یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

جمعرات، 31 اگست، 2023

ریوڑ کے ساتھ نہ چلیں، اپنی زندگی کے کپتان بنیں

 

انسان نے ہمیشہ اپنی انفرادی حیثیت کو ترجیح دی ہے۔ تاریخ میں خواہ کوئی بھی معاشرہ ہو ہر انسان اجتماعی زندگی تو بسر کرتا رہا لیکن اندر سے اس کی تمنّا یہی رہی کہ وہ اپنی انفرادیت کو دوام بخشے۔چلئے آپ کی بات مان لیتا ہوں کہ جنگلوں میں جب انسان  تنہائی کا شکار ہونے لگا تو اس نے سوشل اینیمل کا رویہ اپناتے ہوئے  دوسروں سے راہ و رسم بڑھانے شروع کئے تاکہ تنہائی میں جنم لینے والی ڈیپریشن کی کیفیت کا مداوا کیا جاسکے۔ اس نے ایک معاشرہ تشکیل دیا  اور تمام ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے موجودہ مقام پر پہنچ گیا۔ لیکن اکیسویں صدی میں انسان کی جبلت میں ایک نئی تبدیلی نے جنم لیا ہے جیسا کہ پہلے لکھا گیا کہ شہر کی گہما گہمی اورپُر رونق زندگی سے اکتاہٹ کے بعد با حیثیت انسانوں نے خود ساختہ خانہ بدوشوں والی زندگی کا انتخاب کیا ہے یا پھر اسی طرز کی زندگی آبادی والے علاقوں میں مہنگی ترین زمین خرید کر خانہ بدوشوں کی طرز پر ایسا طرزِ زندگی اختیار کیا جو جنگلوں اور شہروں  میں رہنے والے انسانوں کا ملغوبہ سا لگتا ہے۔ اسی طرز پر فلوریڈا کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے اپنی پُر تعیش زندگی کے بارے میں بتایا کہ امریکہ جیسی سُپر پاور مملکت میں وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ دیگر لوگوں کی مانند نہایت اچھی زندگی بسر کر رہا تھا لیکن حال ہی میں یعنی اس صدی کے شروع میں اس نے نوٹ کیا کہ معاشی کسمپُرسی نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں اور چند ڈالروں کی خاطر دوسرے کی جان لینا معمول بننے لگا جس میں اس کےبیشتر  ٹیکسی چلانے والے دوستوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس کو بھی اپنی جان کا خطرہ محسوس ہونے لگا اور رات کو کام پر جاتے  وقت والدہ و بیوی نے اس کی خیریت سے واپس آنے کی دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ دن رات محنت  اور کفایت شعاری کی زندگی گذارنے کے باعث اس کے پاس ایک اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی، ماں کا انتقال ہوگیا ، اولاد کوئی تھی نہیں، بیوی ایک موذی بیماری میں مبتلا ہوگئی تو گھبرا کر اس نے زندگی  سے فرار اختیار کرنے کی خاطر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے  پیدائشی وطن  کو خیر باد کہہ کر کسی اور ملک میں ہجرت کر جائے۔ اپنے ٹیکسی چلانے والوں میں اس نے ایک فلپائین کے شخص سے سن رکھا تھا کہ فلپائن کے جنگلوں مین زندگی نہایت پر سکون اور بے خطر سی ہے جب کہ اس کا وہ فلپائنی شخص بھی ایک ڈکیتی کی واردات کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا چنانچہ اس نے اپنے اکیلے پن اور ایک کثیر رقم کی ملکیت  ہونے کی حیثیت سے فائدہ اٹھایا اور فلپائن کی جانب رختِ سفر باندھا۔ یہاں پہنچ کر چند روز منیلا جیسے شہر میں رہنے کے باوجود سکوں کی زندگی نہ پاسکا۔ اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا  تو دور دراز جنگلوں میں نکل گیا اور وہیں قدیم تاریخی لوگوں کے ساتھ اپنےخوابوں کی تعبیر حاصل کرتے ہوئے  اس نے اپنی ایک موٹر بوٹ میں بیٹھے انٹرویو میں تاریخی جملہ کہا :

"ریوڑ میں  ایک پُر خطراجتماعی زندگی گذارنے کے بجائے اپنی  زندگی کا کپتان ہونا کہیں زیادہ پُر  سکوں اور بہتر زندگی  کی علامت ہے"

 

 


 

منگل، 29 اگست، 2023

خالقِ کائنات سے بغاوت

 

آج تک کبھی خالقِ کائنات  کے خلاف اجتماعی بغاوت نہیں ہوئی  اگرچہ کسی نے انفرادی طور  یا من حیث القوم  یہ سمجھا بھی کہ خالق نے اس پر بہت ظلم روا رکھا ہے البتّٰی ابلیس نے انفرادی طور پر نافرمانی کا بازار گرم کئے رکھا ہے جس کی اس  کو خالق نے  ہی اجازت دی جب اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ دنیا کے اکثر ممالک میں تو ابلیس کی پیروی میں پوری کی پوری قومیں اسی بنیاد پر خالقِ کائنات نے غرق کر دیں  کہ وہ اجتماعی بغاوت  کی شکل اختیار کر گئیں۔ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں  حکومت سے بغاوت کی وجوہات  مختلف ہوتی ہیں اور اس پر عملدرآمد کےطریقے بھی بالکل مختلف۔اس کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ان ممالک میں  عام زندگی  گذارنے کے طریقئہ کار میں نمایاں فرق ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں قوموں کو متحد و منظم رکھنے کے لئے ایک دستور طے پاتا ہے جس پر عملدرآمد کرنے کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ دستور بھی ایک تحریری  طورپر مقدس دستاویز ہوتا ہے اور قوانین بھی اتنی بار لکھ لکھ کر عام کئے جاتے ہیں کہ عوام کو زبانی یاد ہو جاتے ہیں۔ قوانین پر عملدرآمد کرنا عوام پر لازم ہوتا ہے ورنہ ان کی پاسداری نہ کرنے پر کڑی سزائیں ہوتی ہیں۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کا بنایا ہؤا دستور عوام کے عمل کرنے کے لئے ہوتا ہے جب کہ عوامی نمائندے جو حکمراں بھی کہلاتے ہیں ، وہ ان پر عملدرآمد کرنے کے پابند نہیں ہوتے کیونکہ قوانین اس سلیقہ سے مرتب کئے جاتے ہیں کہ ان پر لاگو ہی نہیں ہو پاتے۔انتہا تو یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ان کے سرکاری مذہب کی آسمانی کتابوں کو بھی بالائے طاق رکھ کر دستور یا آئین کی کتاب کو اس پر برتری دی جاتی ہے جو کہ سراسر فطرت سے غیر ہم آہنگی یا بغاوت کے زمرے میں آتی ہے جب کہ اکثر ترقی یافتہ ممالک میں دستور زبانی کلامی ایک ضابطہ ہوتا ہے جس پر ہر کس و ناکس  کو ہر صورت عملدرآمد کرنا ہونا ہوتا  ہے اور اس کے مطابق بنائے ہوئے قوانین بھی سب پر لاگو ہوتے ہیں خواہ کوئی حاکم ہی کیوں نہ اس کی زد میں آجائے۔نوٹ کرنے والا پہلو یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا دستور عین فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے اور اس ملک کے سرکاری مذہب کی آسمانی کتاب سے منطبق۔ نتیجتاً ان ملکوں کے عوام کی زندگی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کے باعث نہایت آسان ہوتی ہے اور ان کا معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ ہوتا ہے کیونکہ ہر آسمانی مقدس کتاب نازل ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہوئی تو اس کے مطابق تیار کیا ہؤا دستور لازماً معاشرے کی فلاح انسانیت کے لئے نہایت ممد و معاون ثابت ہوگا۔

کئی ممالک دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کا سرکاری نظریہ کسی آسمانی مقدس کتاب کے مطابق نہیں لیکن اس کے عوام کو خالقِ کائنات نے ایسا شعور بخشا ہے کہ بِنا دستور کے بھی اس کے عوام و  حکمران فطرت سے ہم آہنگ قوانین پر عملدرآمد کرتے ہیں ، اگر کہیں غیر آہنگی دیکھنے میں آجائے تو حکمران شدّت سے اس پر قدغنیں لگا کر ملک کےنافذ کردہ قوانین پر عملدرآمد کراتے ہیں تاکہ ان کی قوم اجتماعی طور پر ایک ہی فلاحی سمت کی جانب بِلا کسی روک ٹوک اپنا سفر جاری رکھ سکے۔  

 


 

ہفتہ، 26 اگست، 2023

خود ساختہ خانہ بدوشی

 

اکیسویں صدی میں دولت مند لوگوں میں زندگی کی تمام سہولیات  و نعمتوں  کی فراوانی کے باعث اُکتاہٹ کا احساس تیزی سے جنم لینے لگا جس کے باعث انہوں نے شہروں  اور آبادی والے علاقوں کو چھوڑ کر برف پوش  پہاڑوں و بیابانوں کی جانب ہجرت کرنا شروع کی تاکہ مصنوعی طور پر خانہ بدوشوں والی زندگی سے لطف اندوز ہوسکیں، ان میں ایک تو ایسے لوگ تھے جن کے پاس عمر کے ابتدائی حصے میں ہی ضرورت سے زائد دولت اکٹھا ہو گئی اور دوسرے  وہ تھے جنہوں نے زندگی بھر کی جمع پونجی ریٹائرمنٹ کے بعد اس نئی طرز کی زندگی  کے مزے لینے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔شاید دور سے خانہ بدوشوں کا لائف اسٹائل ان کو پسند آیا جو وہ گھر بیٹھے اپنے ٹی وی پر دیکھتے ہوں گے لیکن ان کو وہ سختیاں اور صعوبتیں  برداشت کرنے  کے لئے بنیادی عناصر کا علم ہی نہ تھا جو فطرت کے نظام میں خانہ بدوشوں کو ایک نعمت کے طور پر عطا کئے گئے ہوتے ہیں۔اپنی دولت پہ ناز ہونے کے باعث اس کا دکھاوا شہری زندگی میں ان کی زندگیوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا لہٰذا اس دولت کے ذریعے  برف پوش پہاڑوں اور صحراؤں میں اپنے خیموں کو جدید ترین سہولیات و ٹیکنالوجی سے لیس کر لیا تاکہ ان کے بچے ان سے محروم نہ ہوں۔ گویا  شہر و آبادی سے دور جاکر اکیلے میں ان لوگوں نے ایک نیا لائف اسٹائل اختیار کیا جو خود ساختہ و مصنوعی خانہ بدوشی کا تھا  سوائے سوشل لائف کے ۔کسی بھی معاشرے یا سوشل لائف اسٹائل کو چھوڑنا  بالکل ایسا ہی ہے جیسے بغیر رس کے کوئی پھل۔سُو خشک پھل  کو کھانے میں جو کوفت ہوتی ہے اس کا جلد یا بہ دیر احساس ان کو ایک عجیب اضطرابی کیفیت میں مبتلا کرنے لگا۔ واپس جانے کا راستہ وہ خود بند کر چکے تھے اور جاتے بھی کس منہ سے؟ چنانچہ آس پاس یا چند سو میل کے فاصلے پر اپنے جیسے خانہ بدوشوں سے رابطے شروع کرنے پر مجبور ہوئے تو ایک مرتبہ پھر وہ غیر گنجان گاؤں وجود میں آنے لگے جن  سے راہِ فرار انھوں نے اختیار کی تھی۔ دوسر ےوہ لوگ تھے جو اپنی ساری زندگی کی  کمائی جمع کر کے ریٹائرڈ لائف سکون سے گذارنے کی تمنّا میں زبردستی خانہ بدوش بنے تھے۔تیسرے درجے کے لوگوں میں اپنی انا پرستی کے باعث اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اپنی حیثیت کا اظہار کسی پہ سطح پر کر پائیں چنانچہ ان کو تنہائی نے زندہ درگور کر دیا جسے آج کے میڈیا نے ایکسپوز کیا کہ کیسے وہ لوگ ڈیپریشن کا شکار ہوئے اور رفتہ رفتہ اپنی جسمانی و ذہنی قوت کی گراوٹ کے باعث مختلف امراض کو شکار ہوتے گئے اور بالآخر موت کو اسی ویرانی میں گلے لگایا۔ 


 

جمعہ، 25 اگست، 2023

اتنا آسان بھی نہیں فطرت سے ہم آہنگ رہنا۔

 

ہمارے لئے فطرت  کے نظام میں خالقِ کائنات  کا پہلا قدم ہی نہایت مشکل ہے جس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ رکھ پائیں بلکہ بعض اوقات تو ناممکن سا لگتا ہے کہ ہمارے اپنے بچے ہمارا کہنا نہ مانیں اور ہم در گذر کر دیں جیسے خالقِ کائنات نے جِنوں کے سردار یا فرشتوں کے سردار کی حکم عدولی پر  کیا جس نے آدم کوسجدہ      نہ کر کے اپنے خالق کے حکم کی خلاف ورزی کی اور اس کو قیامت تک کے لئے معاف کردیا گیا۔ ہم اول تو کسی انسان کی تخلیق نہیں کر سکتے  بلکہ  ہمارے ماتحت  کام کرنے والے لوگوں کی حکم عدولی برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے جو ہمارے دئے گئے معاوضہ کے محتاج ہوتے ہیں۔گویا  ہم انسانوں میں  برداشت کا عنصر اس درجہ کا ہونا ناممکن نظر آتا ہے ۔ ہم  چھوٹی چھوٹی باتوں کا بدلہ لینے میں فخر محسوس کرتے  ہیں خواہ وہ کسی کے ساتھ ہو۔عفو و درگذر تو ہماری زندگی  میں شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ اس عمل سے ہماری صحت پر اس قدر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ شاید کسی مہنگے سے مہنگے طریقئہ علاج یا غذائیت سے بھی نہ ہوں۔ جتنی خوشی و راحت کسی کو معاف کرنے سے ملتی ہے اتنی کسی اور شے سے مل ہی نہیں سکتی یہ آزمائی ہوئی بات ہے۔

کسی انسان کو غلطی کرنے پر معاف کر دینا تو  ہمارے ذہن میں بعد میں آتا ہے بلکہ ہم تو اس کو سزا دینے کے بارے میں پہلے سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کونسی ایسی سزا دی جائے جو اس کو عمر بھر یاد رہے اور اس کا برملا اظہار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔کسی کی چھوٹی سی غلطی کو معاف کرنا تو ہماری فطرت میں ہے ہی نہیں  بلکہ اس کی سزا دینا گویا فرض کیا گیا ہے ہم پر۔ جب کہ عفو و درگذر تو اس سے بالا ایک اور درجہ ہے جس میں غلطی کرنے والے کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دیا جاتا کہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے، اس کو ندامت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہونے دینا  عفو و در گذر کرنے والوں کی شان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اب ذرا سوچئے کہ خالقِ کائنات کا اشرف المخلوقات کے لئے جو پہلا سبق ہے وہ کسی کو معاف کردینا ہے یا یوں کہیں تو بھی غلط نہ ہوگا کہ کسی دوسرے انسان کی غلطی کو برداشت کر لینا  سب سے پہلے سکھایا گیا باقی اعمال تو اس کے بعد کی باتیں ہیں۔اسی لئے شاید فطرت کے اس عمل سے ہم آہنگ ہونے والے کا درجہ بہت بلند گردانا جاتا ہے۔


 

بدھ، 23 اگست، 2023

پہاڑوں کےمکین

 

یہ جو پہاڑوں پر لوگ رہتے ہیں یہ عین فطرت سے ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں جس وجہ سے ان کی ذہنی و جسمانی قوت شہری زندگی گذارنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔فطرت کی جانب سے جتنے اچھے مناظر  و آب وہوا ان کو میسر ہوتی ہے اس کی بابت ان کی روح   ہر دم تر و تازہ  ہوتی ہے اور جسم تندرستی  کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں جو کہ صحت مند طویل العمری کا باعث ہوتا ہے۔پینے کا پانی ہو ، جنگلی جڑی بوٹیاں  یا  اپنی کاشت کی ہوئی سبزیاں و اناج تمام فطرت کے نظام سے نکل کر ان کو میسر ہوتے ہیں۔ پھل ہوں یا شہد کی مکھیوں کا تیار کردہ شہد ، کسی شے کے اول تا آخر پروسیس میں کسی قسم کا کوئی کیمیکل یا کوئی بھی مصنوعی چیز استعمال نہیں ہوتی ۔جسم ڈھانپنے کے لئے جو کپڑا یا چمڑا استعمال ہوتا ہے وہ ان کے اپنے ہاتھوں سے کھڈی پر تیار کردہ یا اپنے ہاتھوں سے بُنا  اور پروسیس کیا ہوتا ہے جو کہ درختوں سے کپاس، چھال اور پتوں سے حاصل شدہ ہوتا ہے ۔ سرد موسم کی شدت سے محفوظ کرنے کے لئے اپنے پالے ہوئے  یا    شکار کردہ جنگلی جانوروں کے چمڑے  اور  اُون سے تیار کردہ  خاص قسم کا لباس ہوتا ہے۔پالتو جانوروں و پرندوں کے انڈے و گوشت  سے تیار کردہ غذائیں فرحت بخش و بیماریوں سے پاک ہونے کے باعث کسی قسم کی کوئی بیماری پھیلنے کا خدشہ دور دور تک محسوس نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر قسم کا اجناس اپنی کاوشوں سے حاصل شدہ ہوتا ہے تو اس میں کسی قسم کی ملاوٹ کا خوف نہ  ہونے کے باعث نہایت زود ہضم غذائیں کھانے کو میسر ہوتی ہیں۔ذرائع آمد و رفت کے لئے پیدل  چلنے کو ترجیح دی جاتی ہے جب کہ دور دراز سفر کے لئے اپنی بیل گاڑی، گدھے، خچر یا گھوڑے استعمال میں لائے جاتے ہیں جن کی پرورش و علاج معالجہ اپنے طور پر ہی کیا جاتا ہے جس کا بہ حیثیت  و بوقت ضرورت استعمال میں لانا ایک روایت بن چکی ہے۔

گویا الف سے لے کر "ے"    تک یعنی پیدائش سے موت تک تمام کی تمام زندگی فطرت سے اس قدر ہم آہنگ ہوتی ہے کہ زندگی کے ہر لمحے آسانی ، صحت و تندرستی اور خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز  نہیں کہ ان کی زندگی میں دکھ بیماری یا پریشانی ہوتی نہیں ، ایسا نہیں  ہے، لیکن کبھی کبھار بہت ہی کم پریشانی و دکھ درد کو جس خوش اسلوبی اور ہمت و استقامت سے یہ لوگ جھیل لیتے ہیں وہ فطرت سے غیر آہنگ زندگی گذارنے والے کبھی نہیں جھیل سکتے۔

 


 

پیر، 21 اگست، 2023

ڈیپریشن کیوں ہو آخر

 

اکثر اوقات ہم انجانے میں فطرت سے ہم آہنگ عمل کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا۔

"جو تیری مرضی "میں ایک مجبوری کی سی کیفیت نمایاں ہےجس کے بعد صبر کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن خوشی سے اپنی دل کی آواز پر فطرت کے نظام سے ہم آہنگ ہونے میں کوئی مجبوری کا شائبہ نہیں  ہوتا لہٰذا صبر کی نوبت کیونکر آئے۔ خوشی سے زہر پینے سے انسان مرتا نہیں، محض لفاظی ہے لیکن خوشی سے فطرت کے نظام سے جُڑ جانے سے دل کو اطمینان نصیب ہوتا ہے کہ جو خالقِ کائنات کر رہا ہے وہی ہم بھی کر رہے ہیں تو اضطراب کیسا؟ منفی قوتیں دم توڑ دیتی ہیں ، مثبت کیفیت کی قوت ہمارے اندر جو جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے اس کے آگے کسی قسم کی دیوار نہیں ٹھہر سکتی کیونکہ خالقِ کائنات کے نظام کی فریکوئینسی کے ساتھ ریزوننس میں  ہمیں وہ تمام اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جو خالق کے پاس ہیں۔گویا زندگی کو پُر اطمینان بنانے کے لئے یہ پہلا فارمولہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو فطرت کے نظام سے ہم آہنگ رکھیں۔ایک زاویہ سے دیکھا جائے تو انداز تو یہ بھی وہی ہے کہ "جو تیری مرضی" لیکن اس میں کوئی زور، زبردستی اور مجبوری نہیں بلکہ ہم نے خوشی سے اپنے با ہوش و حواس  سکون کی خاطر یہ راستہ چُنا ہے۔

1۔ مجبوری میں "جو تیری مرضی" سے زندگی میں آسانیاں تو پیدا ہو جائیں گی لیکن قلبی اطمینان حاصل نہ ہو پائے گا۔

2۔ خوشی سے "جو تیری مرضی" سے زندگی میں نہ صرف آسانیاں حاصل ہوں گی بلکہ ایک عجیب قسم کا ذہنی و قلبی سکون میسر ہوگا۔

3۔ انجانے میں "جو تیری مرضی" سے اضطرابی کیفیت کا احساس ہی نہ ہوگا کیونکہ کبھی اضطرابی کیفیت سے پالا ہی نہیں پڑتا ۔

کہنے میں اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے، یہ کہنا بہت آسان ہے کہ اپنی زندگی کا رخ شمال سے جنوب یا مشرق سے مغرب کی جانب موڑ دو لیکن ہے تقریباً ناممکن، ایک رخ جاتی ہوئی زندگی کو دوسرے رخ لے کر چلنے سے زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے یعنی درج بالا تین اقدام میں سب سے پہلے تیسرا، پھر دوسرا اور پھر پہلے کا نمبر آتا ہے لیکن اگر کوئی انسان دوسرے نمبر پر تحریر شدہ قدم اٹھا لے اور اس پر ثابت قدم رہے تو اس سے بہتر زندگی اور کس کی ہوگی؟ کیونکہ انجانے میں "جو تیری مرضی" پر چلنے والے کو تو کسی دیگر کیفیت کا احساس ہی نہیں۔ مجبوری میں "جو تیری مرضی" والے کو ہر سانحہ کے بعد احساس کی کیفیت سے دوچار ہوتے وقت پتہ چلے گا کہ مثبت و منفی قوت کے اثرات ہوتے کیسے ہیں۔

غرض یہ کہ ہماری زندگی کے کسی حصے میں بھی ہمیں احساس ہوجائے کہ فطرت کے نظام سے ہم آہنگ ہونے کے بعد کس قدر آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کسی وقت بھی ڈیپریشن یا مایوسی کی سی کیفیت طاری نہ ہو۔

 

 


 

اتوار، 20 اگست، 2023

موت کا وقت

 

اپنے بے شمار اعمال کے باعث ہمارے اندر منفی سوچ پنپ رہی ہوتی ہے اور ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا ۔ بلاوجہ اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہوئے دوسروں کو غلط سمجھتے رہتے ہیں  جیسے ایک عام خوش فہمی یہ ہوتی ہے کہ میں نے تو فلاں رشتہ دار یا دوست کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا، دل کی ہر بات بتا دی، کوئی راز باقی نہ رہنے دیا  اور  میں تو ایک کھلی کتاب ہوں جو چاہے پڑھ لے لیکن سامنے والے رشتہ دار یا دوست نے اس کے باوجود مجھ سے کچھ نہ کچھ چھپا لیا ، اس نے مجھے اپنا نہیں سمجھا ، چالاکی کی میرے ساتھ اور اب یہ وقت آنے پر مجھے میری ان باتوں کے ذریعے بلیک میل کر ے گا جو مجھے بتانی نہیں چاہیے تھیں جب کہ حقیقت بالکل مختلف ہوتی ہے  کہ ہم نے بھی مصلحتاً کچھ نہ کچھ چھپایا ہوتا ہے ،  ہم اس کی دلیل اپنے اندر رکھتے ہیں کہ یہ بات بتانا تو ضروری نہ تھا کیونکہ ہر انسان اپنا بہترین وکیل ہوتا ہے جس وجہ سے اپنے ہر جرم کی وضاحت بھی رکھتا ہے اور دلیل تو اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ سامنے والے کو  بالکل ہی بے وقوف سمجھ کر قائل کرنے کی ناکام کوشش  میں ہر قسم کی ناراضگی بھی مول لینے کو تیار ہوتا ہے۔

خالقِ کائنات کے بارے میں بھی ہم ایک ایسی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں  کہ  اس نے اپنی نشانیوں کے ذریعے اپنے تمام راز اپنی مخلوق کے سامنے کھول کر رکھ دئے ہیں جب کہ ایک اس قدر نمایاں پہلو ہم جانتے ہوئے بھی اس سے غافل رہتے ہیں جیسے اپنی موت کے بارے میں تو ہم بھول ہی جاتے ہیں کہ ہمیں  یہ اندازہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہماری  موت کب لکھی ہے، حد تو یہ ہے کہ بسترِ مرگ پر آخری سانسوں میں بھی ہمیں  زندہ رہنے کی امید اس شدت سے ہوتی ہے کہ ہم  ابھی نہیں مریں گے جس کے باعث اگر ہم مرتے  نہیں تو علی الاعلان دعویٰ کرتے ہیں  کہ دیکھا ہم  نے اپنی قوت ارادی کے ذریعے موت کو بھی ٹال دیا  جب کہ حقیقت میں موت اس وقت لکھی ہوئی نہیں ہوتی اور خالق کے لکھے ہوئے وقت پر ہی آتی ہے جس کا ہمیں ہرگز ہرگز  علم ہی نہیں ہوتا۔گویا خالقِ کائنات نے ہم سے ایک  نہایت ہی نمایاں راز پوشیدہ رکھا ہوتا ہے جب کہ بقیہ بے شمار اپنی خصوصیات  اپنی نشانیوں کے ذریعے یا کسی نہ کسی طرح ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی ہوئی ہیں۔لہٰذا جیسے خالقِ کائنات نے اپنے آپ کو ایک کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا لیکن ایک  نہایت ہی اہم راز " موت کا وقت"  پوشیدہ رکھا اسی  اصول کی  بنیاد پر اگر کوئی رشتہ دار یا دوست کوئی راز چھپا کر ہمیں  اپنے دل کی تمام باتیں بتا دیتا ہے تو یہ فطرت کے عین مطابق ہے جس کو ہمیں در گذر کر کے اپنے لئے منفی قوت کے طور پر استعمال نہیں ہونے دینا چاہئے ۔

اکثر اوقات ہم انجانے میں فطرت سے ہم آہنگ عمل کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا۔


 

جمعہ، 18 اگست، 2023

مذہب نعرے لگانے کا نہیں عمل کا نام ہے

 

ضروری وضا حت

میں یہ کتاب کسی ایک مذہب یا کسی ایک نظریہ کے پیروکاروں کے لئے نہیں لکھ رہا اور نہ ہی میری یہ کوشش ہوگی کہ انسان کو اس فلسفے کی جانب مائل کروں کہ زندگی کے لئے کسی مذہب یا نظریہ کی کوئ ضرورت ہی نہیں۔ ان دونوں موضوعات پر ان گنت کتابیں پہلے ہی موجود ہیں۔ اپنی تحریر کے ذریعے کوئ نیا فلسفہ یا سائنس کی کوئ ایجاد بھی منظرِ عام پر لانے کی خواہش بھی نہیں۔ میری کوشش محض یہ ہو گی کہ ایک نہایت عام سی بات جو ہم زندگی کی مصروفیات میں بھول جاتے ہیں اس کی یاد دہانی کرادوں اور وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی بہتر طور سے گذارنے اور اپنے کسی بھی عمل سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف نہ پہنچانے کے لئے کس قسم کا طرزِ زندگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

میرا کسی بھی مذہب یا کسی بھی نظریہ پر نکتہ چینی کرنے کا قطعاً کوئ ارادہ نہیں اور نہ ہی مجھے اس کا حق پہنچتا ہے لیکن اس سلسلے میں انجانے میں اگر کسی کی دل آزاری ہو تو نہایت ادب و خلوص کے ساتھ پیشگی معذرت کا طلبگار ہوں۔ نہ تو میں کوئ مبلغ ہوں اور نہ کسی کی جانب سے مجھے ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ میں اپنے یا کسی خاص نظریہ، مذہب یا فرقہ کی جانب مائل کرنے کی کوشش کروں کیونکہ انسانیت کو جوڑنا میری زندگی کا نصب العین ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ میں اپنے عمل سے ثابت کرسکوں کہ جو بات کسی دوسرے انسان کو کہوں پہلے اس پر عمل کروں جس کی میں نے حتیّٰ الوسع کوشش کی اور اپنی زندگی کو ایک مرتبہ پھر بچپن سے شروع کیا کیونکہ نئی اور آنے والی نسلوں کو زندگی کے آداب بتانے تھے۔ اس موضوع پر ایک کتاب لکھی "اچھے شہری بنیں" ۔ پیرا ماؤنٹ پبلشنگ انٹر پرائز نے شائع کی جسے خاصی پذیرائی ملنے سے میری ہمت بڑھی تو سوچا اپنے جیسوں کے لئے بھی کچھ لکھ جاؤں۔

سید مسرت علی

سینئر انسٹرکٹر (ریٹائرڈ)

منیجمنٹ ٹریننگ یونٹ

پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز

 


 

جمعرات، 17 اگست، 2023

آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے؟

 

ایک زمانے میں بین لاقوامی شہرت کے حامل کرکٹ کے کھلاڑ ی کو گھر سے اسٹیڈیم آنے جانے کا کرایہ مل جانا بڑی بات ہوتی تھی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جس میں کرکٹ کے کھلاڑیوں سے مشہورِ زمانہ فلمی اداکارائیں دوستی کرنے کو ترستی تھیں، اس دور میں طنزیہ شعر جو مشہور ہؤا وہ تھا کھیلو گے  کودو گے تو بنو گے نواب، پڑھو گے لکھو گے تو ہوگے خراب۔ اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں دیگر طنزیہ اشعار، مقولے یا محاورے بھی بنتے اور بگڑتے رہے جیسے بچوں سے پوچھا جاتا کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی خواہش کا اظہار کرتے کہ ہم بڑے ہوکر ڈاکٹر یا انجینئر  بنیں گے ،اب وہ وقت آیا ہے  جس میں بچے کہنے لگے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر چیف جسٹس یا آرمی چیف بنیں گے ، کسی نے تو نام ہی لے دیا کہ میں ملک ریاض بنوں گا۔بچہ تو بچہ ہی ہوتا ہے اس کو کیا معلوم کہ قسمت کسے کہتے ہیں اور قسمت کے فیصلے کون کرتا ہے؟   کوئی بات نہیں شعور کے بعد فہم و فراست والی اسٹیج میں جب اس جستجو میں پڑیں گے تو ان کو آشکار ہو جائیگا کہ  کچھ بھی بننے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن اس کے متوازی نظام میں جو تبلیغ ان بچوں کو ایک کشمکش کا شکار کرتی ہے وہ ہے حلال و حرام کا فلسفہ۔اگر اس کو فلسفہ کہیں تو مرتے دم تک سمجھ نہ پائیں لیکن اگر خالقِ کائنات کا   حکم جانیں تو ایک لمحہ بھی نہیں لگتا حلال کو جائز و حرام کو ناجائز قبول کرنے میں۔سبحان اللہ!


 

بدھ، 16 اگست، 2023

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا

   
 

انسانوں کو دنیا میں جو مصیبت بھی پیش آتی ہے وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انسانوں کے تمام اعمال کا نتیجہ ان پر مسلط نہیں کرتا بلکہ بہت سی باتیں وہ معاف بھی کر دیتا ہے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کو ان کے تمام اعمال کی سزا دینے لگے تو زمین پر ایک کیڑا بھی رینگنے نہ پائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں انسانی سوسائٹی میں جن مصائب اور آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے بلکہ خود ہمارے اعمال میں سے کچھ اعمال کا نتیجہ بھی ہوتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اس کی طرف سے اسباب سے ہٹ کر ملنے والی سزا کا پہلو بھی شامل ہے۔ اور اگر اسباب کے دائرہ میں دیکھا جائے تو بھی یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ انسانی معاشرہ کو صحیح طور پر چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں جب ان کی پابندی نہیں ہوگی تو معاشرے کا نظام بگڑ جائے گا۔ اور یہ بگاڑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ اصول و قواعد کی خلاف ورزی کرنے والوں کی طرف سے ہوگا۔ جیسا کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ کسی مشینری کو چلانے کے لیے مشینری بنانے والے کے بیان کردہ اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو مشینری کا نظام کس طرح بگڑ جاتا ہے۔ اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ یہ دنیا ضروریات پوری کرنے کی حد تک ہے، خواہشات کا پورا کرنا اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ آج تک کسی انسان کی خواہشات اس دنیا میں پوری ہوئی ہیں اور نہ پوری ہو سکتی ہیں۔ اس لیے تمام انسان ضروریات کے دائرہ میں رہیں گے تو اس دنیا کے موجودہ وسائل سے سب کا گزارہ ہوتا رہے گا، لیکن جونہی کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ توڑ کر خواہشات کی تکمیل کے خیال سے وسائل ذخیرہ کرنا شروع کر دیں گے تو ان چند لوگوں کی یہ ادھوری خواہشات بہت سے لوگوں کی حقیقی ضروریات کا خون کر دیں گی۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے اردگرد کھلی آنکھوں سے افراد، طبقات، اور اقوام و ممالک کے ہر دائرہ میں کر رہے ہیں۔ دنیا میں انسانی آبادی اور اس کے لیے ضروری وسائل دونوں کا پیدا کرنے والا ایک ہی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ کام دو الگ الگ محکموں کا نہیں ہے کہ دونوں کے درمیان رابطہ کار کے فقدان اور ایک دوسرے کی کارگزاری سے بے خبری کا احتمال ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں جتنے انسان پیدا کیے ہیں ان کی ضروریات کے لیے وسائل بھی اتنے ہی پیدا فرمائے ہیں۔ آبادی اور وسائل میں عدم توازن کا جو شور مچایا جا رہا ہے یہ حقائق کے منافی ہے، اور وسائل کے بیشتر حصوں پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی اقوام نے اپنے استحصال پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ ورنہ اس وقت بھی دنیا میں جو وسائل موجود ہیں ان کی تقسیم اگر منصفانہ ہو تو موجودہ انسانی آبادی کی ضروریات کے لیے وہ کافی ہیں۔ اصل مسئلہ تقسیم کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وسائل پیدا کر کے امتحان اور آزمائش کے طور پر ان کی تقسیم کا کام انسانی معاشرہ پر چھوڑ دیا ہے ۔ اس تقسیم میں خدائی اصولوں کو نظر انداز کر کے کچھ گروہوں اور طبقات نے جو من مانی شروع کر رکھی ہے یہ سارا فساد اسی کا ہے اور پوری دنیا اسی فساد کی دلدل میں دھنسی جا رہی ہے۔

  

پیر، 14 اگست، 2023

آخر دنیا میں غریب اور مشکلات میں گھرے انسان کیوں ہیں

 

جب تک  خالقِ کائنات  کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کو پسِ پشت نہ ڈالا اور "جو تیری مرضی" پہ اکتفا     نہ کیا  ، اس وقت تک اس کا جواب بھی نہ ملا کہ آخر دنیا میں غریب اور مشکلات میں گھرے انسان کیوں ہیں۔یوں تو کوئی نہ کوئی توجیح نکال کر اپنے آپ کو تسلی دے دیتا تھا لیکن کل جب ایک  اوپن ائیر ریسٹورنٹ  کی کرسی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا تو ایک بچہ آیا اور پوچھنے لگا  'صاحب ! آپ کی چپل پر پالش کر دوں ،  میں نے ہاں کردی۔ اس بچے نے اتنی عمدہ پالش کی کہ میری چپل بالکل نئی ہو گئی، سوچا کہ اس نے جو اپنی مزدوری  مانگی ہے اس سے کچھ زیادہ پیسے اس کو دے دوں لیکن اچانک خیال آیا کہ اگر وہ محنت کرکے اپنا  پیٹ پالنا و دیگر ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتا ہے تو میں بِلا محنت کے پیسے اس کو نہ دوں تو بہتر ہے۔ اس نے پیسے لئے اور آگے بڑھ گیا۔ گھر آکر مجھے  اتنا سکون محسوس ہؤا کہ بیان سے باہر کیونکہ یقین ہوگیا کہ خالقِ کائنات نے کسی کو زیادہ دے دیا اور کسی کو کم، جس کی وجہ سمجھ آ گئی ۔ فطرت کا نظام  بے عیب ہے، اس نظام کو تخلیق دینے والا، اس کا بانی ہی اس کو سب سے بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے، لہٰذا اس کی مرضی۔ اگر وہ اس انداز میں نظام کی تخلیق نہ کرتا تو غریب محنت کش تو بھوکا ہی مر جاتا اور امیر کی وہ ضروریات کون پوری کرتا جنہیں وہ خود سر انجام نہیں دے پاتا۔

گویا ہمیں بلاوجہ اپنے تفویض کردہ دائرے سے باہر نکل کر فضول باتیں سوچ کر ابلیس کی ٹیم میں شامل ہونے کے خطرات مول لینے کے بجائے اپنے ہر عمل اور اپنی سوچ کو فطرت سے ہم آہنگ رکھنا چاہئے تاکہ خالقِ کائنات ہم سے راضی رہے۔


بدھ، 9 اگست، 2023

حق ہی اصل طاقت ہے

 

جس کی لاٹھی اس کی بھینس یا مائٹ از رائٹ  "طاقتور صحیح ہے" ایک مقولہ  ہے جس میں  صورتِ حال کے مطابق مثبت اور منفی دونوں صفات ہیں ،  یہ زیادہ تر  بیان کرتا ہے کہ اقتدار پر براجمان  وہ لوگ  ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟ بیشتر یہ منفی صفت میں استعمال ہوتا ہےکہ طاقتور  کو اپنے اعمال پہ پورا اختیار ہے جو غلط کام  بھی کر سکتا ہے اور اس غلط کو صحیح ثابت کرنے کا پورا حق رکھتا ہے ۔جس میں آزادئیِ رائے یا اختلافِ رائے کی کسی کو  قطعئی اجازت نہیں ہوتی۔ زمانہ قدیم میں بادشاہوں نے اپنے قابلِ اعتبار جنگجوؤں کے ذریعے کمزور بادشاہتوں کو اپنے قبضہ میں لیا اور یوں طاقتور سے طاقتور بادشاہتیں جنم لیتی گئیں۔ طاقتور بادشاہ اپنے مطلب اور فائدے کے قوانین بناتے گئے جن کو بادشاہ کے حامیوں کی حمایت جاری رہی جبکہ مخالفوں کو ایسی سیاسی صورت حال سےاخلاقی طور پر اختلاف ہی رہا اور وہ اس کو ناانصافی سمجھتے رہے۔

طاقتور کو طاقتور مان لینا ایک کمزور کی مجبوری ضرور ہے لیکن جرمنی کے ڈکٹیٹرایڈولف ہٹلر اور شہنشاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی مانند  کمزور کے ساتھ زیادتیوں وناانصافیوں کے باوجود کس بُرے انجام کے ساتھ دونوں کو اقتدار اور  اس دنیا سے رخصت ہونا پڑا جبکہ ہٹلر سمجھتا تھا کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ تا قیامت حکمراں رہے گا اور اسی طرح رضا شاہ سمجھتا تھا کہ اس کے حامی  تا قیامت قائم و دائم رہیں گے اور وہ کبھی بھی بادشاہ سے عام آدمی کی سطح پر نہیں آئیگا۔بنی نوع انسان کی  حالیہ تاریخ بھی ان دونوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتی۔

ایک منفی صفات والی طاقت کی ناانصافیاں جب حد سے آگے نکلتی ہیں تو اس سے بڑی طاقت اس کو رد کرنے کے لئے جنم لے لیتی ہے جیسے عراق  کے صدام حسین  کےعوام پر  مظالم حد سے بڑھ کر  کویت پر قبضہ کی جانب بڑھے تو اس سے بڑی قوتیں اکٹھی ہو کر اس کو نیست و نابود کرنے کے لئے وجود مین آ گئیں اور بالآخر صدام حسین کا وجود ہی ختم کر ڈالا۔ گویا ایک طاقتور بادشاہت کے خاتمے کے لئے اس سے زیادہ طاقتور بادشاہتیں اکٹھی ہو گئیں اور دنیا کو ماننا پڑا کہ یہی حق ہے، پس وقت کی مناسبت سے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس " کی صفات بھی بدل جاتی ہیں۔

اصل مدعا یہاں یہ ہے کہ ہم اپنا عمل فطرت سے ہم آہنگ کیسے کریں جس کے لئے سادہ سا اصول اپنا لیں  کہ اپنے سے زیادہ طاقتور کو "طاقتور" مان لیں یا پھر اس سے زیادہ "طاقتور" بن کر ثابت کریں کہ وہ غلط ہے اور آپ صحیح ہیں۔

طاقتور کو طاقتور مان لینا ہی ایک فطری امر ہے تو فطرت سے ہم آہنگی کے لئے طاقتور کے حکم کی تعمیل کرنے میں ہی عافیت ہے جس کے نتیجے میں کوئی فساد کھڑا نہیں ہوتا۔  قدیم تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت طاقتور بادشاہتیں بھی طویل عرصہ قائم نہ رہ سکیں ، چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ "حق ہی اصل طاقت ہے"۔ 


 

منگل، 8 اگست، 2023

انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے

 

انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے

*****************************

انسان نے اپنی قدر و منزلت خود کم کی اور مزید کرتا چلا جارہا ہے۔ بعض مرتبہ مزاح میں کوئی بات کی ہوئی اصل بات سے زیادہ معنی خیز ہوتی ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا:-

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

اور مزاح نگار نے اس کو یوں پیش کیا

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا

طنز و مزاح میں بھی جو بات منہ سے نکلتی ہے وہ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوتی ہے اسی لئے اکثر اصل بات سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔

قبل از تاریخ کے انسان نے پہلے طاقت کے بل بوتے پر زمین کے ٹکڑوں پر قبضہ کرکے بنی نوع انسان کو قبائل میں تقسیم کیا پھر دولت کے بل بوتے پر اور جب کوئی اور ہتھیار نہ مل سکا تو مذہبی و سیاسی بنیادوں پر تقسیم روا رکھی جو تا حال جاری ہے۔ عقل و دانش کی عطا میں فراوانی کو مثبت انداز میں انسانیت کی خدمت کے مقابلے میں انسانیت کی تقسیم در تقسیم کے لئے ایک سُراب کی مانند اس راستہ پر لگا دیا جس میں ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ شہرت کا ایسا چسکا ملایا کہ بات انٹرنیٹ سے شروع ہوکر واٹس ایپ گروپس تک آن پہنچی تا آنکہ پسند و ناپسند کے زہر نے ان گروپس کو تقسیم در تقسیم کیا، شہرت کی چمک میں حسد کے کینسر نے وسیع الدماغی اور وسیع القلبی کو تقریباً بھسم کر دیا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت کی ملمع کاری نے انسانی عظمت کو فرعون کی ممی بنا کر اونچی اونچی احرامِ مصر نما پتھروں میں دفن کر دیا ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انسان ابھی بھی اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھ رہا ہے




 

بدھ، 2 اگست، 2023

خود نمائی کی دوڑ سوشل میڈیا پر



آج تک جتنی بھی عظیم ہستیاں گزری ہیں ان میں سے کسی نے خود نمائی کی دوڑ میں حصہ نہیں لیا بلکہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا کام کیا خواہ وہ کوئی غار ہو، کسی مندر، کلیسا یا مسجد کا ممبر ہو ، کسی درخت کا سایہ ہو یا کوئی خود ساختہ لیبارٹری ہو۔ جب ان سے کوئی بڑا کام سر زد ہوگیا تو دنیا والوں نے خود ان کو تلاش کیا اور پھر ان سے اعلان کروایا کہ انہوں نے کیا پا لیا ہے۔ یہ اعلان کسی ریڈیو، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر نہیں اور نہ ہی ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں ہؤا بلکہ گنتی کے چند معتبر لوگوں کے سامنے ہؤا جو رفتہ رفتہ محلہ ، بستی ، گاؤں ، شہر ، ملک و برِّ اعظم اور آخر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اب یہ اس دریافت، ایجاد  یا خالقِ کائنات کی جانب سے نزول پر منحصر ہوتا کہ اس  میں کتنی سچائی ہے یا کتنا   بنی نوع انسان کے لئے کار آمد ہے  ۔ ان دونوں حیثیات کی جانچ پڑتال کے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ٹیسٹ ہؤا کرتے اور مختلف الخیال طبقات سے ان کی تصدیق کرائی جاتی ۔ جب اطمینان کے ساتھ  یہ مرحلہ طے پا جاتا تو پھر کسی ایسے پلیٹ فارم پر یہ مدعا لے جایا جاتا جو تمام طبقات کو قابل قبول ہو، کئی دن و سال اس پر بحث ہوتی اور اس کے بعد سب کے متفق ہونے پر ایک سرکاری طریقہ کار کے ذریعے بین الاقوامی ادارے کے سامنے پیش کرکے اس کی تصدیق کرنے کے بعد جو اعلان ہوتا وہ مستند ہؤا کرتا۔ لیکن یہاں پر بھی یہ نوٹ کیا جائے کہ درج بالا تمام طریقہ کار کسی دریافت یا ایجاد کی حد تک تو ٹھیک تھا مگر خالقِ کائنات کی جانب سے کسی پیغام کو انسانیت تک پہنچانے کا ہر گز یہ طریقہ نہ ہوتا بلکہ وہ تو اس ہستی کی اپنی ذمہ داری ہؤا کرتی کہ وہ اس پیغام کو کس طرح صحیح ثابت کرے اور اگر اس کے بارے میں کوئی ہدایات جاری کرنی ہیں توہ اس کا کیا طریقہ کار ہو، اس پروسیس میں بھی عمریں بیت جایا کرتیں ، بعض مرتبہ تو اس پیغام کو کوئی ماننے کو تیار ہی نہ ہوتا اور بغاوت کے رویئے بھی جنم لیا کرتے جو تا حال بھی اپنے آثار رکھتے ہیں۔

گویا بنی نوع انسان کے ارتقائی عمل میں فطرت کا کردار ہمیشہ اہم اور مرکزِ نگاہ رہا ہے ۔ اس کے لئے کوئی دو ار دو چار والا فارمولہ نافذ نہیں ہؤا اور نہ کوئی ایسا صریح قانوں بنا جو فوری نافذالعمل کرکے انسانی تہذیب کے ارتقائی عمل کا حصہ بنے۔بقول شخصِ اس کے لئے بے شمار پاپڑ بیلے گئے ہیں تب ارتقاعِ بنی نوع انسان نے مختلف مراحل طے کئے ہیں جو آ ج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور  ابد تک رہے گا۔اس دورا ن قوموں کی زندگی میں بالکل اسی طرح مدو جزر آئے ہیں جیسے ایک انسان کے موڈ میں آتے ہیں یعنی ہمارا موڈ جیسے بنتا و بگڑتا رہتا ہے کبھی خوشی اور کبھی ڈیپریشن کا شکار ہوتی ہے طبیعت، بالکل ایسے ہی قوموں کے وجود کو بھی جھٹکے لگتے ہیں۔ کوئی قوم بھی زیرو سے سو پر ایک دن یاا یک سال میں نہین پہنچی بلکہ صدیاں بھی لگی ہیں قوموں کے عروج و زوال میں۔اکثر تو ایسا بھی ہؤا کہ اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باعث ان قوموں کا وجود ہی مٹ گیا لیکن بیشتر اپنے اعمال ، لگن و شب و روز محنت کے باعث قومیں عروج کی بلندیوں پر براجماں ہوئیں خواہ ان کو کوئی رہنما ملا یا نہ ملا، لیکن یہ سچ ہے کہ عموماً کسی نہ کسی رہنما نے ہی قوموں کی تقدیر بدلنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ سو ان رہنماؤں کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا گیا۔ 


 

منگل، 1 اگست، 2023

گردشِ ایام

 

خالقِ کائنات نے گردشِ ایام کا سلسلہ زمین کے اپنے محور کے گرد گھومنے اور زمین کے سورج کے گرد چکر لگانے کا مرہونِ منت رکھا ہے جس سے انسانی گھڑی کے چوبیس گھنٹے دن و رات میں تبدیل ہوتے ہیں۔ دن سارا بظاہر روشن ہوتا ہے لیکن اس میں بھی کہیں نہ کہیں میرے یا آپ کے لئے کئی ایسے لمحات آتے ہیں جن میں روشن پہلو کم اور تاریکی کے اثرات  زیادہ پائے جاتے ہیں، گویا زندگی میں مکمل یکسانیت یا ٹھہراؤ نہیں ہوتا ۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسا اس وجہ سے رکھا گیا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی چادر میں اپنا  نصب العین اپنے اعمال کے مطابق اس میں بُن سکیں، اب یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم زندگی کے کینوس پر کالے رنگ زیادہ بھرتے ہیں، سفید یا کئی اور دیگر رنگ  بھی بکھیرتےہیں۔

اسی طرح جب ہم کسی دوسرے انسان کے بارے میں تصویر کشی کریں تو اس میں سارے تاریک رنگ بھر دینا مناسب نہیں بلکہ کوشش کرکے اس میں کچھ نہ کچھ روشن پہلو بھی نکال لینا چاہییں۔بصورت دیگر ہمیں اس دنیا میں کوئی بھی اپنا محسوس نہ ہوگا ، سب دشمن ہی لگیں گے جن سے ہم اپنا دکھ درد بھی نہ بانٹ پائیں گے۔اس کے ساتھ اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اگر ہم کسی اپنے کے ساتھ اپنا دکھ درد بانٹ رہے ہیں تو اپنے غم و پریشانیاں اتنی نہ بتا دیں کہ سامنے والا بھی پریشان ہو جائے اور ہماری دل جوئی کی بجائے ہم سے بھاگنے میں ہی عافیت جانے۔ہمیں جتنا سکون اپنی پریشانی کسی کو بتانے کے بعد محسوس ہوتا ہے، آپ آزما کر دیکھیںِ، دوسرے کی پریشانی سن کر بھی ایک عجیب راحت سی محسوس ہوگی کہ یہ شخص تو ہم سے زیادہ پریشان حال ہے ، کیوں نہ اس کا مسئلہ حل کرنے میں اس کی مدد کی جائے، اور یوں ہمیں اپنی پریشانی کی شدت کم کرنے  میں مدد ملے گی۔انسانوں کے دیگر انسانوں کے ساتھ مختلف قسم کے رشتے ناطے ہوتے ہیں لیکن خونی رشتوں کا خاص مقا م اور ان کی خاص اہمیت ہوتی ہے جن میں والدین، بہن بھائی اور شادی کے بعد اپنی اولاد۔ یہ وہ تعلق ہیں جن کو کبھی ختم  نہیں کیا  جاسکتا خواہ  ان میں کتنی ہی دراڑیں  آ جائیں، فاصلے کتنے ہی بڑھ جائیں ان کی حرارت میں کمی نہیں لائی جاسکتی اس لئے نہ صرف ان کی قدر کرنی ہوتی ہے بلکہ ان کا خاص مقام ہوتا ہے۔اگر مقام میں ذرا سی بھی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے تو خاندانی نظام دھڑام سے نیچے آن پڑتا ہے۔ان رشتوں میں تلخی خواہ کتنی بھی بڑھ جائے، اتنی اذیت ناک نہیں ثابت ہوتی جتنا کہ تعلق بالکل ختم کر دینے میں۔گردشِ ایام میں جس طرح دن رات سے اور رات دن سے جڑا ہوتا ہے بالک اسی طرح یہ خون کے رشتے ہوتے ہیں ان کو ایک  دوسرے سے جدا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

بڑے عظیم اور منفرد ہوتے ہیں وہ انسان جو غیروں کے ساتھ اپنی خون کے رشتوں کی مانند سلوک روا رکھتے ہیں اور ہر آزمائش میں پورے اترتے ہیں، میں نے ایسے انسانوں کے چہروں پر ایک عجیب سا اطمینان دیکھا ہے، ان کی زندگی کے مسائل خود بہ خود حل ہوتے دیکھے ہیں اور ان کی زندگی نہایت پر سکون نظر آتی ہے، ان کو کبھی حالات سے شکوہ کرتے نہیں سنا اور نہ ہی وہ حالات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔

الّلہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کی غم خواری کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

ہماری زمین کے اوقات اور ہم

  بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور دیگر سیاروں کی مانند خلا میں معلق ہے اس کا محور 23.5  درجے پر جھکا ہؤا ہے ۔ محوری جھکاؤ ک...