے وعظ میں اقبال کے کلام کا سہارا لے کر اپنی دلیل میں مضبوطی لانے کی کوشش کرتا ہے، کہنے کی حد تک، عمل میں اس کے بھی کوئی ایسی شے نمایاں نہیں ہوتی جو حقیقت کو چھو کر بھی گئی ہو۔

 


 

پیر، 3 جولائی، 2023

مائٹ اِز آلویز رائٹ

 

                                                                                                                                                                                                                                                                             انسان کے وجود میں آتے ہی اولین ضرورت اس کو اپنا جسم ڈھانپنا تھا، اس کے بعد اس کی کچھ خوراک کی طلب، اس کے بعد اس کی بنیادی نفسیانی خواہش کی تکمیل اور ان سب کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے جسمانی یعنی طبعئی مضبوطی۔محض جسمانی صحت وتندرستی اور بنیادی عقلِ سلیم کے باعث وہ اپنی تمام خواہشات کی تکمیل کر پاتا تھااور ان کے لئے اس کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہوتی۔جنگل میں فطری طور پر ایک قبائلی نظام قائم ہوگیا جس کا سربراہ سب سے مضبوط جسمانی حیثیت والا انسان بن جاتا تاکہ جنگلی جانوروں یا کسی بھی خطرے سے نمٹنے میں اپنے قبیلہ کی رہنمائی  و حفاظت کر سکے۔جسم ڈھانپنے کے لئے درختوں کے پتّے و چھال، خوراک کے لئے شکار کے واسطے درختوں سے تیر کمان و پتھروں سے دیگر ضروریات کے اوزار استعمال کئے جاتے۔ نفسیانی خواہشات پوری کرنے کے لئے کسی قسم کا کوئی قانون، اخلاقیات یا ضابطئہ حیات حائل نہ تھا اور اکثر اوقات یہ ضرورت دیگر کسی کمزور قبیلہ سے حاصل کی ہوئی جنس اٹھا کر لانے اور اپنی خواہش پوری کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوتا۔

                   جس طرح قبیلہ کا سردار ہونے کے واسطے جسمانی صحت سب سے بہتر ہونا لازم ہؤا، اسی طرح ذہنی شعور،فہم و فراست اور عقل و دانش بھی ایک انسان کو دوجے سے برتر ہونے میں نہایت اہم کردار ادا کرنے لگے کیونکہ خطرناک اور اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور درندوں کا شکار اور کسی دوسرے قبیلے کا شکار بھی چوری کرنے یا چھیننے کے لئے اور کمزور قبیلوں کی عورتوں کو اٹھا کر اپنے قبیلے میں لانے کے لئے یہ تمام مذکورہ عناصر کا استعمال ہی تو منصوبوں کو پائیہ تکمیل کو پہنچاتا ہے۔اس کے علاوہ بڑھاپے اور جسمانی طور سے کمزور ہو جانے کی صورت میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے اور زندگی کی تمام ضروریات پوری کرنے میں بھی تو ان ہی عناصر کا ایک درجہ ہونا نہائیت اہم ہے۔جو آگے چل کر تفصیل سے بیان کیا جائیگا۔

                                                                                                                                                                                                                                            ضعیفی و جسمانی طور سے کمزور ہو جانے میں انسان کی  اپنی تمام ضروریات پوری کرنا محال اور ایک اسٹیج پر ناممکن ہو جاتا ہے، ایسے کڑے وقت کے لئے ایک دولت ہی ہے جس کے ذریعے اپنی تمام ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں ۔دولت سے مُراد پیسہ، کرنسی یا نوٹ ہی نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی ایسی شے ہو سکتی ہے جو کسی دوسرے اپنے سے زیادہ طاقتور انسان کو اپنا غلام بنا سکے جیسے طاقتور ہونے کے دور میں ہی اپنے کسی قریبی ساتھی کو سردار بننے کے لئےنامزد کردینا اور اس سے اس کے عوض اپنے جمع شدہ شکار میں ہی حصہ دار بنا کر یہ عہد لے لینا کہ وہ اس کے کڑے وقت میں اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی تمام ضرروریات بھی پوری کرے گا۔بعینہیہ دوچار دیگر اشخاص کو بھی  کوئی نہ کوئی لالچ دے کر اپنا گرویدہ بنا لینا۔ اور یوں اپنی ذہانت سے نت نئے طریقوں کے ذریعے اپنے مخدوش مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے جمع شدہ پونجی ہی کام آسکتی ہے ۔

گویا مذکورہ بالا نظام ازل سے قائم ہے اور لگتا یوں ہے کہ اب یہ ابد تک ہی رہے گا البتّیٰ معمولی ردّو بدل وقت کے ساتھ ان تین مراحل میں ضرور آیا ہے لیکن  بنیادی فلسفہ وہی ہے کہ "طاقت کے فیصلے ہی صحیح کہلاتے ہیں، انہیں کمزوروں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ورنہ وہ رائج الوقت قبیلہ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، طاقتور کا حکم انہیں ماننا ہی پڑتا ہے اور یہ طاقت ہے تین عناصر کا مجموعہ؛ جسمانی طاقت، ذہنی طاقت اور مالی طاقت"۔ انگریزی میں مائٹ اِز رائٹ (  (Might is Right کہا جاتا ہے اور میں اس کو مزید تشریح کے ساتھ مائٹ اِز آلویز رائٹ (   (Might is Always Rightکہتا ہوں۔اس کے خلاف نہ تو آواز اٹھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ ایک فطری یعنی آفاقی نظام ہے جو خالقِ کائنات سے منظور شدہ ہے ۔ بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے وہ  ہے کہ خالقِ کائنات کا نظام بھی اس کے قریب تر ہے ۔ خالقِ کائنات کی حیثیت کو اس انداز سے  تو بیان نہیں کیا جا سکتا جیسے ایک انسان کو ، یعنی طبعئی اعتبار سے خالقِ کائنات کے جسم، ذہن یا مالی حالت کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اور نہ ہی  اس کی بے پناہ طاقت کا محاصرہ کیا جاسکتا ہےلیکن وقتاً فوقتاً اس کی طاقت کے نمونے ہم دیکھ بھی سکتے ہیں اور غور کریں تو اس طاقت کو محسوس بھی کیا جا سکتا ہے جس کی لاتعداد مثالیں دی جا سکتی ہیں۔باشعور انسان اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔خالقِ کائنات اور انسان یا کسی بھی مخلوق کی طاقت کے استعمال  میں نہایت ہی بنیادی اور نمایاں فرق ہے۔ خالقِ کائنات نے اپنے طور پر اپنی تمام  مخلوقات کے ضابطئہ حیات طے کر دئے جن کے تحت عملدرآمد نہ کرنے والی مخلوق کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اس میں انسان بھی شامل ہے۔ انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات میں اتنا شعور نہیں کہ وہ اپنے اپنے معاشرے یا قبیلہ کے لئے کوئی ضابطئہ حیات بنا سکے اور نہ ہی ان مخلوقات کو کوئی ارتقائی منازل طے کرنے ہوتے ہیں ، یہ  وصف محض انسان کو عطا کیا گیا کہ وہ اپنے معاشرے یا اپنے قبیلے کے لئے فطرت کے قریب قریب کوئی ضابطہ بنا لے اور اس کے مطابق ایک بہتر اور آسان زندگی گزار لے ، ساتھ ہی اس کو ارتقائی منازل بھی طے کرنے کا اختیار دیا گیا اور یوں انسانی مخلوق اشرف المخلوقات کہلائی۔ایک بڑے کینوس پر یہ خاکہ بنایا جائے تو اس کو یوں بیان کیا جائیگا کہ انسان کو ایسا ضابطئہ حیات بنانے کا مشورہ، ہدایات، پیغام دیا گیا جس سے انسان کی فلاح مقصود ہو۔اس پیغام، ہدایت، حکم یا مشورہ کو عام انسان  تک پہنچانے کا طریقہ خالقِ کائنات نے خود طے کیا اور یہ ہر طاقتور و کمزور انسان کو سمجھانے کے لئے ایک کتاب کی صورت دے دی جس کو عرفِ عام میں ہم مقدس کتاب یا کتابیں کہتے ہیں۔ کتاب کا مجموعہ میں نے اس لئے استعمال کیا کیونکہ ہر دور میں اس وقت او رحالات کے مطابق  حکم نامے یا ہدایات جاری کی گئیں جو وہاں اس معاشرہ یا قبیلہ کے لئے مناسب ترین ہوں۔ 


 

اتوار، 2 جولائی، 2023

سچ بولنے اور حقوق العباد کی ادائیگی سے اندر کے نفس پر قابو پانے میں نہائیت آسانی ہوتی ہے

 

کسی انسان کو دوسروں سے مختلف کرنے میں ایک ہی عنصر کار فرما ہے اور وہ ہے خالقِ کائنات کی عطا۔یہ وہ شے ہے جس سے عام انسان خاص ہوجاتا ہے ۔ یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ انسان کے لئے عام اور خاص کے الفاظ دنیاوی  یا      مادی اعتبار سے نہیں بلکہ سوچ، عقل و شعور، فہم و فراست  اور روحانی بلندی کے اعتبار سے منسوب ہیں۔جیسے انسانی جسم کے باقی تمام اجزاء استعمال کے حساب سے مضبوط و توانا ہوتے ہیں بالکل اسی طرح انسان کی سوچ بھی استعمال سے ہی تندرست و صحت مند، طاقتور و توانا اور پستی و بلندی کے درجات حاصل کرتی ہے۔ انسان  جہاں ایک دوسرے سے بات چیت  کے ذریعے اپنی سوچ میں اضافہ کرتا ہے وہیں گھر بیٹھ کر یا کسی مدرسہ میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرکے بھی یقیناً اپنے علم کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ میں بھی بڑھوتی کرتا ہے۔ لیکن معلومات  میں اضافہ کے ساتھ مختلف النوّع خیالات  کے باعث اس کی اپنی سوچ کے مختلف زاویوں میں ٹکراؤ اور انتشار بھی جنم لیتا ہےجس کا سبب خالقِ کائنات کی عطا نہیں بلکہ دیگر انسانوں کے خیالات  کی شمولیت ہوتا ہے۔خالقِ کائنات کی عطا تو ماں کے پیٹ سے روح کے جسم سے پرواز کر جانے تک براہِ راست ہوتی ہے اسی لئے تما م خاص انسان روح کی بلندی کے لئے تنہائی میں بیٹھے اور اکیلے بیٹھ کر انسانی جسم سے لے کر کائناتوں تک کا سفر کیا جس کا ذریعہ صرف و صرف غور کرنا  رہا اور ہمیشہ رہے گا۔معلومات  کا حصول سوچ میں اضافہ کا سبب ضرور بنتا ہے لیکن علم میں اضافہ کا ہر گز نہیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق جتنے بھی انسان گزرے یا آج بھی موجود ہیں انکو خاص بنانے میں تین عناصر مشترک ہیں اور وہ ہیں؛  ان کی اپنی ذاتی سوچ، غور و فکر اور ان کی تنہائی۔ ان کی معلومات میں مختلف مدارس یا اداروں کا عمل دخل ضرور شامل ہوتا ہے لیکن ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں اور آج بھی موجود ہیں جنہوں نے کسی مدرسے یا ادارے کی شکل بھی نہ دیکھی بلکہ اکثر تو ایسے ہیں جنہوں نے عام انسانوں والی زندگی  کے ساتھ ساتھ تنہائی کا وقت بھی نکالا اور اکثرہستیاں  تو ایسی ہیں جنہوں نے تخت و تاج چھوڑ کر غور و فکر کے لئے جنگلوں کا رخ کیا اور وہاں باقی ماندہ زندگی کا حصہ گزار کر گیان  (فرہنگِ شعوری )حاصل کیا۔

خاص انسان کی ذاتی سوچ ایک خاص مُدّت کی مشق کے بعد خالقِ کائنات کی عطا کے ساتھ مل کر جہاں روح کی  کثافت کو دھو کر اس کی پاکیزگی میں خاطر خواہ اضافہ کرتی ہے وہیں اس کے ضمیر کو روشن تر بھی بناتی ہے جس کے باعث اس انسان کے اندر کا عدالتی نظام بھی ارتقاء پزیر ہوتا ہے اور یوں خاص انسان کا سچ بولنا اس کے جھوٹ بولنے پر غالب آتا جاتا ہے۔ مزید برآں اس کے اندر کا رحم کا جذبہ بھی پتھر دلی یا ظلم کے اوپر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے۔سچ بولنا اور رحمدل ہونا  دنیاوی زندگی میں اس انسان کے خاص ہونے میں اسقدر ممد و معاون ثابت ہوتا ہے کہ اس انسان کے ارد گرد کے معاشرہ کے لوگ ہی نہیں بلکہ اس سے باہر دور افتادہ علاقوں میں بھی عام عوام اس کی کسی اور بات کو مانیں یا نہ مانیں لیکن اس یقین کی کیفیت میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں کہ فلاں  خاص انسان صادق و امین ہے یعنی وہ جب بھی بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور رحمدل ہونے کے باعث کسی کا حق نہیں مارسکتا۔ ان دو اضافی خصوصیات کے باعث عام لوگ اپنی زندگی کے مسائل کے لئے اس خاص انسان کی جانب ہی لپکتے ہیں اس یقین کی کیفیت کے ساتھ کہ ہمارے ہر مسلہ کا حل مل جائیگا اور ہماری زندگی آسان ہوتی چلی جائیگی۔ایک سے دو اور دو سے چار لوگوں تک اس کی صداقت و امانت پہ مہر ثبت ہوتی چلی جاتی ہے اور یوں رفتہ رفتہ وہ خاص انسان خاص الخواص کی حیثیت اختیار کرتا  چلا جاتا ہے۔

کسی بھی انسان کے سچ بولنے اور حقوق العباد کی ادائیگی سے اس کے اندر کے نفس پر قابو پانے میں نہائیت آسانی ہوتی ہے اور یوں اس کی ہر سوچ میں مثبت انداز پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ مثبت اندازِ فکر جہاں معاشرہ میں اس کو ایک خاص  انسان کا مقام دلواتا ہے وہیں اس کی اپنی جسمانی صحت کا معیار بھی بلند ہوتا ہے اور اس کی جتنی بھی زندگی ہوتی ہے، جو کسی انسان کو معلوم نہیں، وہ اچھی صحت و تندرسی کے ساتھ گزرتی ہے لہٰذا وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے کبھی بوجھ کا باعث نہیں بن سکتا۔گویا خاص انسان کی اپنی جسمانی قوت اور اس کے چاہنے والوں کی افرادی قوت میں اضافہ کے باعث ایک مضبوط اور قابلِ اعتبار سپہ سالار  کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔یہ وہ حیثیت ہے جو اس مادی دنیا میں روح کی پاکیزگی کے باعث اس سپہ سالارکی اپنی تمام قوم کو اس روئے زمین پر ایک عظیم قوم کی حیثیت سے رہبر و رہنما قوم کا شرف عطا کرتی ہے اور یوں آنے والی تاریخ کو ہر ایماندار مؤرخ سنہری الفاظ سے مزیّن کرتا ہے جو دیگر اقوم کے لئے بھی مشعلِ راہ ہوتی ہے۔

 

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...