یہ بلاگ تلاش کریںMusarratsyed Ali

منگل، 27 جون، 2023

خالقِ کائنات کی مسقل مزاجی



کائنات میں کسی شے کا مشاہدہ کریں ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ خالق میں کس قدر مستقل مزاجی ہے، جو اس نے سوچ لیا کر دیا ، کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کی ہر مخلوق میں بھی یہی خصوصیت بدرجئہ اُتم پائی جاتی ہے مع سوائے انسان کے۔ انسان کا بچہ ماں کے پیٹ سے لے کر آخر دم تک وقت و حالات ، ارد گرد کے ماحول ، کچھ نہیں تو اپنی مرضی  کے حساب سے ہی گرگٹ کی مانند رنگ بدلتا رہتا ہےجس کے نتائج بھی اسی انداز میں برآمد ہوتے ہیں۔اپنے ہی کرتوت کے باعث اپنی پسند کے بر خلاف نتائج کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا اور منفی نتائج        کا ذمہ دار ہر حال میں دوسرے لوگوں ،    ماحول و حالات کو گردانتا ہے، جب کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھے تو ذمہ داری خالقِ کائنات پر منتقل کرکے "اللہ بہتر کریگا" کہہ کر اطمینان سے بیٹھ جاتا ہے۔ حکمرانوں کے ہاں پیدا ہوئے بچوں کی پرورش کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ان میں مسقل مزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ ان کی سوچ کا  انداز خالقِ کائنات سے اس حد تک تو ملتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا اور سب سے طاقتور سمجھتے ہیں لیکن انصاف کا پیمانہ خالق کے پیمانے سے قطعئی مختلف ہوتا ہے جس میں ان کے ترازو کا وہی پلڑا بھاری ہوتا ہے جو ان کی پسند کا ہو۔گویا ان کے اعمال میں مستقل مزاجی کے بجائے خود پسندی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس عام انسان بھی کچھ اسی قسم کی خصوصیات کا مالک ہوتا ہے  لیکن کمزور ہونے کے باوجود حکمرانی کے حصول کے لئے ایک سیڑھی بھی چڑھنے کی کوشش نہیں کرتا پھر بھی اٹھتے بیٹھتے اور ہر قدم پر حکمرانوں     کو صلٰواتیں سناتا رہتا ہے جس کے باعث اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا وقت بھی اسکے پاس نہیں بچتا۔ پس ماندہ اقوام کے انسانوں میں ننانوے فی صد اپنی کوئی بھی ذمہ داری پوری نہ کرتے ہوئے بھی خود پسندی کا اس قدر شکار ہوتے ہیں کہ ان کا بس نہیں چلتا کیسے حکمراں بن جائیں۔ انسانوں کےعلاوہ دیگر تمام مخلوقات فطرت کے نظام سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہوئے چین و سکون کی زندگی گزارتی ہیں سوائے اپنے سے زیادہ طاقتور کے خوف کے باعث اپنی جان بچانی کی تدبیروں کےمطابق اپنا بندو بست کرنے کے۔

چونکہ انسان کی سوچ میں مستقل مزاجی معدوم ہوتی ہے  جو فطرت کے نظام سے قطعئی غیر آہنگ ہوتی ہے  لہٰذا تمام زندگی بے اطمینانی کی کیفیت میں بسر ہوتی ہے۔کھوکھلی و بے بنیاد خواہشات جو خوابوں سے کسی درجے کم نہیں ہوتیں ، ہر مرتبہ آنکھ کھلنے پر چکنا چور ہونے والے خوابوں پر ماتم کرنے میں جاگنے والا بچا کچھا وقت بھی خاک میں ملا دیتی ہیں۔اس قسم کے انسانوں میں کوئی سائنسی ایجاد کرنے کی صلاحیت بھی معدوم ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی خوابوں سے بھرپور پُر کشش چھٹی حِس پر اس قدر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں کہ ایسے  کوئی سائینس دان بھی  اپنی لیبارٹری میں ایک مدلل فارمولے کی بنیاد پر نتائج کا انتظار نہیں کرتا۔

ترقی پزیر اقوام میں شامل ہونے کے لئے ہمیں اپنی سوچ کے بدلنے سے شروعات کرنا ہوگی۔ جب تک قوم کا ہر فرد اپنے مزاج میں مستقل مزاجی قائم نہیں کر لیتا ، اس پر عمل پیرا نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک ترقی یافتہ ہونے کا سوچنا ایک شیخ چِلّی کی سوچ سے کچھ کم نہیں۔تقریریں و نعرے ہوا میں بھاپ کی مانند تحلیل ہونے کے بعد دیگچی میں پانی ختم ہو جانے پر جل جانے کی کیفیت سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

A Historical Day 9 May 2023

  :مئی 9،  2023  کے حوالے سے چند گذارشات   فطرت کے اصولوں سے ہٹ کر کچھ کرنا اتنا آسان بھی نہیں اور اگر کوئی ایسا کرنے کی جراؑت کرے تو اس کا ...